Tafseer-al-Kitaab - Al-Israa : 32
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا١ۗ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ١ؕ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَؕ
ثُمَّ : پھر خَلَقْنَا : ہم نے بنایا النُّطْفَةَ : نطفہ عَلَقَةً : جما ہوا خون فَخَلَقْنَا : پس ہم نے بنایا الْعَلَقَةَ : جما ہوا خون مُضْغَةً : بوٹی فَخَلَقْنَا : پھر ہم نے بنایا الْمُضْغَةَ : بوٹی عِظٰمًا : ہڈیاں فَكَسَوْنَا : پھر ہم پہنایا الْعِظٰمَ : ہڈیاں لَحْمًا : گوشت ثُمَّ : پھر اَنْشَاْنٰهُ : ہم نے اسے اٹھایا خَلْقًا : صورت اٰخَرَ : نئی فَتَبٰرَكَ : پس برکت والا اللّٰهُ : اللہ اَحْسَنُ : بہترین الْخٰلِقِيْنَ : پید ا کرنے والا
پھر ہم نے نطفے کو خون کا لوتھڑا بنادیا، ہم ہی نے پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر (دیکھو کس طرح) ہم نے اسے ایک دوسری ہی طرح کی مخلوق بنا کھڑا کیا۔ پس (کیا ہی) بابرکت (ہستی) ہے اللہ (کی) تمام صنّاعوں سے بہتر (صنّاع) ۔
[12] آیت 12 کا مطلب یہ ہے کہ نوع انسانی کا آغاز آدم (علیہ السلام) سے کیا گیا جو ایک ایسے جوہر سے بنائے گئے تھے جو مٹی کا خلاصہ تھا۔ پھر آگے نسل انسانی کا سلسلہ توالد و تناسل سے جاری ہوا جیسا کہ سورة سجدہ آیت نمبر 2 میں فرمایا : ثم جعل نسلہ من سلٰلۃ من ماء مھین۔ (پھر ہم نے اس کی نسل نچڑے ہوئے حقیر پانی سے چلائی) چناچہ آیت 14-13 میں ان مدارج کا بیان ہے جن سے رحم مادر میں بچہ گزرتا ہے۔ یہ مدارج چھ ہیں جن کی تفصیل یہ ہے۔ 1:۔ نطفہ جو مرد کا جنسی خلیہ (Sperm) فرج اور رحم سے گزرتا ہوا رحم کی نالی (Fallopian Tube) میں داخل ہوتا ہے اور وہاں عورت کے جنسی خلیہ (Ovum) میں داخل ہو کر اس طرح ٹک جاتا ہے گویا اپنے اصلی مکان میں پہنچ گیا۔ اس حالت کو قرآن نے قرار مکین سے تعبیر کیا ہے جو نہایت چسپاں ہے۔ ان دو جنسوں کے خلیوں سے جو شے وجود میں آتی ہے، وہ ہے (Fertilised Ovum) یعنی مخلوط نطفہ جیسا کہ سورة دھر میں فرمایا '' انا خلقنا الانسان من نطفۃ امشاج '' (ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا) یہ حقیقت قرآن کے اعلان سے پہلے دنیا پر منکشف نہ ہوئی تھی۔ قرآن کے اس اعلان کے کئی صدیوں بعد سائنس نے اس حقیقت کو تسلیم کیا اس کا نام استقرار حمل ہے یعنی حمل کا ٹھہر جانا۔ یہ استقرار حمل رحم کی نالی میں واقع ہوتا ہے نہ کہ رحم میں جیسا کہ ہمارے مفسرین نے سمجھا ہے کیونکہ رحم تو ایک طرح کا مجوف خول ہے اس میں ایک ذرہ تخم کا پڑجانا قرار مکین سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تعبیر کہہ رہی ہے کہ نطفہ کو ٹھیک اپنے نوعیت کے مطابق ایک جگہ مل گئی۔ پس اس سے مقصود رحم کی نالی ہے نہ کہ پورا عضو رحم۔ 2:۔ استقرار کے فوراً بعد نطفہ بڑھنے لگتا ہے اور پانچ سے سات دن کے اندر یہ جنین (embryo) کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ جو صرف خوردبین ہی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ جنین رحم میں داخل ہو کر رحم کی دیوار سے پیوست ہوجاتا ہے۔ اس تفصیل سے صاف ظاہر ہے کہ رحم کو قرار مکین قرار دینا درست نہیں۔ کیونکہ قرآن نے قرار مکین کے الفاظ نطفہ کے لئے استعمال کئے ہیں نہ کہ جنین کے لئے۔ حمل کے تیسرے ہفتے ہی میں جنین دوگنی طوالت اختیار کرلیتا ہے۔ قرآن نے اس کو علقہ یعنی جونک سے تعبیر کیا ہے۔ 3:۔ جب یہ علقہ اور بڑھتا ہے تو اس میں گوشت کی صلابت (سختی) پیدا ہوجاتی ہے۔ قرآن نے اس کو '' مضغہ '' سے تعبیر کیا ہے۔ 4:۔ اس حالت میں ریڑھ کی ہڈی کا ڈھانچہ مضغہ میں نشوونما پاتا ہے۔ قرآن نے اس کو (فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا 14؀ۭ ) 23 ۔ المؤمنون :14) سے تعبیر کیا ہے۔ 5:۔ اس حالت میں ہڈیوں اور گوشت پوست سے مل کر ایک حیوانی صورت وجود میں آتی ہے۔ قرآن نے اس حالت کو (فكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا 14؀ۭ ) 23 ۔ المؤمنون :14) سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن اب جو صورت بنتی ہے، وہ انسان کی نہیں بلکہ عام حیوانات لبونہ (Mammals) کی مشترکہ صورت ہوتی ہے۔ یعنی انسان کا جنین ایسا ہوجاتا ہے جیسا گھوڑے، بیل، کتے اور دوسرے شیرخوار جانوروں کا ہوتا ہے۔ 6:۔ نقاش قدرت کی دستکاری اب جنین میں ایک عظیم انقلاب برپا کرتی ہے اور انسانی جسم و صورت کی خصوصیات یکایک ابھرنے لگتی ہیں حتیٰ کہ ایک بالکل نئی قسم کا تناسب و اعتدال ظہور میں آتا ہے اور شکل انسانی اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ وجود میں آجاتی ہے۔ اس آخری حالت کو قرآن نے '' خلقا اخر '' سے تعبیر کیا ہے۔ (فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ 14؀ۭ ) 23 ۔ المؤمنون :14) یہ آخری دور سب سے بڑا دور ہے یعنی ابتداء کے دو مہینے چھوڑ کر باقی تمام ایام حمل اسی دور میں بسر ہوتے ہیں۔ کتنی حیرت انگیز ہے یہ حقیقت کہ آج سے چودہ سو سال پہلے جبکہ علم الجنین (embryology) نہایت ناقص حالت میں تھا، قرآن نے اس مدارج ستہّ کا اعلان کیا جو جدید علم الجنین کی تحقیق کے ٹھیک ٹھیک مطابق ہیں اور یہ قرآن کے منجانب اللہ ہونے کی ایک اور دلیل ہے۔ ( تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۝ۭ ) 32 ۔ السجدة :2) (اس کتاب کا اتارا جانا بلاشبہ رب العالمین کی طرف سے ہے)
Top