Tafseer-al-Kitaab - Al-Anbiyaa : 22
لَوْ كَانَ فِیْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا١ۚ فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ
لَوْ كَانَ : اگر ہوتے فِيْهِمَآ : ان دونوں میں اٰلِهَةٌ : اور معبود اِلَّا : سوائے اللّٰهُ : اللہ لَفَسَدَتَا : البتہ دونوں درہم برہم ہوجاتے فَسُبْحٰنَ : پس پاک ہے اللّٰهِ : اللہ رَبِّ : رب الْعَرْشِ : عرش عَمَّا : اس سے جو يَصِفُوْنَ : وہ بیان کرتے ہیں
اگر زمین و آسمان میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو (زمین و آسمان) دونوں (کبھی کے) درہم برہم ہوگئے ہوتے۔ پس پاک ہے اللہ رب العزت ان باتوں سے جو یہ لوگ (اس کی نسبت) بیان کرتے ہیں۔
[13] یعنی نظام عالم میں ابتری پڑجاتی۔ اللہ کے تصور و تعریف میں یہ امر داخل ہے کہ وہ مطلق الارادہ و مطلق الاختیار اور مالک کُل ہو۔ اب اگر فرض کرو کہ آسمان و زمین میں دو اللہ ہوں تو دونوں اسی شان کے ہوں گے۔ اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ عالم کی تخلیق اور اس کا انتظام دونوں کے کلی اتفاق سے ہوتا ہے یا نہیں یا گاہ بگاہ دونوں میں اختلاف بھی ہوجاتا ہے۔ اتفاق کی صورت میں دو احتمال ہیں، یا تو اکیلے سے کام نہیں چل سکتا تھا اس لئے دونوں نے مل کر انتظام کیا۔ تو معلوم ہوا کہ دونوں میں سے ایک بھی کامل قدرت والا نہیں۔ اور اگر تنہا ایک اللہ سارے عالم کا کام انجام دے سکتا تھا تو دوسرا بیکار ٹھہرا۔ اور اگر اختلاف کی صورت فرض کرلیں تو لامحالہ مقابلے میں یا تو ایک اللہ مغلوب ہو کر اپنا ارادہ و تجویز چھوڑ بیٹھے گا تو وہ اللہ نہ رہا، یا دونوں بالکل مساوی و متوازی طاقت سے ایک دوسرے کے خلاف اپنے ارادے اور تجویز کو عمل میں لانا چاہیں گے جس کا نتیجہ تصادم کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ پس معلوم ہوا کہ آسمان و زمین میں دو اللہ ہوتے تو آسمان و زمین کا نظام کبھی کا درہم برہم ہوجاتا۔
Top