Ahsan-ut-Tafaseer - Yunus : 21
وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُمْ اِذَا لَهُمْ مَّكْرٌ فِیْۤ اٰیَاتِنَا١ؕ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا١ؕ اِنَّ رُسُلَنَا یَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ
وَاِذَآ : اور جب اَذَقْنَا : ہم چکھائیں النَّاسَ : لوگ رَحْمَةً : رحمت مِّنْۢ بَعْدِ : بعد ضَرَّآءَ : تکلیف مَسَّتْھُمْ : انہیں پہنچی اِذَا : اس وقت لَھُمْ : ان کے لیے مَّكْرٌ : حیلہ فِيْٓ : میں اٰيَاتِنَا : ہماری آیات قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ اَسْرَعُ : سب سے جلد مَكْرًا : خفیہ تدبیر اِنَّ : بیشک رُسُلَنَا : ہمارے فرشتے يَكْتُبُوْنَ : وہ لکھتے ہیں مَا تَمْكُرُوْنَ : جو تم حیلہ سازی کرتے ہو
اور جب ہم لوگوں کو تکلیف پہنچنے کے بعد (اپنی) رحمت (سے آسائش) کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ ہماری آیتوں میں حیلے کرنے لگتے ہیں۔ کہہ دو کہ خدا بہت جلد حیلہ کرنے والا ہے۔ اور جو حیلے تم کرتے ہو ہمارے فرشتے ان کو لکھتے جاتے ہیں۔
21۔ 23۔ انسان پر جب کوئی سختی ہوتی ہے اور کوئی تدبیریں نہیں آتی تو خدا کو پکارنے لگتا ہے پھر جب اس سے نجات پالیتا ہے تو اسے خیال بھی نہیں رہتا کہ مجھ پر کوئی سختی گزری تھی صحیح بخاری و مسلم میں زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک اور روز رات کو مینہ برسا۔ حضرت ﷺ نے اس روز صبح کی نماز کے بعد لوگوں سے کہا کہ تم جانتے ہو آج رات کو خدا نے کیا کہا لوگ کہنے لگے خدا اور خدا کا رسول جانتا ہے ہم لوگوں کو کیا خبر۔ فرمایا یہ کہا کہ صبح کو جب میرے بندے اٹھیں گے تو اکثر مومن ہوں گے اور بہتیرے کافر۔ کیوں کہ رات کو جو بارش ہوئی ہے جو اس کو یوں کہے گا کہ خدا نے اپنے فضل سے مینہ برسایا ہے وہ تو مومن ہوگا اور جو یہ کہے گا کہ ستاروں کی گردش کے اثر سے یہ مینہ برسا ہے وہ کافر ہوگا۔ اس حدیث میں ایمان سے مقصود شکر گزاری اور کفر سے مراد ناشکری ہے پھر فرمایا کہ یہ ان لوگوں کے حیلے ہیں تم ان سے کہہ دو کہ اللہ کی تدبیر کے سامنے تمہارے مکرو حیلہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے اس کی پکڑ بہت سخت ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ کے فرشتے ذرہ ذرہ ان کے اعمال لکھ رہے ہیں جب تک ڈھیل ہی ہے جب پکڑے گا تو اک ذرا بھی مہلت نہ دے گا مجرم یہ گمان کر رہے ہیں کہ خدا اب عذاب نہ کرے گا یہ اسی کی شان ہے کہ تم کو خشکی میں اور دریا میں چلاتا پھراتا ہے تمہاری کشتیاں موافق ہوا پا کر منزل کی طرف جلدی جلدی جاتی دکھائی دیتی ہیں اور تم خوش ہونے لگتے ہو پھر یک بیک ایسی تیز ہوا چلتی ہے اور دریا میں جوش آنے لگتا ہے کہ کشتی ڈگ مگانے لگتی ہے پھر تو تمہاری جانوں پر آن بنتی ہے خیال کرتے ہو کہ اب پھنس گئے اس وقت خالص خدا ہی کو یاد کرتے ہو کسی بت سے مدد نہیں چاہتے جب خدا بیڑا پار لگا دیتا ہے اور خشکی پر صحیح و سلامت آجاتے ہو تو پھر وہی شرک جو تمہارے اعمال تمہیں بتلائے جائیں گے اس لئے انسان کو چاہیے کہ جب کوئی بہتری ہو تو خدا کا شکر کرے صحیح مسلم کے حوالہ سے صہیب رومی ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ راحت کے وقت شکر اور تکلیف کے وقت صبر کرنا ایمان کی نشانی ہے۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ پورے ایماندار نہیں ہیں ان کی حالت تو یہ ہے کہ وہ سختی کے وقت اللہ کو یاد کرتے ہیں اور راحت کے وقت بالکل اس کو بھول جاتے ہیں اور جو لوگ پکے ایماندار ہیں وہ راحت میں شکر گزاری سے اور تکلیف کے وقت صبر کے اجر کی امید سے غرض کسی حال میں اللہ کو نہیں بھولتے۔
Top