Urwatul-Wusqaa - Hud : 35
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ١ؕ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُهٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ وَ اَنَا بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُجْرِمُوْنَ۠   ۧ
اَمْ : کیا يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں افْتَرٰىهُ : بنا لایا ہے اس کو قُلْ : کہ دیں اِنِ افْتَرَيْتُهٗ : اگر میں نے اسے بنا لیا ہے فَعَلَيَّ : تو مجھ پر اِجْرَامِيْ : میرا گناہ وَاَنَا : اور میں بَرِيْٓءٌ : بری مِّمَّا : اس سے جو تُجْرِمُوْنَ : تم گناہ کرتے ہو
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس آدمی نے اپنے جی سے بات گھڑ لی ہے ؟ تو کہہ دے اگر میں نے یہ بات گھڑ لی ہے تو میرا جرم مجھ پر اور تم جو جرم کر رہے ہو میں اس سے بری الذمہ ہوں !
50 ؎ یہ پیغام نوح (علیہ السلام) کو دیا گیا تھا لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کو بھی بعینہٖ یہی پیغام دیا گیا ہے کہ اگر یہ کلام اور یہ پیغام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں بلکہ میں نے خود گھڑ کر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیا ہے تو یہ جرم میرا ہے ، اس کی سزا تمہیں نہیں دی جائے گی لیکن کان کھول کر سن لو کہ یہ پیغام فی الواقع اللہ تعالیٰ کا ہے اور اس کا انکار کر کے جو جرم تم کر رہے ہو وہ معاف کیا جائے گا اور نہ اسے فراموش کیا جائے گا اس کی سزا تمہیں بھگتنی ہوگی لہٰذا تم اس سزا کیلئے تیار ہو جائو ۔ ہم نے اس پیغام کو تو نوح (علیہ السلام) کی طرف ہی وحی کیا گیا تسلیم کیا ہے اگرچہ سارے انبیاء (علیہ السلام) اور خصوصاً صاحب قرآن محمد رسول اللہ ﷺ کے حالات کے بھی مطابق ہے تا ہم بعض مفسرین نے اس کو براہ راست پیغمبر اسلام ﷺ اور آپ ﷺ کی قوم کے متعلق بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ دراصل مکہ والوں کے اعتراضات کا جواب ہے جو اس جگہ جملہ معترضہ کے طور پر بیان کیا گیا ۔ بہر حال کہا یہ گیا ہے کہ ” لوگوں کو یہ اعتراض ہے کہ اس آدمی نے اپنے جی سے بات گھڑ لی ہے “ تو اس کا جواب یہ دلوایا جا رہا ہے کہ آپ یہ اعتراض کرنے والوں کو کہہ دیجئے کہ ” اگر میں نے یہ بات گھڑی ہے تو اس کا جرم بھی تو مجھ ہی پر ہے “ پھر جو جرم کرے گا وہی اس کا خمیازہ بھگتے گا ۔ پھر جو جرم میں نے کیا اس کا وبال بھی مجھ پر ہوگا تو ظاہر ہے کہ جو جرم تم کر رہے ہو اس کا وبال بھی تم ہی پر ہوگا اور میں تو اس سے بری الذمہ ہی رہوں گا ۔ اگر بات ییھ ہے تو عنقریب اس کا فیصلہ کردیا جائے گا اور پھر بات خود بخود واضح ہوجائے گی کہ مجرم کون ہے ؟ اور جرم کس نے کیا ہے ؟
Top