Urwatul-Wusqaa - Yunus : 36
وَ مَا یَتَّبِعُ اَكْثَرُهُمْ اِلَّا ظَنًّا١ؕ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ
وَمَا يَتَّبِعُ : اور پیروی نہیں کرتے اَكْثَرُھُمْ : ان کے اکثر اِلَّا ظَنًّا : مگر گمان اِنَّ : بیشک الظَّنَّ : گمان لَا يُغْنِيْ : نہیں کام دیتا مِنَ : سے (کام) الْحَقِّ : حق شَيْئًا : کچھ بھی اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : خوب جانتا ہے بِمَا : وہ جو يَفْعَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اور ان لوگوں میں زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہیں جو صرف وہم و گمان کی باتوں پر چلتے ہیں اور سچائی کی معرفت میں گمان کچھ کام نہیں دے سکتا ، یہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس سے بیخبر نہیں
لوگ وہم و گمان ہی سے کام لیتے ہیں حالانکہ وہم و گمان حق کے مقابلہ میں کچھ نہیں ۔ 58 اس جگہ اس کی وضاحت فرما دی گئی کہ مشرکین و منکرین کے پاس نہ کوئی دلیل عقل محکم ہے اور نہ کوئی استدلال نقلی مستحکم۔ یہ لوگ اندھیرے میں پڑے محض اٹل کے تیرے چلا رہے ہیں۔ لفظ ” ظن “ جو اس جگہ استعمال ہوتا ہے صاحب تاج العروس نے اس لفظ کی تحقیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” قرآن کریم میں لفظ ” ظن “ چار معنوں میں استعمال ہوا ہے اور یہی بات امام زمحشری نے بھی تحریر کی ہے کہ الظن الوھم و الخیال یعنی اس جگہ ” ظن “ اپنے آخری معنوں یعنی ” وہم و گمان ‘ ذ کے ہیں اور قرآن کریم کی اس آیتنے فیصلہ فرما دیا کہ ظن و گمان ” حق “ سے کچھ بھی کفایت نہیں کرتا کیونکہ حق ، حق ہے اور وہم و گمان کبھی حق کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ذرا غو کرو کہ یہ جو مذاہب ہمارے ہاں رائج ہیں یہ کیا ہیں ؟ یعنی جنہوں نے مذاہب بنائے ہیں ، جنہوں نے فلسفے تصنیف کئے ہیں اور جنہوں نے قوانین حیات تجزیہ کئے ہیں انہوں نے یہ سب کچھ علم کی بنا پر نہیں بلکہ ” گمان و قیاس ہی کی بنا پر کیا ہے اور جنہوں نے ان مذہبی اور دنیوی رہنمائوں کی پیروی کی انہوں نے بھی جان کر اور سجھ کر نہیں بلکہ محض اس گمان کی بناء پر کی کہ ایسے بڑے بڑے لوگ جب یہ کہتے ہیں اور سارے باپ دادا ان کو مانتے چلے آ رہے ہیں اور ساری دنیا یا دنیا میں اکثریت ان کی پیروی کر رہی ہے تو ضرور وہ لوگ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ اس آیت پر جتنا غور کرتے جائو گے بہت کچھ حاصل ہوگا اور جو کچھ حاصل ہوگا یقینا وہ وہم و گمان سے پاک عین علم ہوگا۔ اس لئے قرآن کریم اور صرف حقائق کا قائل ہے اور حقائق ہر روز بدلتے نہیں رہتے اور نہ ہی ان کو مرضی کے ساتھ بدلایا جاسکتا ہے اور دوسری اور ثقہ بات یہ ہے کہ حقئاق اپنے ساتھ بہت سے دلائل رکھتے ہیں اور کوئی حقیقت ایسی نہیں جو اپنے ساتھ دلیل نہ رکھتی ہو۔ اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ انسانی ظن وتخمین ، وہم و خیال جن کا شاندار نام ” حکمت وفلسفہ “ ” علوم عقلیہ “ ” علوم فطری “ ” اصول موضوعہ “ اور ” نظریات “ رکھا گیا ہے قرآن کریم ان سے مطلق مرعوب نہیں ہے بلکہ قرآن کریم حقائق کا قائل ہے جو ہر روز نہیں بدلتے اور انسانی تفہیم کا بدلتے رہنا ایک بدیہی امر ہے۔ ہاں ! اس جگہ چند باتیں یاد رکھنے کی ہیں جو اس اصول سے مستبط ہوتی ہیں مثلاً یہ کہ (1) یقینی شک سے زائل نہیں ہوتا۔ (2) نصوص کے مقابلہ میں کوئی قیاس معتبر نہیں۔ (3) اطلاق و عموم قرآنی کی تحدید و تقیید اخبار سے جائز نہیں۔ (4) دلائل جو ثبوت میں یا دلالت میں ظنی ہوں قطعی و یقینی کے معارض و مقابل نہیں ہو سکتے۔ (5) ایمانیات ، اعتقادات امرثابت و حق سے متعلق ہیں اس لئے ان میں دلائل ظنی کافی نہیں۔ (6) جب کوئی دلیل قطعی موجود نہ ہو تو دلائل ظنی پر عمل ممنوع نہیں۔ (7) مسائل فقہی میں اختلاف و اجتہاد جائز ہے کیونکہ ان کی اصل بنیاد ہی یہ ہے اور جس بنیاد پر کوئی چیز قائم ہو اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا ورنہ وہ چیز خود ختم ہوجاتی ہے۔ مختصر یہ کہ قرآن کریم نے جس ” ظن “ سے روکا ہے وہ ” ظن “ چوتھے معنی کا ” ظن “ ہے اور جس ” ظن “ کی پیروی ہم کرتے ہیں وہ پہلے تین معنوں کا ” ظن “ ہے اور ہر ” ظن “ کا ایک معنی مراد لینا قرآن کریم کے ساتھ بےانصافی ہے اور عربی لغت کے ساتھ ظلم عظیم ہے اور اس طرح اور بھی بہت سے الفاظ قرآن کریم میں موجود ہیں جن کے معنی ایک سے زائد ہیں اور ان سب کا لحاظ کرتے ہوئے جو معنی جس جگہ سیاق و سبقا کے مطابق ہوں وہی مراد لینے چاہئیں اور ہر جگہ ایک ہی معنی پر اکتفا جائز اور درست نہیں لیکن اس پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔
Top