Tafseer-al-Kitaab - Al-Fath : 4
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْۤا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِهِمْ١ؕ وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہی وہ جس نے اَنْزَلَ : اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) فِيْ قُلُوْبِ : دلوں میں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں لِيَزْدَادُوْٓا : تاکہ وہ بڑھائے اِيْمَانًا : ایمان مَّعَ : ساتھ اِيْمَانِهِمْ ۭ : ان کے ایمان کے وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے جُنُوْدُ : لشکر (جمع) السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ عَلِيْمًا : جاننے و الا حَكِيْمًا : حکمت والا
وہ ( اللہ) ہی تو تھا جس نے اہل ایمان کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی تاکہ وہ اپنے (پہلے) ایمان کے ساتھ (ایک) ایمان (اور) بڑھا لیں۔ اور آسمانوں اور زمین کے (تمام) لشکر اللہ ہی کے ہیں اور وہ (ہر وقت کی مصلحت کا) جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔
[4] سکینت سے مراد ہے سکون و اطمینان۔ [5] یعنی باوجود خلاف طبع ہونے کے رسول کے حکم پر جمے رہے، ضدی کافروں کے ساتھ ضد نہیں کرنے لگے۔ اس کی برکت سے ان کے ایمان کا درجہ بڑھا۔ انہوں نے اوّل بیعت جہاد کر کے ثابت کردیا تھا کہ ہم اللہ کی راہ میں لڑنے مرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ ایمان کا رنگ تھا۔ اس کے بعد جب پیغمبر اسلام نے مسلمانوں کے جذبات کے خلاف اللہ تعالیٰ کے حکم سے صلح منظور کرلی تو ان کے ایمان کا دوسرا رنگ تھا کہ اپنے پرجوش جذبات کو دبا کر اللہ کے رسول کے فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کردیا۔
Top