Taiseer-ul-Quran - At-Tawba : 80
اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ١ؕ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّةً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠   ۧ
اِسْتَغْفِرْ : تو بخشش مانگ لَهُمْ : ان کے لیے اَوْ : یا لَا تَسْتَغْفِرْ : بخشش نہ مانگ لَهُمْ : ان کے لیے اِنْ : اگر تَسْتَغْفِرْ : آپ بخشش مانگیں لَهُمْ : ان کے لیے سَبْعِيْنَ : ستر مَرَّةً : بار فَلَنْ يَّغْفِرَ : تو ہرگز نہ بخشے گا اللّٰهُ : اللہ لَهُمْ : ان کو ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : کیونکہ وہ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا بِاللّٰهِ : اللہ سے وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان (جمع)
آپ ان کے لئے بخشش کی دعا کریں یا نہ کریں (اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا) اگر آپ ان کے لئے ستر مرتبہ بھی دعائے مغفرت 95 کریں تو اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے اور ایسے فاسق لوگوں کو اللہ سیدھی راہ نہیں دکھاتا
95 آپ کا عبداللہ بن ابی منافق کا جنازہ پڑھانے کی وجوہ :۔ غزوہ تبوک سے واپسی کے تھوڑی ہی مدت بعد عبداللہ بن ابی بن سلول کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بیٹے کا نام بھی عبداللہ تھا اور یہ پکے سچے مسلمان صحابی تھے اور اپنے باپ کی کرتوتوں سے خوب واقف تھے۔ جب غزوہ بنی مصطلق کے واپسی سفر کے دوران عبداللہ بن ابی نے کہا تھا کہ مدینہ جا کر عزت والا (یعنی خود) ذلت والے کو مدینہ سے نکال کر باہر کرے گا۔ تو یہ اپنے باپ کی راہ روک کر کھڑے ہوگئے جس کا مطلب یہ تھا کہ میری بھی نظروں میں چونکہ تم ہی ذلیل ہو لہذا تمہیں مدینہ میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ پھر اس نے رسول اللہ سے معافی مانگی تب عبداللہ ؓ نے اپنے باپ کو مدینہ میں داخل ہونے دیا تھا۔ مگر باپ کی وفات پر خون نے جوش مارا اور طبیعت میں رحم، ہمدردی اور پدرانہ شفقت کے جذبات ابھر آئے۔ نبی سے کرتہ مانگا تاکہ اس میں باپ کو دفن کریں تاکہ شاید کچھ عذاب میں کمی واقع ہو۔ آپ نے تین وجوہ کی بنا پر اسے کرتہ دے دیا ایک یہ کہ آپ کی اپنی طبیعت میں رحم اور عفو کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا دوسرے یہ کہ اساریٰ بدر کے فیصلہ کے وقت آپ کے چچا سیدنا عباس ننگے تھے۔ وہ طویل القامت تھے۔ لہذا آپ نے عبداللہ بن ابی سے قمیص مانگی جو سیدنا عباس کے قد کے موافق تھی۔ وہ اس نے دے دی۔ آپ چاہتے تھے کہ اس احسان کا بدلہ چکا دیں۔ اور تیسرے یہ کہ اس حالت میں عبداللہ صحابی کا دل شکستہ نہ ہو۔ پھر آپ اس کی درخواست پر اس منافق کا جنازہ پڑھانے کے لیے اس کے ساتھ ہوئے نیز اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن بھی لگایا۔ مزید تفصیل درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے :۔ سیدنا ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی بن سلول مرگیا تو اس کے بیٹے عبداللہ صآپ کے پاس آئے اور درخواست کی کہ اپنا کرتہ عنایت فرمائیے تاکہ میں اپنے باپ کو اس میں کفن دوں۔ آپ نے کرتہ دے دیا۔ پھر اس نے درخواست کی کہ آپ اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ چناچہ رسول اللہ اس پر نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو سیدنا عمر ؓ نے آپ کا دامن تھام لیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ اس پر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے لوگوں پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے (منع نہیں کیا بلکہ) اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے تو ان لوگوں کے لئے دعا کرے یا نہ کرے اگر تو ستر بار بھی ان کے لیے دعا کرے تب بھی اللہ انہیں بخشے گا نہیں۔ میں ایسا کروں گا کہ ستر بار سے زیادہ دفعہ اس کے لیے دعا کروں گا۔ سیدنا عمر کہنے لگے کہ وہ تو منافق تھا اور اس کی کئی کرتوتیں یاد دلائیں مگر آپ نے (اس کے باوجود) اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ منافقوں میں جب کوئی مرجائے تو نہ اس کی نماز جنازہ پڑھو اور نہ ہی (دعائے خیر کے لیے) اس کی قبر پر کھڑے ہونا (9 : 84) (بخاری۔ کتاب التفسیر نیز کتاب الجنائز۔ باب الکفن فی القمیص) (مسلم۔ کتاب فضائل الصحابہ۔ باب من فضائل عمر) نیز اسی سورة کی آیت نمبر 84 کا حاشیہ نمبر 99 بھی اسی سے متعلق ہے۔
Top