Taiseer-ul-Quran - At-Tawba : 92
وَّ لَا عَلَى الَّذِیْنَ اِذَا مَاۤ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ١۪ تَوَلَّوْا وَّ اَعْیُنُهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَؕ
وَّلَا : اور نہ عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اِذَا : جب مَآ اَتَوْكَ : جب آپکے پاس آئے لِتَحْمِلَهُمْ : تاکہ آپ انہیں سواری دیں قُلْتَ : آپ نے کہا لَآ اَجِدُ : میں نہیں پاتا مَآ اَحْمِلُكُمْ : تمہیں سوار کروں میں عَلَيْهِ : اس پر تَوَلَّوْا : وہ لوٹے وَّاَعْيُنُهُمْ : اور ان کی آنکھیں تَفِيْضُ : بہہ رہی ہیں مِنَ : سے الدَّمْعِ : آنسو (جمع) حَزَنًا : غم سے اَلَّا يَجِدُوْا : کہ وہ نہیں پاتے مَا : جو يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کریں
اور نہ ہی ان لوگوں پر کچھ الزام ہے جو آپ کے پاس آئے کہ آپ انہیں سواری مہیا کریں تو آپ نے کہا کہ : میرے پاس تمہارے لئے سواری کا کوئی بندوبست نہیں تو وہ واپس چلے گئے اور اس غم سے ان کی آنکھیں اشکبار تھیں کہ ان کے پاس 105 خرچ کرنے کو کچھ نہیں
105 حقیقی معذوروں کی کیفیت سواری مانگنے والے :۔ اس آیت میں ایسے حقیقی مومنوں کا ذکر ہے جن کے لیے شرعی عذر موجود تھا۔ یعنی اتنے طویل سفر کے لیے سواری کا بندوبست نہ تھا تاہم وہ جہاد پر جانے کے لیے بےچین تھے۔ وہ درخواست لے کر رسول اللہ کے پاس گئے کہ آپ سواری کا کوئی بندوبست کر دیجئے۔ اتفاق سے آپ کے پاس بھی اس وقت سواری کا کوئی بندوبست نہ تھا لہذا آپ نے انہیں جواب دے دیا۔ جس سے انہیں اس قدر صدمہ ہوا کہ آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور وہ صدمہ صرف یہ تھا کہ شاید اب ہم جہاد پر نہ جاسکیں گے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ میرے ساتھیوں نے مجھے آپ کی خدمت میں سواری مانگنے کے لیے بھیجا۔ میں نے جا کر عرض کی یا رسول اللہ ! میرے ساتھیوں نے مجھے سواری طلب کرنے کے لیے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا واللہ میں تمہیں کوئی سواری نہ دوں گا۔ آپ اس وقت غصہ میں تھے مگر میں سمجھا نہیں۔ میں غمگین ہو کر واپس آیا اور اپنے ساتھیوں کو آپ کے انکار کی اطلاع دی۔ مجھے ایک تو یہ غم تھا کہ آپ نے ہمیں سواری نہ دی اور دوسرا یہ کہ آپ کہیں مجھ سے خفا نہ ہوجائیں۔ مجھے واپس آئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میں نے سنا بلال ؓ مجھے پکار رہے ہیں۔ میں نے جواب دیا تو وہ کہنے لگے چلو ! رسول اللہ آپ کو بلا رہے ہیں۔ میں حاضر خدمت ہوا تو آپ نے فرمایا یہ اونٹ کے جوڑے ہیں چھ اونٹ لے لو اور اپنے ساتھیوں سے کہنا کہ یہ اونٹ اللہ نے یا اللہ کے رسول نے تمہیں سواری کے لیے دیئے ہیں انہیں کام میں لاؤ۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ تبوک وہی غزوۃ العسرۃ) اور بخاری ہی کی ایک دوسری حدیث میں یہ تفصیل بھی موجود ہے کہ سیدنا ابو موسیٰ نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ آپ نے تو سواری نہ دینے کی قسم کھائی تھی۔ آپ نے فرمایا جب مجھے بہتر عمل کرنے کا موقع ملتا ہے تو میں وہ کام کرلیتا ہوں اور قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں۔ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور)
Top