Urwatul-Wusqaa - Hud : 10
وَ لَئِنْ اَذَقْنٰهُ نَعْمَآءَ بَعْدَ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُ لَیَقُوْلَنَّ ذَهَبَ السَّیِّاٰتُ عَنِّیْ١ؕ اِنَّهٗ لَفَرِحٌ فَخُوْرٌۙ
وَلَئِنْ : اور اگر اَذَقْنٰهُ : ہم چکھا دیں نَعْمَآءَ : نعمت ( آرام) بَعْدَ ضَرَّآءَ : سختی کے بعد مَسَّتْهُ : اسے پہنچی لَيَقُوْلَنَّ : تو وہ ضرور کہے گا ذَهَبَ : جاتی رہیں السَّيِّاٰتُ : برائیاں عَنِّيْ : مجھ سے اِنَّهٗ : بیشک وہ لَفَرِحٌ : اترانے والا فَخُوْرٌ : شیخی خور
اور اگر اسے دکھ پہنچا ہو اور اس کے بعد راحت کا مزہ چکھائیں تو پھر کہتا ہے کہ اب تو برائیاں مجھ سے دور ہوگئیں حقیقت یہ ہے کہ انسان خوش ہوجانے والا ڈینگیں مارنے والا ہے
اگر ہم اس کا دکھ دور کر کے راحت و آرام کا مزہ چکھا دیں تو پھر آپے سے باہر ہونے لگتا ہے 17 ؎ اب پھر اس فطرت بشری کا بیان شروع ہے اور اس کے مقتضائے طبعی کا بیان جاری ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ دیکھو واقعی ان گھڑ ، تربیت سے محروم انسان بھی کیسا افراط وتفریط کے دونوں سروں کے درمیان جھولا کرتا ہے۔ فرمایا کہ اگر ہجوم مصائب سے اسے نجات دے دی جاتی ہے۔ تو وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کرم کیا اور میری بےکسی پر رحم فرمایا ہے بلکہ مصائب کے ٹل جانے کو حادثات روزگار سے منسوب کرتا ہے اور خوش ہو کر اترانے لگتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ عزتیں اور یہ اقبال مندیاں ، یہ مال و دولت کی فراوانیاں ایسی چیزیں ہیں جن کا وہ اپنی ذاتی اہلیت کی وجہ سے مستحق تھا۔ ذرا غور کرو کہ جس انسان کی یہ حالت ہو ناکامی اور نا مرادی کے قت وہ حوصلہ ہار کر اور پائوں پسار کر بیٹھ رہے اور اپنے مستقبل کے بارے میں بالکل مایوس ہوجائے اور اگر اس پر فارغ البالی اور آسائشی کا دور آئے تو کبر و غرور سے زمین پر اترا کر چلنے لگے کیا اس سے کسی اچھی کام کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اگر اس کے رنج و محن کا دور اس کی ذات کیلئے تباہ کن ہوتا ہے تو اس کے عروج کا زمانہ خلق خدا کیلئے مصیبت اور بد بختی کا زمانہ ہوتا ہے ۔ ایسے شخص کی زندگی کبھی مثالی زندگی نہیں بن سکتی۔
Top