Taiseer-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 157
فَعَقَرُوْهَا فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِیْنَۙ
فَعَقَرُوْهَا : پھر انہوں نے کونچیں کاٹ دیں اسکی فَاَصْبَحُوْا : پس رہ گئے نٰدِمِيْنَ : پشیمان
مگر ان لوگوں 96 نے اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں پھر (عذاب کے ڈر سے) لگے پچھتانے
96 لیکن یہ لوگ زیادہ مدت تک اس پابندی کو برداشت نہ کرسکے۔ چوری چھپے باتیں کرتے اور دل ہی دل میں اس پابندی سے کڑھتے رہتے تھے۔ پھر جب ان کے ایمان نہ لانے پر بھی اللہ کا عذاب نہ آیا تو وہ کچھ دلیر ہوگئے۔ ان میں ایک بدکار عورتھی جس کے بہت سے مویشی تھے اور کا صی مالدار تھی۔ اس نے اپنے آشنا کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ اس اونٹنی کا قصہ پاک کردے۔ چناچہ اب اونٹنی کو مار ڈالنے کے سلسلہ میں خفیہ مشورہ ہونے لگے۔ مویشیوں کے لئے پانی اور چارے کے آدھا رہ جانے کی وجہ سے سب لوگ ہی اس اونٹنی سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ لہذا سب نے ہاں میں ہاں ملا دی۔ چناچہ وہی بدبخت زانی اس کام کے لئے تیار ہوگیا۔ چناچہ عبداللہ بن زمعہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبہ میں حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کا اور اس شخص کا ذکر کیا جس نے اونٹنی کو زخمی کیا تھا۔ آپ ~ نے فرمایا۔ وہ شخص اپنی قوم میں سب سے زیادہ بدبخت تھا۔ وہ ایک زور آور، شریر اور مضبوط شخص تھا جو اپنی قوم میں ابو زمعہ) زبیر بن عوام کا چچا ( کی طرح تھا اور اس کا نام قعار تھا (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة الشمس
Top