Taiseer-ul-Quran - Az-Zumar : 53
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اَسْرَفُوْا : زیادتی کی عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں لَا تَقْنَطُوْا : مایوس نہ ہو تم مِنْ : سے رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی رحمت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَغْفِرُ : بخش دیتا ہے الذُّنُوْبَ : گناہ (جمع) جَمِيْعًا ۭ : سب اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہی الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : مہربان
آپ لوگوں سے کہہ دیجئے : اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں 71 پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقینا سارے ہی گناہ معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ غفور رحیم ہے
71 اسلام لانے سے پہلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں :۔ اس آیت کے انداز سے معلوم ہو رہا ہے کہ یہ کسی سوال کے جواب میں نازل ہوئی ہے اور ان لوگوں کے لئے پیغام امید لے کر آئی ہے جو دور جاہلیت میں قتل، زنا، چوری، ڈاکے اور ایسے ہی سخت گناہوں میں غرق رہ چکے تھے اور اس بات سے مایوس تھے کہ یہ قصور کبھی معاف نہ ہوسکیں گے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : 1۔ سیدنا ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ کچھ مشرکوں نے بہت خون کئے تھے اور بکثرت زنا کرتے رہے، وہ آپ کے پاس آکر کہنے لگے : آپ جو کچھ کہتے ہیں اور جس دین کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ اچھا ہے۔ کیا اچھا ہو اگر آپ ہمیں یہ بتادیں کہ ہمارا اسلام لانا ہمارے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا ؟ اس وقت ( سورة فرقان کی) یہ آیت ( وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا 68؀ۙ ) 25 ۔ الفرقان :68) تاآخر اور ( سورة زمر کی) یہ آیت (قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 53؀) 39 ۔ الزمر :53) تاآخر نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) 2۔ آپ نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے بندو ! تم رات دن گناہ کرتے ہو اور میں تمام گناہ معاف کردیتا ہوں تم مجھ ہی سے معافی مانگو۔ میں معاف کردوں گا (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ۔ باب تحریم الظلم) خ تحریف معنوی کی ایک مثال :۔ اس آیت کی بعض لوگوں نے بہت عجیب سی تاویل کی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے کہہ رہا ہے کہ آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو ! یعنی بندے اللہ کے نہیں بلکہ رسول اللہ کے ہیں۔ یہ تاویل دراصل تاویل نہیں بلکہ بدترین قسم کی تحریف ہے۔ کیونکہ یہ تاویل قرآن کی ساری تعلیم کے برخلاف ہے۔ نیز اس سے رسول اللہ کی شان بڑھتی نہیں بلکہ ان پر سخت الزام آتا ہے۔ آپ اس لئے مبعوث ہوئے تھے کہ سب لوگوں کو دوسرے معبودوں کی بندگی سے ہٹاکر خالص اللہ کے بندے بنائیں۔ نہ یہ کہ اپنے ہی بندے بنانا شروع کردیں۔ آپ خود بھی اللہ کے بندے تھے اور اس بندگی کا اقرار کرنے سے ہی ایک شخص اسلام میں داخل ہوسکتا ہے اور اس بندگی کا اقرار ہم سب نمازوں میں کئی بار کرتے ہیں۔ اس تاویل کو دیکھ کر بےاختیار ڈاکٹر اقبال (رح) کے یہ شعر یاد آجاتے ہیں : زمن برصوفی و ملا سلامے۔۔ کہ پیغام خدا گفتند مار اولے تاویل شان در حیرت انداخت۔۔ خدا و جبرئیل ومصطفی را (ترجمہ : میری طرف سے صوفی و ملا کو سلام ہو جنہوں نے ہمیں اللہ کا پیغام پہنچایا۔ لیکن ان کی تاویل نے اللہ، جبرئیل اور رسول اللہ ﷺ سب کو حیرت میں ڈال دیا (کہ ہم نے کیا کہا تھا اور ان لوگوں نے اس کا کیا مطلب لے لیا ہے)
Top