Urwatul-Wusqaa - Hud : 33
قَالَ اِنَّمَا یَاْتِیْكُمْ بِهِ اللّٰهُ اِنْ شَآءَ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا اِنَّمَا يَاْتِيْكُمْ : صرف لائے گا تم پر بِهِ : اس کو اللّٰهُ : اللہ اِنْ شَآءَ : اگر چاہے گا وہ وَمَآ اَنْتُمْ : اور تم نہیں بِمُعْجِزِيْنَ : عاجز کردینے والے
نوح (علیہ السلام) نے کہا اگر اللہ کو منظور ہوگا تو بلاشبہ تم پر وہ بات لے آئے گا اور تمہیں یہ قدرت نہیں کہ اسے عاجز کر دو
قوم کے مطالبہ کا جواب نوح (علیہ السلام) کی طرف سے یہ دیا گیا 48 ؎ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سرداروں کی باتوں کا جواب اس طرح دیا کہ لوگو ! عذاب الٰہی میرے اختیار میں کہاں ؟ اور ایسی باتوں پر اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اختیار کب دیتا ہے میں تو تم کو اللہ کا پیغام سنا رہا ہوں اور وہ وہی ہے جو اس نے مجھ سے کہا ہاں ! میں اب بھی یہ کہتا ہوں کہ وہ جب مناسب سمجھے گا عذاب نازل کر دے گا اور پھر تمہارے لئے کوئی راہ بھی بچ کر نکلنے کی نہیں ہوگی۔ اس طرح جو باتیں نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے درمیان ہوئیں بالکل وہی محمد رسول اللہ ﷺ کو پیش آئیں اور جو شبہات اہل مکہ کے سرداروں نے محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ظاہر کئے وہی شبہات ہزاروں سال پہلے سرداروان قوم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی رسالت میں ظاہر کئے تھے پھر ان کے جواب میں جو باتیں سیدنا نوح (علیہ السلام) کہتے تھے بعینہٖ وہی باتیں محمد رسول اللہ ﷺ نے بھی وم کے لوگوں سے کیں اور یہی باتیں آگے چل کر دوسرے انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کی قوموں کے جو قصص بیان ہوئے ان میں دکھائی گئیں کہ ہر قوم کا رویہ اہل مکہ کے رویہ سے اور ہر نبی کی تقریر پیغمبر اسلام ﷺ سے ہو بہو مشابہ ہے۔ اس بیان سے قرآن کریم مخالفین کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ انسان کی گمراہی ہر زمانے میں بنیادی طور پر ایک ہی طرح کی رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے معلموں کی دعوت بھی ہر عہد اور ہر سر زمین میں یکساں رہی ہے اور ٹھیک اسی طرح ان لوگوں کا انجام بھی ایک ہی جیسا ہوا ہے۔ یہی بات زیر نظر آیت میں بیان کی گئی ۔ فرمایا اگر اللہ چاہے گا تو اس عذاب کو لے آئے گا اور یاد رکھو کہ تم میں اتنی ہمت نہیں کہ اگر اس کا عذاب نازل ہوجائے تو تم اس کو روک دو تم اللہ کو کسی حال میں بھی عاجز نہیں کرسکتے۔
Top