Taiseer-ul-Quran - Al-Hajj : 76
یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ
يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھوں کے درمیان ( آگے) وَمَا : اور جو خَلْفَهُمْ : ان کے پیچھے وَ : اور اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف تُرْجَعُ : لوٹناّ (بازگشت) الْاُمُوْرُ : سارے کام
وہ اسے بھی جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور اسے بھی جو ان سے اوجھل 105 ہے اور تمام معاملات اسی کی طرف 106 لوٹائے جاتے ہیں۔
105 ( يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا 110۔ ) 20 ۔ طه :110) یہ جملہ قرآن کریم میں چار مقامات سورة بقرہ آیت 255 (آیہ الکرسی) سورة طٰہ، آیت نمبر 110، سورة انبیائ، آیت نمبر 28، اور یہاں سورة حج کی آیت نمبر 76 میں استعمال ہوا ہے۔ اور ہر مقام پر اس جملہ سے پہلے یا آخر میں سفارش اور معبودان باطل کا ذکر ہے۔ اس جملہ میں سفارش پر پابندیوں کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ سفارش پر پابندیاں یہ ہیں۔ (1) کوئی شخص اللہ کے اذن کے بغیر سفارش نہ کرسکے گا (2) سفارش اسی کے حق میں کی جاسکے گی جس کے حق میں اللہ چاہے گا اور (3) صرف اس جرم یا خطا کے لئے جاسکے گی جس اللہ کو معاف کرنا منظور ہوگا۔ اب سب پابندیوں کو ملانے منطقی نتیجہ یہی حاصل ہوتا ہے کہ سفارش پر ہرگز تکیہ نہ کر بیٹھنا چاہئے۔ اور اس جملہ میں سفارش پر تکیہ نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ مثلاً ایک بااثر شخص کسی افسر سے مل کر کہتا ہے کہ حضور ! آپ کا فلاں ملازم جس جرم میں ماخوذ ہے اسے معاف کردیں۔ یہ میرا خاص آدمی ہے۔ اور اسر اسے یہ جواب دیتا ہے کہ تمہاری نظر تو صرف اس کے حالیہ جرم پر ہے۔ لیکن اس کا سابقہ ریکارڈ بھی بہت گندا ہے۔ لہذا اب مجھے اس کا موجودہ جرم بھی معاف کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ جس پر سفارش کرنے والا لاجواب اور بےبس ہوجاتا ہے۔ بالکل یہی صورت حال اللہ کے حضور سفارش کی ہے۔ اللہ تو ہر انسان کے پورے ریکارڈ سے واقف ہے اور یہی اس جملہ کا مطلب ہے لیکن سفارش کرنے والے کو اس کی پوری ہسٹری شیٹ کا علم ہو ہی نہیں سکتا جس کی وہ سفارش کرنا چاہتا ہے اسی لئے سفارش پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔ 106 اگرچہ یہ جملہ عام ہے اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے سپرد ہے۔ مگر یہاں ربط مضمون کے لحاظ سے اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ جن معبودوں یا بزرگوں کی سفارش پر تکیہ کیا جاتا ہے یا لوگوں کو جھوٹے دعوے دیئے جاتے ہیں یا لوگ خود ہی خود فریبی میں مبتلا ہوچکے ہیں ان کے یہ محض توہمات ہیں جو لغو اور باطل ہیں۔ ہر شخص کا انجام وہی کچھ ہوگا جو اللہ کو منظور ہوگا۔
Top