Urwatul-Wusqaa - Yunus : 106
وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكَ وَ لَا یَضُرُّكَ١ۚ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَلَا تَدْعُ : اور نہ پکار مِنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : مَا : جو لَا يَنْفَعُكَ : نہ تجھے نفع دے وَلَا : اور نہ يَضُرُّكَ : نقصان پہنچائے فَاِنْ : پھر اگر فَعَلْتَ : تونے کیا فَاِنَّكَ : تو بیشک تو اِذًا : اس وقت مِّنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور اللہ کے سوا کسی کو نہ پکارو ، اس کے سوا جو کوئی ہے وہ نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اگر تو نے ایسا کیا تو یقینا تو بھی ظلم کرنے والوں میں گنا جائے گا
نفع حاصل کرنے اور ضرر سے بچنے کیلئے غیر اللہ کی پکار بھی ظلم عین شرک ہے 143 ؎” ولا تدع من دون اللہ “ اللہ کے سوا کسی کو نہ پکار ۔ علامہ ابن عطیہ (رح) فرماتے ہیں کہ : اس آیت کریمہ میں ” ولا تدع “ کا عطف لفظ ” اقم “ سے متعلق ہے اور اس جگہ نبی اعظم و آخر ﷺ سے خطاب کیا گیا ہے لہٰذا ان افراد امت کو تو بالاولیٰ اس سے دامن کشاں رہنا چاہئے یعنی اس جگہ اگرچہ خطاب رسول اللہ ﷺ سے ہے لیکن عمومی طور پر پوری امت اس خطاب میں شامل ہے “۔ اور علامہ ابن جریر (رح) اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ : ” اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے محمد رسول ﷺ ! اپنے خالق ، مالک اور معبود حقیقی کے علاوہ کسی صنم اور الٰہ کو نہ پکارنا کیونکہ وہ دنیا اور آخرت میں نہ آپ ﷺ کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں گے اور نہ آپ ﷺ کا کچھ بگاڑ سکیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ ان سے کسی نفع کی توقع رکھ کر یا کسی تکلیف سے ڈر کر ان کی عبادت نہ کرنا ۔ ان کے اختیار میں نفع ہے اور نہ ضرر ۔ اگر آپ سے ایسا فعل سر زد ہوگیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ ﷺ نے غیر اللہ کو پکارا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ ﷺ اس مشرک گروہ میں سے ہوجائیں گے جو ذات پر ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں “۔ یاد رہے کہ اس آیت میں ” ظلم “ سے مراد شرک ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحت نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ : یا بنی لا تشرک باللہ ان الشرک لظلم عظیم (لقمان 31 : 13) ” اے بیٹے ! اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیغ دوسرے کو اس کی ذات ، صفات اور حقوق و اختیارات میں شریک نہ ٹھہرانا کیونکہ یہ بڑا گھنائونا ظلم اور بڑی بےانصافی ہے “۔ اور حضرت ابن عباس ؓ کی روایت کے مطابق اس کو ” اظلم الظلم “ کہا گیا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ : اظلم الظلم ان تجعل للہ نذا اوھو خلقک ۔۔۔۔ ” اظلم الظلم یہ ہے کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھ کو پیدا کیا “ ۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کا ہم پلہ بنانے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ مختلف قسم کے عبادات جیسے ، دعا ، نڈر و نیاز ، استغاثہ اور استعانت وغیرہ کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بندے کی طرف پھیرنا جس کا وہ ہرگز مستحق نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی قدرت و طاقت ہے۔ زیر نظر آیت کی ہم معنی اور ہم مطلب قرآن کریم میں بہت سی آیات ہیں ۔ مثلاً : ” اے پیغمبر اسلام ! اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو ورنہ تم بھی سزا پانے والوں میں سے ہو جائو گے ۔ “ ( الشعراء 26 : 213) اور ایک جگہ ارشاد فرمایا ” اے پیغمبر اسلام ! اللہ کے سوا کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے “۔ ( القصص 28 : 88) ان دونوں آیات میں اس بات کی وضاحت فرمائی گئی ہے کہ جس کو پکارا جائے گا وہ ” الٰہ “ قرار دیا جائے گا اور الوہیت صرف اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اس میں غیر اللہ کا قطعا ً کوئی حصہ نہیں ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” لا الہ الا اللہ “ اور ایک مقام پر ارشاد الٰہی ہے کہ : ” یہ اس لئے ہے کہ اللہ ہی ” حق “ ہے اور وہ سب ” باطل “ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی بالا دست اور بزرگ و برتر ہے “ ( الحج 22 : 62) یہی وہ توحید ہے جس کو واضح کرنے کیلئے اور لوگوں کے ذہنوں میں مرقسم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کا سلسلہ شروع فرمایا اور کتابیں نازل فرمائیں ، چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : ” اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں ، اپنے دین کو اس کیلئے خالص کر کے “۔ (البینہ 90 : 5) ظاہری اور باطنی تمام عبادات کا نام ’ ’ دین “ ہے۔ علامہ ابن جریر (رح) نے بھی دعا ہی کو عبادت بتایا ہے اور کہا ہے کہ عبادات میں سے ایک عبادت دعا ہے ۔ بعض مفسرین کی یہ عادت ہے کہ وہ آیت کی تفسیر کے سلسلہ میں اس کے بعض افراد اور متصمنات کو مراد لیتے ہیں جیسے اس جگہ مثلاً دعا کا ذکر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس شخص نے کسی ایک عبادت کو قبر یا صنم یا وثن وغیرہ کی طرف منسوب کیا تو گویا اس نے اسے معبود سمجھا اور اس کو اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں شریک ٹھہرایا جس کا استحقاق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کو تھا جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے کہ :۔ ” اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود پکارے جس کیلئے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے ایسے کافر کبھی فلاح نہیں پا سکتے “۔ ( المومنون 23 : 117) اس سے معلوم ہوگیا کہ غیر اللہ کو پکارنا کفر و شرک اور ضلالت ہے۔ اس لئے جب نفع و ضرر کا کل اختیار اللہ تعالیٰ ہی کے دست قدرت میں ہے تو پھر اس کو چھوڑ کر کسی غیر کو پکارنا کتنی بڑی نادانی ہے۔
Top