Urwatul-Wusqaa - Hud : 114
وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ١ؕ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِ١ؕ ذٰلِكَ ذِكْرٰى لِلذّٰكِرِیْنَۚ
وَاَقِمِ : اور قائم رکھو الصَّلٰوةَ : نماز طَرَفَيِ : دونوں طرف النَّهَارِ : دن وَزُلَفًا : کچھ حصہ مِّنَ : سے (کے) الَّيْلِ : رات اِنَّ : بیشک الْحَسَنٰتِ : نیکیاں يُذْهِبْنَ : مٹا دیتی ہیں السَّيِّاٰتِ : برائیاں ذٰلِكَ : یہ ذِكْرٰي : نصیحت لِلذّٰكِرِيْنَ : نصیحت ماننے والوں کے لیے
اور نماز قائم کرو اس وقت جب دن شروع ہونے کو ہو اور جب ختم ہونے کو ہو نیز اس وقت جب رات کا ابتدائی حصہ گزر رہا ہو ، یاد رکھو نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں یہ نصیحت ہے ان کے لیے جو نصیحت پذیر ہیں
نماز اپنے اوقات پر ادا کرنے کی تلقین اور برائیوں سے بچنے کی نصیحت ۔ 141 جیسا کہ پیچھے اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ قرآن کریم میں اکثر اس بات کا استعمال ہے کہ امر کا مخاطب نبی کریم ﷺ کو بنایا گیا ہے اور نہی و ممانعت کا مخاطب امت کو جس میں نبی کریم ﷺ کی عظمت شان کا اظہار ہے ہے کہ جو کام قابل ترک ہیں نبی کریم ﷺ خود ہی ان کو ترک کرتے ہیں یعنی ان کے قریب ہی نہیں جاتے۔ آپ کی فطرت سلیمہ اور طبیعت ہی اللہ تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے کہ کسی بری خواہش اور بری چیز کی طرف میلان ہی نہ ہوتا یہاں تک کہ ایسی چیزیں جو معاشرہ میں درست تصور ہوتی تھیں لیکن علم الٰہی میں ان کا حرام ہونا موجود تھا آپ ان سے بھی طبعاً پرہیز کرتے تھے۔ زیر نظر آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مخطاب کر کے آپ کو اور آپ کی پوری امت کو اقامت صلوۃ کا حم دیا ہے اور علمائے تفسیر اور صحابہ وتابعین کا اس پر اتفاق ہے کہ ” صلوۃ “ سے مراد اس جگہ موقف نماز ہے اگرچہ صلوۃ کا مفہوم بہت وسیع ہے اور پھر اقامت صلوۃ کے لفظ نے اور بھی زیادہ وسعت پیدا کردی ہے لیکن زیر نظر آیت میں ” صلوۃ “ سے مراد چونکہ صلوۃ موقت ہے اس لئے مطلب یہ ہوا کہ نماز کو اس کی ساری حقیقتوں کے ساتھ اس کے تمام مقررہ وقتوں میں ادا کرو ، تمہاری طاقت کا اصل سرچشمہ ییص ہے ، بڑا ہی نیک عمل ہے اور نیک عمل برائیاں دور کردیتا ہے۔ طرف ایک جانب کو کہتے ہیں جس لحاظ سے بھی ہو یعنی وقت کے لحاظ سے ہو یا جسم کے لحاظ سے۔ (امام راغب) ” نھار “ عرف شرعی میں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کا وقت ہے جس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ (راغب) اس طرح اس کی طرفین یعنی دو طرفین طلوع آفتاب سے پہلے اور زوال آفتاب کے بعد کے اوقات ہوئے اور اس کی تشریح خود قرآن کریم نے دوسری جگہ اس طرح کی ہے کہ ” نماز قائم کرو سورج کے ڈھلنے کے وقت سے لے کر رات کے اندھیرے تک ۔ “ (یعنی ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کے وقتوں میں) (بنی اسرائیل 17 : 78) زلفا۔ قریب ہونے کو کہتے ہیں اور ” زلفا من الیل “ رات کے دونوں کناروں کے قریب فجر اور مغرب مراد لی جائیں گی لیکن زیادہ تر اس سے مراد رات کے پہلے حصہ سے لے کر نماز مغرب اور عشاء مراد لی گئی ہے۔ زیر نظر آیت سے پچھلی آیت 113 میں ظالموں کی طرف جھکنے سے منع فرمایا تھا اور اس آیت میں بتایا گیا کہ اللہ کی طرف جھکو اور اللہ کی طرف جھکنے کا ذریعہ نماز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے مصائب میں نماز سے استعانت کا ذکر فرمایا ہے۔ بظاہر خیال ہوتا ہے کہ نماز کو مصائب سے نجات سے تعلق ، کیا مطلب ؟ اس تعلق کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان موحد ہو کیونکہ یہ خالصتًہ اسلامی اصطلاح ہے۔ اللہ کو وحدئہ لاشریک لہ ماننے والا انسان جب تمام سہاروں کو چھوڑ کر ایک اللہ کا سہارا پکڑتا ہے اور اس کے آگے گرتا ہے تو وہ جو تمام طاقتوں سے بڑھ کر طاقتور ہے اس کا ہوجاتا ہے اور پھر جب اللہ کسی کا ہوجائے تو اس کو کسی دوسرے کا ڈر اور خوف کیوں ؟ جب کہ اس کو سیدھی راہ سے ادھر ادھر ہونا ہی نہیں ہے تو ڈر کا مطلب ہی کیا ہوا۔ دوسری بات سمجھنے کی یہ ہے کہ اگر یہ سورت معراج سے پہلے کی ہے تو ظاہر ہے کہ پنج گانہ نماز کا اس میں حکم نہیں دیا گیا بلکہ نماز موقت فرض ہونے کے بعد اس سے یہ مفہوم سمجھا گیا ہے کیونکہ صلوۃ پنج گانہ کی فرضیت معراج میں ہوئی ہاں ! فی نفسہ نماز کا حکم تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ فی نفسہ نماز معراج سے قبل بھی ادا کی جاتی تھی اس کی صورت و ہئیت خواہ کچھ بھی ہو۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نیکیوں کا اثر ہمیشہ دوگنا ہوتا ہے ایک یہ کہ نیکی بذاتہ نیکی ہے اس لئے اس کے بذاتہ نتائج اچھے ہوں گے اور دوسرا وہ برائیوں کے ان اثرات کے ازالہ کے لئے بھی اکسیر کا کام دیتی ہے جو انسان سے وقتاً فوقتاً صادر ہوجاتی ہیں اور یہ بھی کہ بدی کا کفارہ نیکی ہے جب انسان نیکیاں اختیار کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ جب نیکیاں کما رہا ہوتا ہے تو بدیوں سے بچا ہوتا ہے لہٰذا جتنی نیکیاں کرے گا یقینا بدیوں سے بچے گا اور یہ بھی کہ بدی اور نیکی ایک ہی طاقت و قوت کے اچھے اور برے استعمال کا نام ہے جب انسان ان قویٰ کو صحیح موقع پر لگانا سیکھ لے گا تو بدی خود بخود دور ہوجائے گی کیونکہ ایک ہی قوت بیک وقت متضاد استعمال نہیں ہو سکتی اور اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ نیکی کی قوت و طاقت اس قدر زبردست ہے کہ بدی کی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی لیکن عمل شرط ہے خالی باتوں یہ باتوں سے یہ بات سجھ میں آنے والی نہیں ہے اور آیت کے آخر میں فرمایا گیا کہ یہ نصیحت ہے لیکن کن لوگوں کے لئے جو اس نصیحت کو قبول کرتے ہیں اور ہماری زندگی کے لئے اس ایک ہی جملہ میں بہت سبق پوشیدہ ہیں۔
Top