Maarif-ul-Quran - Az-Zumar : 10
قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ١ؕ وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ١ؕ اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : جو اٰمَنُوا : ایمان لائے اتَّقُوْا : تم ڈرو رَبَّكُمْ ۭ : اپنا رب لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جنہوں نے اَحْسَنُوْا : اچھے کام کیے فِيْ : میں هٰذِهِ الدُّنْيَا : اس دنیا حَسَنَةٌ ۭ : بھلائی وَاَرْضُ اللّٰهِ : اور اللہ کی زمین وَاسِعَةٌ ۭ : وسیع اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُوَفَّى : پورا بدلہ دیا جائے گا الصّٰبِرُوْنَ : صبر کرنے والے اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
تو کہہ اے بندو میرے جو یقین لائے ہو ڈرو اپنے رب سے جنہوں نے نیکی کی اس دنیا میں ان کے لئے ہے بھلائی اور زمین اللہ کی کشادہ ہے صبر کرنے والوں ہی کو ملتا ہے ان کا ثواب بےشمار۔
(آیت) وَاَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ ۭ۔ اس سے پہلے جملے میں اعمال صالحہ کا حکم ہے۔ اس میں کوئی یہ عذر کرسکتا تھا کہ میں جس شہر یا ملک میں رہتا ہوں یا جس ماحول میں پھنسا ہوا ہوں، اس کا ماحول مجھے اعمال صالحہ سے روکتا ہے۔ اس کا جواب اس جملے میں دے دیا گیا کہ اگر کسی خاص ملک یا شہر یا خاص ماحول میں رہتے ہوئے احکام شرعیہ کی پابندی مشکل نظر آئے تو اس کو چھوڑ دو اللہ کی زمین بہت وسیع ہے کسی ایسی جگہ اور ایسے ماحول میں جا کر رہو جو اطاعت احکام آلٰہیہ کے لئے سازگار ہو۔ اس میں ترغیب ہے ایسی جگہ سے ہجرت کی جس میں رہتے ہوئے انسان احکام دین کی پابندی نہ کرسکے۔ ہجرت کے مفصل احکام سورة نساء میں آ چکے ہیں۔
(آیت) اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ۔ بغیر حساب سے مراد یہ ہے کہ صبر کرنے والوں کا ثواب کسی مقرر اندازے اور پیمانے سے نہیں، بلکہ بےاندازہ و بےحساب دیا جائے گا۔ جیسا کہ روایت حدیث میں آگے آتا ہے۔ اور بعض حضرات نے بغیر حساب کے معنی درخواست و مطالبہ کے لئے ہیں یعنی جیسے دنیا میں کسی کا کوئی حق کسی کے ذمہ ہو تو اسے اپنے حق کا خود مطالبہ کرنا پڑتا ہے لیکن اللہ کے یہاں صابروں کو درخواست اور مطالبہ کے بغیر ہی ان کا ثواب عطا کیا جائے گا۔
حضرت قتادہ نے فرمایا کہ حضرت انس نے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز میزان عدل قائم کی جائے گی۔ اہل صدقہ آئیں گے تو ان کے صدقات کو تول کر اس کے حساب سے پورا پورا اجر دے دیا جائے گا۔ اسی طرح نماز اور حج وغیرہ عبادات والوں کی عبادات کو تول کر حساب سے ان کا اجر پورا دے دیا جائے گا۔ پھر جب بلاء اور مصیبت میں صبر کرنے والے آئیں گے تو ان کے لئے کوئی گیل اور وزن نہیں ہوگا بلکہ بغیر حساب و اندازہ کے ان کی طرف اجر وثواب بہا دیا جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جن کی دنیاوی زندگی عافیت میں گزری تمنا کرنے لگی گے کہ کاش دنیا میں ان کے بدن قینچیوں کے ذریعہ کاٹے گئے ہوتے تو ہمیں بھی صبر کا ایسا ہی صلہ ملتا۔
حضرت امام مالک نے اس آیت میں صابرین سے مراد وہ لوگ لئے ہیں جو دنیا کے مصائب اور رنج وغم پر صبر کرنیوالے ہیں اور بعض حضرات نے فرمایا کہ صابرین سے مراد وہ لوگ ہیں جو معاصی سے اپنے نفس کو روکیں۔ قرطبی فرماتے ہیں کہ لفظ صابر جب بغیر کسی دوسرے لفظ کے بولا جاتا ہے اس سے مراد یہی ہوتا ہے جو اپنے نفس کو گناہوں سے باز رکھنے کی مشقت پر صبر کرے اور مصیبت پر صبر کرنیوالے کے لئے لفظ صابر بولا جاتا ہے۔ تو صابر علی کذا کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ یعنی فلاں مصیبت پر صبر کرنے والا۔ واللہ اعلم۔
Top