Tafseer-al-Kitaab - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوْا : یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ جَآءَتْكُمْ : جب تم پر (چڑھ) آئے جُنُوْدٌ : لشکر (جمع) فَاَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِمْ : ان پر رِيْحًا : آندھی وَّجُنُوْدًا : اور لشکر لَّمْ تَرَوْهَا ۭ : تم نے انہیں نہ دیکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر آندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں جو تم کو دکھائی نہیں دیتی تھیں۔ اور جو کچھ تم (اس وقت) کر رہے تھے اللہ (اسے) دیکھ رہا تھا۔
[12] یہاں سے آیت 25 تک غزوہ احزاب کا بیان ہے۔ احزاب جمع ہے حزب کی جس کے معنی جماعت یا پارٹی کے ہیں۔ [13] یعنی قریش مکہ کا لشکر قبیلہ بنی غطفان کا لشکر اور یہود کا لشکر۔ ان تین لشکروں کی مجموعی تعداد تقریباً بارہ ہزار تھی۔ [14] شوال 5 ھ میں ان دشمنان اسلام نے ایکا کر کے مدینہ پر دھاوا بول دیا۔ عرب نے اتنی بڑی فوج کشی کی مثال اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی جمعیت کل تین ہزار تھی۔ سلمان فارسی ؓ کے مشورے پر نبی ﷺ نے شہر کے شمال اور غربی رخ ایک خندق کھدوائی جو تقریباً ساڑھے تین میل لمبی تھی۔ اسی لئے اس غزوے کو غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے۔ خندق کی وجہ سے دشمن مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ عرب کے لئے یہ ایک نئی حکمت جنگ تھی اور قریش اس پر دنگ رہ گئے۔ محاصرے کو ایک ماہ گزر گیا۔ اس درمیان میں پیغمبر اسلام کے حسن تدبیر سے دشمن اور حلیفوں کی آپس میں بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پھیل گئیں۔ دشمنوں کی فوج کا سردار ابو سفیان بددل ہو ہی چلا تھا کہ حکم الٰہی سے ایک روز زبردست آندھی زور کی بارش کے ساتھ آئی اور اس کی پوری زد کفار کے لشکر پر پڑی۔ خیمے اکھڑ گئے، کھانے کی ہنڈیاں الٹ گئیں اور روشنیاں بجھ گئیں۔ غرض ابتری ہر طرح پھیل گئی۔ دشمنان اسلام قدرت الٰہی کا یہ کاری وار نہ سہہ سکے اور راتوں رات بھاگ کھڑے ہوئے۔ صبح ہوئی تو میدان میں ایک دشمن بھی موجود نہ تھا۔ نبی ﷺ نے میدان کو دشمنوں سے خالی دیکھ کر فرمایا کہ اب آئندہ ہم کفار پر چڑھائی کریں گے، وہ ہم پر چڑھ کر نہ آسکیں گے۔ چناچہ یہی ہوا۔ [15] یعنی فرشتوں کی فوجیں جو کفار کے دلوں میں رعب ڈال رہی تھیں۔
Top