Taiseer-ul-Quran - Az-Zumar : 36
اَلَیْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ١ؕ وَ یُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍۚ
اَلَيْسَ : کیا نہیں اللّٰهُ : اللہ بِكَافٍ : کافی عَبْدَهٗ ۭ : اپنے بندے کو وَيُخَوِّفُوْنَكَ : اور وہ خوف دلاتے ہیں آپ کو بِالَّذِيْنَ : ان سے جو مِنْ دُوْنِهٖ ۭ : اس کے سوا وَمَنْ : اور جس يُّضْلِلِ : گمراہ کردے اللّٰهُ : اللہ فَمَا لَهٗ : تو نہیں اس کے لیے مِنْ : کوئی هَادٍ : ہدایت دینے والا
کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کافی نہیں ؟ اور یہ لوگ آپ کو ان سے ڈراتے ہیں جو اس کے سوا 52 ہیں۔ اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
52 مشرکوں کا اپنے معبودوں کے انتقام سے ڈرنا :۔ اس جملہ کے مخاطب مشرکین مکہ ہیں۔ جو اکثر آپ سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے معبودوں کی توہین کرنا چھوڑ دو ۔ ان کی شان میں جس کسی نے گستاخی کی وہ تباہ و برباد ہو کے رہ گیا۔ لہذا اگر تم ایسی باتوں سے باز نہ آئے تو تمہارا بھی یہی حشر ہوگا۔ اسی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کافی نہیں ؟ واضح رہے کہ یہ خطاب صرف مشرکین مکہ کے لئے مختص نہیں بلکہ ہر دور کے اور ہر جگہ کے مشرکوں کے لئے ہے۔ دور کیوں جائیں۔ اپنے ہاں کے ہی اولیاء اللہ کے متداول تذکرے ملاحظہ فرما لیجئے۔ ان میں آپ کو ایسا خاصا مواد مل جائے گا کہ فلاں شخص نے فلاں آستانے کی توہین کی تو چند ہی دنوں میں اس کا کاروبار تباہ ہوگیا۔ اور فلاں شخص نے فلاں بزرگ کے حق میں گستاخانہ کلمے کہے تو ایسا بیمار پڑا کہ پھر اٹھ نہ سکا۔ پھر یہ انتقام کا سلسلہ صرف زندہ بزرگوں اور پیروں سے مخصوص نہیں کہ فوت شدہ بزرگوں کے حق میں گستاخی کی جائے تو وہ بھی اپنا انتقام لے کر چھوڑتے ہیں۔ گویا انبیاء کا کام تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو صرف اللہ سے ڈرائیں اور ماسوا اللہ سے بےنیاز کردیں جبکہ ان مشرکوں کا مشن انبیاء کے مشن کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ وہ بس اپنے معبودوں اور بزرگوں کے انتقام سے ہی ڈرا ڈرا کر ان کے جال میں پھنسائے رکھتے ہیں۔ پھر ان اللہ کے پیاروں کے ذکر میں اللہ تعالیٰ خود ہی پس منظر میں چلا جاتا ہے۔
Top