Urwatul-Wusqaa - Yunus : 108
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ١ۚ فَمَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا١ۚ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِوَكِیْلٍؕ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو قَدْ جَآءَكُمُ : پہنچ چکا تمہارے پاس الْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَمَنِ : تو جو اهْتَدٰى : ہدایت پائی فَاِنَّمَا : تو صرف يَهْتَدِيْ : اس نے ہدایت پائی لِنَفْسِهٖ : اپنی جان کے لیے وَمَنْ : اور جو ضَلَّ : گمراہ ہوا فَاِنَّمَا : تو صرف يَضِلُّ : وہ گمراہ ہوا عَلَيْهَا : اس پر (برے کو) وَمَآ : اور نہیں اَنَا : میں عَلَيْكُمْ : تم پر بِوَكِيْلٍ : مختار
ان لوگوں سے کہہ دو کہ اے لوگو ! تمہارے پروردگار کی طرف سے سچائی تمہارے پاس آگئی ہے پس جو ہدایت کی راہ اختیار کرے گا تو اپنے ہی بھلے کے لیے کرے گا اور جو بھٹکے گا تو اس کی گمراہی اس کے آگے آئے گی میں تم پر نگہبان نہیں ہوں
اے لوگو ! سچائی تمہارے پاس آگئی ہے بھلائی پانے والا فائدہ میں اور بھٹکنے والانقصان میں ہوگا 145 ؎ ” الحق “ کیا ہے ؟ اس کے متعلق اس سورت کی آیت 76 میں وضاحت کردی گئی ہے۔ قرآن کریم میں تم جا بجا اس طرح کا اعلان پائو گے جیسا کہ زیر نظر آیت میں کیا گیا ۔ قرآن کریم نے گزشتہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے جو مواعظ نقل کئے ہیں ان میں ہر جگہ ایسی ہی بات پائی جاتی ہے یعنی مذہبی صداقت کی دعوت کا معاملہ سر تا سر سمجھنے بوجھنے اور سمجھ بوجھ کر اختیار کرلینے کا معاملہ ہے۔ اس میں نہ تو کسی قسم کی زبردستی ہے ، نہ کسی طرح کا لڑائی جھگڑا ۔ تمہاری بھلائی کیلئے ایک بات کہی گئی ہے اگر سمجھ میں آجائے تو مان لو ، نہ آئے تو نہ مانو ، تمہاری راہ تمہارے لئے ہماری راہ ہمارے لئے ، اگر مان لو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے ، نہ مانو گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے۔ ہر شخص اپنے نفس کا مختار ہے چاہے بھلائی کی راہ چلے اور بھلائی کمائے اور چاہے برائی کی چال چلے اور برائی کی چال چلے گا تو کسی دوسرے کا نقصان نہیں کرے گا وہ اس سے بگڑنے لگے ، اپنی اپنی راہ اور اپنی اپنی کمائیمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖج وَمَنْ اَسَآئَ فَعَلَیْہَاط وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ (41 : 46) ” جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لئے اچھا کرے گا ، جو بدی کرے گا اس کا وبال اسی پر ہوگا اور تیرا رب اپنے بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہے “۔ یعنی تیرا رب کبھی یہ ظلم نہیں کرسکتا کہ نیک انسان کی نیکی ضائع کردے اور ابدی کرنے والوں کو ان کی بدی کا بدلہ نہ دے۔ پھر ساتھ ہی واضح کردیا کہ داعی حق کی حیثیت کیا ہے وما انا علیکم بوکیل ” میں تم پر نگہبان نہیں ہوں “ یعنی میں داعی اور مذکر ہوں کچھ تم پر وکیل نہیں بنا دیا گیا ہوں یعنی میرا کام یہ ہے کہ نصیحت کی بات سمجھا دوں یہ نہیں ہے کہ نگہبان بن کر تم پر مسلط ہو جائوں اور سمجھوں کے مجھے تمہاری ہدایت کی ٹھیکہ داری مل گئی ہے۔ دوسری جگہ پیغمبر اسلام ﷺ کی مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا وما انت علیھم بجبار (50 : 45) ” اور تمہارا کام ان سے جبرا ً بات منوان انہیں ہے “ ۔ اور ایک جگہ فرمایا لست علیھم بمسطیر (88 : 23) ” تجھے ان لوگوں پر داروغہ بنا کر نہیں بٹھا دیا “۔ کہ وہ مانیں یا نہ مانیں لیکن تو انہیں راہ حق پر چلا دینے کا ذمہ دار ہو نیز جا بجا مختلف پیرایوں میں یہ حقیقتواضح کردی ہے کہ پیغمبر کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ سچائی کی پکا بلند کرنے والا ہے ، پیام حق پہنچا دینے والا ہے ، نصیحت کی بات سمجھا دینے والا ہے ، ایمان و ایمان کے نتائج کی خوش خبری دیتا اور انکار و بد عملی کے نتائج سے خبردار کردیتا ہے اس سے زیادہ اس کے سر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
Top