Taiseer-ul-Quran - Al-A'raaf : 146
سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَكَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ١ؕ وَ اِنْ یَّرَوْا كُلَّ اٰیَةٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِهَا١ۚ وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًا١ۚ وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًا١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ
سَاَصْرِفُ : میں عنقریب پھیر دوں گا عَنْ : سے اٰيٰتِيَ : اپنی آیات الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَتَكَبَّرُوْنَ : تکبر کرتے ہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں بِغَيْرِ الْحَقِّ : ناحق وَاِنْ : اور اگر يَّرَوْا : وہ دیکھ لیں كُلَّ اٰيَةٍ : ہر نشانی لَّا يُؤْمِنُوْا : نہ ایمان لائیں بِهَا : اس پر وَاِنْ : اور اگر يَّرَوْا : دیکھ لیں سَبِيْلَ : راستہ الرُّشْدِ : ہدایت لَا يَتَّخِذُوْهُ : نہ پکڑیں (اختیار کریں) سَبِيْلًا : راستہ وَاِنْ : اور اگر يَّرَوْا : دیکھ لیں سَبِيْلَ : راستہ الْغَيِّ : گمراہی يَتَّخِذُوْهُ : اختیار کرلیں اسے سَبِيْلًا : راستہ ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لیے کہ انہوں نے كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات کو وَكَانُوْا : اور تھے عَنْهَا : اس سے غٰفِلِيْنَ :غافل (جمع)
اور اپنی آیتوں سے ان لوگوں (کی نگاہیں) پھیر دوں گا جو بلاوجہ زمین میں اکڑتے ہیں 143 ۔ وہ خواہ کوئی بھی نشانی دیکھ لیں اس پر ایمان نہ لائیں گے۔ اور وہ راہ ہدایت دیکھ لیں تو اسے اختیار نہیں کرتے اور اگر گمراہی کی راہ دیکھ لیں تو اسے فوراً اختیار 143۔ 1 الف کرتے ہیں۔ ان کی یہ حالت اس لیے ہے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا اور ان سے بےپروائی کرتے رہے
143 تکبر کی تعریف اور علامات :۔ تکبر کی جامع تعریف درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔ عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہو۔ ایک شخص نے کہا : ہر انسان اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اس کی جوتی اچھی ہو (کیا یہ تکبر ہے ؟ ) آپ نے فرمایا اللہ خوب صورت ہے، خوبصورتی کو پسند کرتا ہے، تکبر تو یہ ہے کہ تو حق کو ٹھکرا دے اور لوگوں کو حقیر سمجھے (مسلم، کتاب الایمان۔ باب تحریم الکبروبیانہ ) یعنی تکبر کی ایک علامت تو یہ ہوتی ہے کہ متکبر انسان اللہ کے احکام کی کچھ پروا نہیں کرتا اور اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کے مقام سے بالاتر سمجھنے لگتا ہے جیسے نہ تو وہ اللہ کا بندہ ہے اور نہ ہی اللہ اس کا پروردگار ہے اور دوسری علامت یہ ہے کہ اپنے آپ کو عام لوگوں سے کوئی بالاتر مخلوق سمجھنے لگتا ہے اور دوسروں کو اپنے سے فروتر سمجھ کر ان سے ویسا ہی سلوک کرتا ہے حالانکہ اس کی اس خودسری کے لیے کوئی وجہ جواز نہیں اللہ کی زمین پر رہتے ہوئے اور اس کا رزق کھاتے ہوئے کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کا نافرمان اور متکبر بن کر رہے اسی لیے اللہ نے یہاں بغیر الحق کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ 143۔ الف تکبرکا اثر انسانی طبائع پر :۔ پورے جملہ کا مفہوم یہ ہوگا کہ بلاوجہ تکبر کرنے والوں کی نگاہیں اللہ کی آیات کی طرف اٹھتی ہی نہیں۔ خواہ پوری کی پوری کائنات اللہ کی ایسی نشانیوں سے بھری ہوئی ہو اور ایسی ہی بیشمار آیات ان کے اپنے جسم کے اندر بھی موجود ہوں یا انہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سنائی جائیں تو ان کے دل کوئی اثر قبول نہیں کرتے اور اگر کوئی خرق عادت معجزہ بھی دیکھ لیں تو اس کی تاویلات و توجیہات تلاش کرنے پر تو تیار ہوجاتے ہیں لیکن راہ راست پر آنے کا نام نہیں لیتے ہاں اگر کوئی گمراہی کی بات ہو اپنے خواہشات نفس کی پیروی کی بات ہو اللہ کی آیات کا مذاق اڑایا جا رہا ہو یا کمزور مسلمانوں پر پھبتیاں کسی جا رہی ہوں تو ایسی باتیں ان کو بہت راس آتی ہیں اور بھلی معلوم ہوتی ہیں۔
Top