Urwatul-Wusqaa - Yunus : 11
وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْ١ؕ فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر يُعَجِّلُ : جلد بھیجدیتا اللّٰهُ : اللہ لِلنَّاسِ : لوگوں کو الشَّرَّ : برائی اسْتِعْجَالَھُمْ : جلد چاہتے ہیں بِالْخَيْرِ : بھلائی لَقُضِيَ : تو پھر ہوچکی ہوتی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف اَجَلُھُمْ : ان کی عمر کی میعاد فَنَذَرُ : پس ہم چھوڑ دیتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہماری ملاقات فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : وہ بہکتے ہیں
اور انسان جس طرح فائدہ کے لیے جلد باز ہوتا ہے اگر اسی طرح اللہ اسے نقصان پہنچنے میں جلد باز ہوتا تو اس کا وقت کبھی کا پورا ہوچکا ہوتا ، پس جو لوگ ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے ہم انہیں ان کی سرکشیوں میں سرگرداں چھوڑ دیتے ہیں
اس آیت میں قانون بتدریج و امہال کی طرف اشارہ ہے 20 ؎ ہم دیکھتے ہیں کہ فطرت کے تمام قوانین اپنی نوعیت میں کچھ اس طرح واقع ہوئے ہیں کہ اگر لفتوں میں انہیں تعبیر کرنا تو مشکل ہی سے تعبیر کرسکتے ہیں مگر ہاں ! فطرت کے فضل و رحمت ہی سے ایسا ممکن ہے ہمیں اور کوئی تعبیر نہیں ملے گی ۔ مثلاً اس کے قانون کا عمل کبھی فوراً اور اچانک نہیں ہوتا وہ جو کچھ کرتی ہے آہستہ آہستہ بتدریج کرتی ہے اور اس تدریجی طرف عمل نے دنیا کیلئے مہلت اور ڈھیل کا فائدہ پیدا کردیا ہے یعنی اس کا ہر قانون فرصتوں پر فرصتیں دیتا ہے اور اس کا ہر فعل عفو ودر گزر کا دروازہ آخر تک کھلا رہتا ہے۔ بلا شبہ اس کے قوانین اپنے نفاذ میں اٹل ہیں ، ان میں ردو بدل کا امکان نہیں ۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ ما یبدل الققول الدی ( 50 : 38) ” ہمارے یہاں جو بات ایک مرتبہ ٹھہرا دی گئی اس میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی “ ۔ اور اس لئے تم خیال کرنے لگتے ہو کہ ان کی قطعیت بےرحمی سے خالی نہیں لیکن تم نہیں سوچتے کے جو قوانین اپنے نفاذ میں اس درجہ قطعی اور بےپرواہ ہیں اپنی نوعیت میں کس درجہ عفو و در گزر اور مہلت بخشی و اصلاح کوشی کی روح بھی رکھتے ہیں ؟ اس لئے آیت مندرجہ میں ” ما یبدل القوی لدی “ کے بعد فرمایا ” وما انا بظلام للعبید “ ( 50 : 38) ” لیکن یہ بھی نہیں کہ ہم بندوں کیلئے زیادتی کرنے والے ہوں “۔ فطرت اگر چاہتی تو ہر حالت بیک وقت ظہور میں آجاتی یعنی اس کے قوانین کا نفاذ فوری اور نا گہانی ہوتا لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ ہر حالت ، ہر تاثیر ، ہر انفعال کے ظہور و بلوغ کیلئے ایک خاص مدت مقرر کردی گئی ہے اور ضروری ہے کہ بتدریج مختلف منزلیں پیش آئیں ۔ پھر ہر منزل اپنے آثار و انداز رکھتی ہے اور آنے والے نتائج سے خبردار کرتی رہتی ہے۔ زندگی اور موت کے قوانین پر غور کرو کہ کس در زندگی بتدریج نشو ونما پاتی ہے اور کس طرح درجہ بدرجہ مختلف منزلوں سے گزرتی ہے اور پھر کس طرح موت کمزوری و فساد کا ایک طول طویل سلسلہ ہے جو اپنے ابتدائی نقطوں سے شروع ہوتا ہے اور یکے بعد دیگرے مختلف منزلیں طے کرتا ہوا آخری نقطہ بلوغ تک پہنچا کرتا ہے ؟ تم بدپرہیزی کرتے ہو تو یہ نہیں ہوتا کہ فوراً ہی ہلاک ہو جائو بلکہ بتدریج موت کی طرف بڑھنے لگتے ہو اور بالآخر ایک خاص مدت کے اندر جو ہر صورت حال کے یکساں نہیں ہوتی درجہ بدرجہ اترتے ہوئے موت کی آغوش میں جا گرتے ہو ۔ نباتات کو دیکھو کہ درخت اگر آبیاری سے محروم ہوجاتے ہیں یا نقصان و فساد کا کوئی دوسرا سبب عارض ہوجاتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ ایک ہی دفعہ مرجھا کر رہ جائیں یا کھڑے کھڑے اچانک گر جائیں بلکہ بتدریج شادابی کی جگہ پژمردگی کی حالت طاری ہونا شروع ہوجاتی ہے اور پھر ایک خاص مدت کے اندر جو مقرر کردی گئی ہے یا تو بالکل مرجھا کر رہ جاتے ہیں یا جڑ کھوکھلی ہو کر گر پڑتے ہیں ۔ اس چیز کا نام قانون تدریج امہال ہے۔ اور زیر نظر آیت میں بھی اس بات کا ذکر ہے فرمایا دیکھو جس طرح انسان فائدہ کیلئے جلد باز ہوتا ہے اگر اسی طرح اللہ اسے نقصان پہنچانے میں بھی جلد باز ہوتا یعنی اس کا قانون جزاء ایسا ہوتا کہ ہر بد عملی کا برا نتیجہ فوراً کام کرجاتا تو اس کا وقت کبھی کا پورا ہوچکا ہوتا لیکن قانون جزاء نے یہاں ڈھیل دے رکھی ہے پس جو لوگ مرنے کے بعد ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے ہم انہیں ان کی سر کشیوں میں سرگرداں چھوڑ دیتے ہیں اور ایک وقت تک جو ان کیلئے ہمارے قانون میں مقرر ہے اسی طرح سرگرداں رہتے ہیں۔
Top