Urwatul-Wusqaa - Hud : 49
تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهَاۤ اِلَیْكَ١ۚ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَاۤ اَنْتَ وَ لَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هٰذَا١ۛؕ فَاصْبِرْ١ۛؕ اِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِیْنَ۠   ۧ
تِلْكَ : یہ مِنْ : سے اَنْۢبَآءِ الْغَيْبِ : غیب کی خبریں نُوْحِيْهَآ : ہم وحی کرتے ہیں اسے اِلَيْكَ : تمہاری طرف مَا : نہ كُنْتَ تَعْلَمُهَآ : تم ان کو جانتے تھے اَنْتَ : تم وَلَا : اور نہ قَوْمُكَ : تمہاری قوم مِنْ : سے قَبْلِ ھٰذَا : اس سے پہلے فَاصْبِرْ : پس صبر کریں اِنَّ : بیشک الْعَاقِبَةَ : اچھا انجام لِلْمُتَّقِيْنَ : پر وہیزگاروں کے لیے
اے پیغمبر اسلام ! یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے وحی کے ذریعہ ہم تجھے بتلا رہے ہیں اس سے پہلے نہ تو جانتا تھا نہ تیری قوم ، بس صبر کر (منکروں کی شرارت سے دل گیر نہ ہو) انجام کار متقیوں ہی کے لیے ہے
یہ غیب کی خبریں آپ کو بذریعہ وحی سنائی جا رہی ہیں جو آپ (علیہ السلام) اور آپ (علیہ السلام) کی قوم کو معلوم نہ تھیں 68 ؎ یہ واقعات جو پڑھ کر سنائے گئے ہیں ان کا صحیح ، مستند اور مفصل علم اہل تاریخ و اہل توریت کے ناقص اور غلط تسلط بیانات سے قطع نظر اب آپ ﷺ کو وحی الٰہی سے باور کرایا جا رہا ہے تو یہ واقعہ خود نبی اعظم و آخر ﷺ کے نبی و رسول برحق ہونے کی ایک شہادت بن گیا۔ اس پر متنبہ کرنے کیلئے اس زیر نظر آیت میں ارشاد فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے طوفان کے واقعات یہ سب غیب کی خبریں ہیں جن کو نہ آپ ﷺ ہی پہلے جانتے تھے اور نہ آپ ﷺ کی قوم یعنی عرب ہی اس سے واقف تھے۔ آپ ﷺ نے ان کو بتلایا تو اس کا راستہ سوائے اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے بذریعہ وحی آپ ﷺ کو بتلایا ہے کیونکہ اگر آپ ﷺ کی قوم کے لوگ لکھے پڑھے اور تاریخ عالم سے واقفیت رکھنے والے ہوتے تو یہ خیال بھی کیا جاسکتا تھا کہ آپ ﷺ نے ان لوگوں سے سن کر یہ واقعات بیان کردیئے ہیں لیکن جب پوری قوم ان واقعات سے بیخبر تھی اور خود نبی اعظم و آخر ﷺ تعلیم حاصل کرنے کیلئے کبھی کسی دوسرے ملک یا دوسری قوم کے کسی فرد کے پاس تشریف نہیں لے گئے ہوتے تو آپ لوگوں کو بھی معلوم ہوتا کیونکہ آپ ﷺ کا تعلق بلحاظ حسب و نسب اہل مکہ ہی سے ہے اور اہل مکہ سب آپ ﷺ کی پوری زندگی کے ایک ایک واقعہ سے واقف تھے۔ اس لئے ان خبروں کا ذریعہ خود بخود متعین ہوگیا جو نبی کریم ﷺ کے برحق ہونے کی واضح دلیل ہے۔ پس آپ ﷺ صبر کریں انجام یقیناً نیک لوگوں ہی کیلئے بہتر ہے 69 ؎ آیت کے اس آخری حصے میں نبی اعظم و آخر ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اے رسول ! ﷺ آپ ﷺ بددل اور شکستہ خاطر نہ ہوں۔ آپ ﷺ کی نبوت و رسالت پر آفتاب سے زیادہ روشن دلائل کے ہوتے ہوئے بھی اگر کچھ بدبخت نہیں مانتے اور آپ ﷺ سے جھگڑا کرتے ہیں تو آپ ﷺ کو اپنے سے پہلے پیغمبر نوح (علیہ السلام) کا اسوہ دیکھنا چاہئے کہ جس طرح ان کے عہد میں آخری انجام مومنوں ہی کا اچھا ہوا اور کافروں کا ستیاناس ہوگیا آپ ﷺ کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آئے گا۔ بس جس طرح نوح (علیہ السلام) نے صبر کیا آپ ﷺ بھی اے پیغمبر ! اسی طرح صبر کریں کیونکہ یہ متعین ہے کہ انجام کار اور بالآخر کامیابی متقین ہی کو ملتی ہے اور قانون الٰہی کبھی غلط نہیں ہوگا۔ اس جگہ نوح (علیہ السلام) کی دعوت کا مختصر تذکرہ دوبارہ سن لو اور اس کے بعد انشاء اللہ العزیز ھود (علیہ السلام) کی دعوت شروع ہوگی۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت نوح (علیہ السلام) آدم (علیہ السلام) کے بعد پہلے ” نبی “ ہیں جن کو ” رسالت “ سے نوازا گیا۔ چناچہ صحیح مسلم باب شفاعت جلد اول صفحہ 97 ، ابوہریرہ ؓ سے ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ ” یا نوح انت اول الرسل الی الارض “ کہ اے نوح (علیہ السلام) آپ کو زمین پر سب سے پہلا رسول بنا کر بھیجا گیا۔ ماہرین علم الانساب نے نوح (علیہ السلام) کو ” لامک “ کا بیٹا لکھا ہے اور آپ (علیہ السلام) کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں شیث بن آدم (علیہ السلام) سے ملایا ہے اور مدت درمیان خلق آدم (علیہ السلام) و ولادت نوح (علیہ السلام) 1056 سال بتائی ہے لیکن اس کی حقیقت تخمینہ و قیاس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ قرآن کریم میں سیدنا نوح (علیہ السلام) کا واقعہ اجمالاً یا تفصیلاً تینتالیس جگہ بیان ہوا ہے جس میں زیادہ تفصیل کے ساتھ سورة ہود ، سورة الشعراء اور سورة نوح ہی میں بیان کیا گیا ہے اور مجموعی طور پر جن سورتوں میں ذکر کیا گیا ہے ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔ (آل عمران 3 : 21) ، (النساء 4 : 163) ، (الانعام 6 : 84) ، (الاعراف 7 : 59 ، 69) ، (التوبہ 9 : 7) ، (یونس 10 : 71) ، (ہود 11 : 25 ، 89) ، (ابراہیم 14 : 9) ، (الاسراء 17 : 3 ، 17) ، (مریم 19 : 58) ، (الانیاتء 21 : 76) ، (الحج 22 : 42) ، (المومنون 23 : 23) ، (الفرقان 25 : 37) ، (الشعراء 26 : 105 ، 116) ، (العنکبوت 29 : 14) ، (الاحزاب 32 : 14) ، (الصافات 37 : 75 ، 79) (ص 38 : 12) ، (ال مومن 40 : 5 ، 31) ، (الشوریٰ 43 : 13) ، (الذاریات 5 : 46) ، (النجم 53 : 52) ، (القمر 54 : 9) ، (الحدید 57 : 26) ، (التحریم 66 : 10) ، (نوح 71 : 1 تا 26) سیدنا نوح (علیہ السلام) کی بعثت سے قبل تمام قوم اللہ تعالیٰ کی توحید اور صحیح اسلامی روشنی سے یکسر نا آشنا ہوچکی تھی اور حقیقی الہ کی جگہ خود ساختہ بتوں نے لے لی تھی۔ چناچہ غیر اللہ کی پرستش اور اصنام پرستی ان کا شعار تھا۔ ان لوگوں کی رشد و ہدایت کیلئے اللہ تعالیٰ نے ان ہی میں سے ایک ہادی و رہنما مبعوث فرما دیا جس کا نام نوح (علیہ السلام) تھا۔ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو راہ حق کی طرف پکارا اور اسلام کی دعوت دی لیکن قوم نے نہ مانا اور آپ (علیہ السلام) سے نفرت کی اور حقارت کی نظر سے دیکھا خصوصاً رئوسا و امراء قوم نے ان کی تکذیب کی اور تعجب کیا کہ جس شخص کو نہ ہم پر دولت و ثروت میں برتری ہے اور نہ ہی انسانیت کے رتبہ سے برتر کوئی فرشتہ وغیرہ ہے اس کو کیا حق ہے کہ وہ ہمارا پیشوا بنے اور ہم اس کے احکام کی تکمیل کریں اور اپنے وقت کے ” پنج تن “ کو چھوڑ دیں جن کو ہمارے آبائو اجداد مانتے چلے آ رہے ہیں۔ کیا وہ سارے کے سارے غلط تھے اور ایک یہ ہی سچا انسان ہے ؟ خصوصاً جب انہوں نے دیکھا کہ قوم کے غریب اور کمزور افراد نے نوح (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کیا ہے تو مغرورانہ انداز میں بڑی حقارت سے کہتے کہ ” ہم ان کی طرح نہیں ہیں کہ تیرے تابع فرمان بن جائیں اور تجھ کو اپنا مقتدا مان لیں۔ “ وہ سمجھتے تھے کہ یہ کمزور اور پست لوگ نوح (علیہ السلام) کے اندھے مقلد ہیں نہ یہ ذی رائے ہیں اور نہ ہی ذی شعور کہ حقیقت حال کو سمجھ لیتے اور اگر وہ نوح (علیہ السلام) کی بات کی بات کی طرف توجہ بھی دیتے تو ان سے اصرار کرتے کہ پہلے ان پست اور غریب افراد قوم کو اپنے پاس سے نکال دے تب ہم تیری بات سنیں گے کیونکہ ہم کو ان سے گھن آتی ہے اور ہم اور یہ لوگ ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتے۔ نوح (علیہ السلام) اس کا ایک ہی جواب دیتے کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ اللہ کے مخلص بندے ہیں اگر میں ان کے ساتھ ایسا معاملہ کروں جس کے تم خواہش مند ہو تو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے میرے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ میں اس کے دردناک عذاب سے ڈرتا ہوں۔ اس کے ہاں اخلاص کی قدر ہے امیر و غریب کا وہاں کوئی سوال نہیں ہے اور فرمایا کہ میں تمہارے پاس اللہ کی ہدایت کا پیغام لے کر آیا ہوں نہ میں نے غیب دانی کا دعویٰ کیا ہے اور نہ فرشتہ ہونے کا۔ میں اللہ کا رسول ہوں اور دعوت و ارشاد میرا مقصد و نصب العین ہے۔ مجھے سرمایہ دارانہ بلندی ، غیب دانی یا فرشتہ ہونے سے کیا واسطہ ؟ اور یہ کمزور و نادار اور افراد قوم جو اللہ پر سچے دل سے ایمان لائے تمہاری نگاہ میں اس لئے حقیر و ذلیل ہیں کہ وہ تمہاری طرح صاحب دولت و مال نہیں ہیں اور اس لئے تمہارے خیال میں یہ نہ ” خیر “ حاصل کرسکتے ہیں اور نہ سعادت کیونکہ یہ دونوں چیزیں دولت و حشمت کے ساتھ ہیں نہ کہ نکبت و افلاس کے ساتھ۔ نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یاد رکھو کہ اللہ کی سعادت و ” خیر “ کا قانون ظاہری دولت و حشمت کے تابع نہیں ہے نہ اس کے یہاں سعادت و ہدایت کا حصول و ادراک سرمایہ کی رونق کے زیر اثر ہے بلکہ اس کے برعکس طمانت نفسی ، رضا الٰہی ، غناء قلب اور اخلاص نیت و عمل پر موقوف ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر نوح (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اس بات کا اعلان بھی کیا کہ لوگو ! مجھ کو اپنی اس ابلاغ دعوت و ارسال ہدایت میں نہ تمہارے مال کی خواہش ہے نہ جاہ و منصب کی نہ میں اجرت کا طلب گار ہوں ، اس خدمت کا حقیقی اجر وثواب اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہی بہترین قدر دان ہے جیسا کہ آپ پیچھے اس سورة ہود میں پڑھ چکے ہیں کہ قوم کے ان سرداروں نے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی کہا : ” ہم تو تم میں اس کے سوا کوئی بات نہیں دیکھتے کہ ہماری ہی طرح کے ایک آدمی ہو اور جو لوگ تمہارے پیچھے چلے ہیں ان میں بھی ان لوگوں کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا جو ہم میں کمینے ہیں اور بےسوچے سمجھے تمہارے پیچھے ہوگئے ہیں۔ ہم تو تم لوگوں میں اپنے سے کوئی برتری نہیں پاتے بلکہ سمجھتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو۔ “ نوح (علیہ السلام) نے کہا ” اے میری قوم کے لوگو ! تم نے کبھی اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل روشن پر ہوں اور اس نے اپنے حضور سے ایک رحمت مجھے بخش دی ہے (یعنی راہ حق دکھا دی ہے) مگر وہ تمہیں دکھائی نہ دے تو (میں اس کے سوا کیا کرسکتا ہوں جو کر رہاں ہوں ؟ ) کیا ہم جبراً تمہیں دکھا دیں حالانکہ تم اس سے بیزار ہو ؟ ” لوگو ! جو کچھ میں کہہ رہا ہوں تو اس پر مال و دولت کا تم سے طالب نہیں میری خدمت کی مزدوری جو کچھ ہے صرف اللہ پر ہے اور یہ بھی سمجھ لو کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں (وہ تمہاری نگاہوں میں کتنے ذلیل ہوں گے لیکن) میں ایسا کرنے والا نہیں کہ اپنے پاس سے انہیں ہنکا دوں انہیں بھی اپنے پروردگار سے (ایک دن) ملنا ہے (اور وہ ہم سب کے اعمال کا حساب لینے والا ہے) لیکن (میں تمہیں سمجھائوں تو کس طرح سمجھائوں ؟ ) میں دیکھتا ہوں کہ تم ایک جماعت ہو (حقیقت سے) جاہل۔ اور اے میری قوم کے لوگو ! مجھے بتلائو اگر میں ان لوگوں کو اپنے پاس سے نکال باہر کروں (اور اللہ کی طرف سے مواخذہ ہو جس کے نزدیک میں معیار قبولیت ایمان و عمل ہے نہ کہ تمہاری گھڑی ہوئی شرافت و رذالت) تو اللہ کے مقابلہ میں کون ہے جو میری مدد کرے گا ؟ (افسوس تم پر ! ) کیا تم غور نہیں کرتے ؟ اور دیکھو میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں ، نہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ جن لوگوں کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو اللہ انہیں کوئی بھلائی نہیں دے گا (جیسا کہ تمہارا خیال ہے) اللہ ہی جانتا ہے جو کچھ ان لوگوں کے دلوں میں ہے اگر میں (تمہاری خواہش کے مطابق) ایسا کہوں تو جونہی ایسی بات کہی میں ظالموں میں سے ہوگیا۔ “ (ہود 11 : 27 ، 31) مختصر یہ کہ نوح (علیہ السلام) نے انتہائی کوشش کی کہ بدبخت قوم سمجھ جائے اور رحمت الٰہی کی آغوش میں آجائے مگر قوم نے نہ مانا اور جس قدر اس جانب سے تبلیغ حق میں جدوجہد ہوئی اسی قدر قوم کی جانب سے بغض وعناد میں سرگرمی کا اظہار ہوا اور ایذاء رسانی اور تکلیف دہی کے تمام وسائل کا استعمال کیا گیا اور ان کے بڑوں نے عوام سے صاف صاف کہہ دیا کہ تم کسی طرح اپنے پنج تن یعنی ود ، سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر کی پرستش کو نہ چھوڑو جو کہ ہماری قوم کے بزرگ تھے اور ان کے مجسمے (بت) ان کی یاد کو تازہ رکھنے کیلئے آج بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔ اس بحث کو سورة نوح میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس سے بلاشبہ ہدایت و ضلالت کے اہم مسائل کو آشکارا کردیا گیا ہے چناچہ ارشاد الٰہی کا ترجمہ اس طرح ہے کہ : ” ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف بھیجا (اس ہدایت کے ساتھ) کہ اپنی قوم کے لوگوں کو خبردار کر دے اس سے پہلے کہ ان کے پاس ایک دردناک عذاب آئے۔ اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! میں تمہارے لئے ایک صاف صاف خبردار کردینے والا (پیغمبر) ہوں (تم کو آگاہ کرتا ہوں) کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ، اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں ایک مقرر وقت تک باقی رکھے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آجاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں جاتا ، کاش تمہیں اس کا علم ہو۔ (نوح 71 : 1 تا 4) اس طرح نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو آگاہ کردیا کہ جن گمراہوں اور اعتقادی و اخلاقی خرابیوں میں وہ مبتلا ہیں وہ ان کو اللہ کے عذاب کا مستحق بنا دیں گی اور اگر وہ ان سے باز نہ آئے تو اس کا نتیجہ یقیناً ان کی تباہی و بربادی ہوگا۔ اس میں گویا تین باتیں تھیں جو سیدنا نوح (علیہ السلام) نے اپنی رسالت کا آغاز کرتے ہوئے اپنی قوم کے سامنے بحکم الٰہی پیش کیں۔ ایک اللہ کی بندگی کرو ، دوسرے تقویٰ اختیار کرو اور تیسرے رسول کی اطاعت بجا لائو۔ اللہ کی بندگی کا مطلب یہ تھا کہ دوسروں کی بندگی اور عبادت چھوڑ کر صرف اور صرف اللہ ہی کو اپنا معبود تسلیم کر کے اس کی پرستش کرو اور اس کے احکام بجا لائو۔ تقویٰ کا مطلب یہ تھا کہ ان کاموں سے پرہیز کرو جو اللہ کی ناراضگی اور اس کے غضب کا موجب ہیں اور اپنی زندگی میں وہ روش اختیار کرو جو اللہ کا ڈر رکھنے والے لوگوں کو اختیار کرنی چاہئے۔ رہی تیسری بات کہ ” میری اطاعت کرو۔ “ تو اس کا مطلب یہ تھا کہ ان احکام کی اطاعت کرو جو اللہ کا رسول ہونے کی حیثیت سے تمہیں دیتا ہوں۔ انجام کار جب قوم کی اکثریت نے آپ کی ایک نہ سنی یعنی ہر سنی کو ان سنی کردیا تو نوح (علیہ السلام) نے بارگاہ ایزدی میں عرض کیا : ” اے میرے رب ! میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا مگر میری پکار نے ان کے فرار ہی میں اضافہ کیا اور جب بھی میں نے ان کو بلایا تاکہ تو انہیں معاف کر دے تو انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لئے اور اپنی روش پر اڑ گئے اور بڑا ہی تکبر کیا۔ پھر میں نے ان کو ہانک پکار کر دعوت دی اور میں نے ان کو اعلانیہ بھی تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی سمجھایا ، میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو ، بلاشبہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا ، تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا ، تمہارے لئے باغات پیدا کرے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کر دے گا۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کیلئے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے حالانکہ اس نے طرح طرح سے تم کو بنایا ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بہ تہ بنائے اور ان میں چاند کو ندر اور سورج کو چراغ بنایا ؟ اور اللہ نے تم کو زمین سے عجیب طرح اگایا پھر وہ تمہیں اس زمین میں واپس لے جائے گا اور اس سے یکایک تم کو نکال کھڑا کرے گا اور اللہ نے زمین کو فرش کی طرح تمہارے لئے بچھا دیا تاکہ تم اس کے اندر کھلے راستوں میں چلو۔ نوح (علیہ السلام) نے کہا اے میرے رب ! انہوں نے میری بات رد کردی اور ان (رئیسوں) کی پیروی کی جو مال اور اولاد پا کر اور زیادہ نامراد ہوگئے ہیں۔ ان لوگوں نے بڑا بھاری مکر کا جال پھیلا رکھا ہے ، انہوں نے کہا کہ ہرگز نہ چھوڑو ” ود “ ، ” سواع “ اور ” یغوث “ ، ” یعوق “ اور ” نسر “ کو انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے اور تو بھی ان ظالموں کو گمراہی کے سوا کسی چیز میں ترقی نہ دے۔ اپنی خطائوں کی بنا پر ہی وہ غرق کئے گئے اور آگ میں جھونک دیئے گئے۔ پھر انہوں نے اپنے لئے اللہ سے بچانے والا کوئی مددگار نہ پایا اور نوح (علیہ السلام) نے کہا ” اے میرے رب ! ان کافروں میں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا بدکار اور سخت کافر ہی ہوگا۔ “ (نوح 71 : 5 تا 27) اس جگہ قرآن کریم میں نوح (علیہ السلام) کی قوم کے جس مکر کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد کیا ہے ؟ ظاہر ہے کہ اس سے مراد قوم کے ان سرداروں اور پیشوائوں کے وہ فریب ہیں جن سے وہ اپنی قوم کے عوام کو حضرت نوح (علیہ السلام) کی تعلیمات کے خلاف بہکانے کی کوشش کرتے تھے۔ مثلاً وہ کہتے تھے کہ نوح (علیہ السلام) تمہیں جیسا ایک آدمی ہے ، کیسے مان لیں کہ اس پر اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے ؟ (الاعراف 7 : 63 ، ہود 11 : 27) نوح کی پیروی تو ہمارے اراذل نے بےسوچے سمجھے قبول کرلی ہے ، اگر اس کی بات میں کوئی وزن ہوتا تو قوم کے اکابر اس پر ایمان لاتے۔ (ہود 11 : 27) اللہ کو اگر کوئی رسول بھیجنا ہوتا تو کوئی فرشتہ بھیجتا (المومنون 23 : 24) اگر یہ شخص اللہ کا بھیجا ہوا ہوتا تو اس کے پاس خزانے ہوتے ، اس کو علم غیب ہوتا اور یہ فرشتوں کی طرح تمام انسانی حاجات سے بےنیاز ہوتا۔ (ہود 11 : 31) نوح اور اس کے پیروئوں میں آ کر کونسی کرامت نظر آتی ہے جس کی بناء پر اس کی فضیلت مان لی جائے۔ (ہود 11 : 27) یہ شخص دراصل تم پر اپنی سرداری جمانا چاہتا ہے۔ (المومنون 23 : 24) اور اس شخص پر کسی جن کا سایہ ہے جس نے اسے دیوانہ بنا دیا ہے۔ (المومنون 23 : 25) آپ غور کریں گے تو قریب قریب یہ ساری باتیں وہی ہیں جن سے قریش کے سردار ہمارے نبی اعظم و آخر ﷺ کے خلاف لوگوں کو بہکایا کرتے تھے اور آج بھی یہ ساری باتیں رئوسا قوم خواہ وہ مذہبی پیشوا ہوں یا سیاسی لیڈر سب پر من و عن صادق آتی ہیں لیکن ان وقت کے مذہبی اور سیاسی رہنمائوں کا نام لینا اس وقت سے بھی زیادہ مشکل ہے کیونکہ وہ مذہبی اور سیاسی راہنما اعتقادی اور عملی دونوں حالات میں مخالف تھے اور اس وقت یہ سارے کے سارے اعتقادی لحاظ سے مسلمان کہلاتے ہیں اور عملی طور پر ان لوگوں سے بھی گئے گزرے ہیں اس لئے ان کا نام لینا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔ اس جگہ نوح (علیہ السلام) کے وقت کے جن ” پنج تنوں “ کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے وہ بالکل وہی ہے جنہیں بعد میں اہل عرب نے بھی پوجنا اور پکارنا شروع کردیا تھا اور آغاز اسلام کے وقت عرب میں بھی جگہ جگہ ان کے مندر اور معبد خانے بنے ہوئے تھے۔ بعید نہیں کہ طوفان میں جو لوگ بچ گئے تھے ان کی زبان سے بعد کی نسلوں نے قوم نوح (علیہ السلام) کے قدیم معبودوں کا ذکر سنا تھا اور جب از سرنو ان کی اولاد میں جاہلیت پھیلی تو انہی معبودوں کے بت بنا کر انہوں نے پھر پوجنا شروع کردیا تھا۔ چنانچہ اس وقت ” ود “ قبیلہ قضاعہ کی شاخ بنی کلب بنی وہرہ کا معبود تھا جس کا استحقاق انہوں نے دومۃ الجندل میں بنا رکھا تھا۔ عرب کے قدیم کتبات میں ” دوام ابم “ لکھا ہوا ملتا ہے۔ کلبی کا بیان ہے کہ اس کا بت ایک نہایت عظیم الجثہ مرد کی شکل کا بنا ہوا تھا۔ قریش کے لوگ بھی اس کو معبود مانتے تھے اور اس کا نام ان کے ہاں ” ود “ تھا۔ اسی کے نام پر تاریخ میں ایک شخص کا نام ” عبدود “ ملتا ہے۔ ” سواع “ قبیلہ ہذیل کی دیوی تھی اور اس کا بت عورت کی شکل کا بنایا گیا تھا۔ ینبوع کے قریب رہاط کے مقام پر اس کا معبد واقع تھا۔ ” یغوث “ قبیلہ طے کی شاخ انعم اور قبیلہ مزحج کی بعض شاخوں کا معبود تھا۔ مذحج والوں نے یمن اور حجاز کے درمیان ” جرش “ کے مقام پر اس کا بت نصب کر رکھا تھا جس کی شکل شیر کی تھی۔ قریش کے لوگوں میں بھی بعض کا نام عبد یغوث ملتا ہے۔ ” یعوق “ یمن کے علاقہ ہمدان میں قبیلہ ہمدان کی شاخ ” خیوان “ کا معبود تھا اور اس کا بت گھوڑے کی شکل کا تھا اور شاید اسی نسبت سے اب بھی کئی ایک جگہ پر ” گھوڑے شاہ “ کے نام سے دربار موجود ہیں۔ ” نسر “ حمیر کے علاقہ میں قبیلہ حمیر کی شاخ آل ذوالکلاع کا معبود تھا اور ” بلخع “ کے مقام پر اس کا بت نصب تھا جس کی شکل گدھ کی تھی۔ سباء کے قدیم کتبوں میں اس کا نام ” نسور “ لکھا ہے اور اس کے مندر کو وہ لوگ ” بیت نسور “ اور اس کے پجاریوں کو اہل نسور کہتے تھے۔ قدیم مندروں کے جو عرب اور اس کے متصل علاقوں میں پائے جاتے ہیں ان میں سے بہت سے مندروں کے دروازوں پر گدھ کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ اس جگہ بعض مفسرین اور قصص القرآن کے مرتیین نے اعتراضاً نوح (علیہ السلام) کی اس دعا کا ذکر کیا ہے جو سورة نوح کی آیت 26 میں مذکور ہے ” اے میرے رب ! ان کافروں میں سے کوئی اس زمین پر بسنے والا نہ چھوڑا اگر تو نے ان کو چھوڑا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے۔ “ جس کے اثر سے ساری قوم تباہ ہوگئی حالانکہ نبی رحیم و کریم ہوتا ہے لہٰذا آپ نے قوم کی ہدایت کی دعا کے بجائے اس کی ہلاکت کی دعا کردی۔ حالانکہ یہ بات صحیح نہیں۔ چناچہ صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور دوسری کتب احادیث میں عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ : کانی انظر الی النبی ﷺ یحکی نسیا من الانبیاء و ضربہ قومہ فارمرہ و ھو یمسح الدام و یقول اللھم اغفر لقومی فانھم لا یعلمون (فتح الباری شرح صحیح بخاری پارہ 14 ص 295) رسول اللہ ﷺ نے گزشتہ نبیوں میں سے کسی نبی کا ذکر کیا تو فرمایا کہ اسے قوم نے مار مار کر خون آلود کردیا تب بھی اس اللہ کے بندے کی زبان سے یہی سنا گیا کہ اے اللہ ! میری قوم کو ہدایت فرما اور اس کو بخش دے کہ وہ نادان ہیں مجھے (بحیثیت رسالت) وہ پہچانتے نہیں ہیں ۔ اس پر امام نووی (رح) نے فرمایا : ھذا النبی الذی جری لہ ما حکاہ النبی ﷺ من المتقدمین و قد جری لنبینا نحر ذلک یوم احد (حوالہ مذکور) یہ نبی جس کا ذکر ہوا کوئی گزشتہ نبی ہے لیکن ہمارے نبی کریم ﷺ کے ساتھ جنگ احد میں بالکل ایسا ہی ہوا۔ بخاری کی زیر نظر حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر (رح) فتح الباری جلد 14 ص 295 میں فرماتے ہیں کہ ” لم اقف علی اسم بذا النبی صریحا و یحتمل ان یکون ھو نوح (علیہ السلام) “ مجھے اس نبی کا نام صریحاً معلوم نہیں ہوا لیکن احتمال یہی ہے کہ یہ نوح (علیہ السلام) کا واقع ہے لیکن اس کی وضاحت دوسری جگہ اس طرح موجود ہے کہ : ” قال کانوا یضربون نوحا حتی یغشی علیہ فاذا افاق قال رب اغفر لقومی فانھم لا یعلمون “ نوح (علیہ السلام) کو اتنا مارا جاتا کہ وہ بےہوش ہوجاتے پھر جب اس کو افاقہ ہوتا تو ان کی زبان مبارک پر یہی ہوتا کہ اے اللہ ! میرے رب ! میری قوم کو بخش دے کہ وہ نادان ہیں مجھے پہچانتے نہیں (کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ) در منثور ج 3 ص 94 بحوالہ ابن عساکر عن مجاہد) ایک جگہ اس طرح تحریر ہے کہ ” قال ان کان نوح یضربہ قومہ حتی یغمی علیہ ثم یفوق فیقول اھد قومی فانھم لا یعلمون “ (در منثور ج 3 ص 94 بحوالہ کتاب الزہد امام احمد و ابن ابی شیبہ و ابن ابی عساکر و ابو نعیم عن عبید اللہ بن عمیر اللیثی) ایک جگہ اس طرح ہے کہ ” قال شقیق قال عبد اللہ لقد رایت النبی ﷺ وھو یمسح الدام منی وجھہ وھو یحکی نبیا من الانبیاء و ھو یقول اللھم اھد قومی فانھم لا یعلمون ” عبد اللہ بن مسعود ؓ نے کہا کہ ایک اسلامی جنگ (احد) میں نبی کریم ﷺ کا چہرہ مبارک زخمی ہو گاب جس سے خون بہنے لگا تو آپ ﷺ اپنا خون صاف فرماتے اور ساتھ ساتھ حکایتاً یہ فرماتے تھے کہ آخر سچے نبیوں کے ساتھ تو شروع ہی سے یہ ہوتا آیا ہے۔ چناچہ نوح (علیہ السلام) کے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا ، انہوں نے صبر سے کام لیا اور مجھے بھی صبر سے کام لینا ہے۔ رہی یہ دعا جس کا ذکر اس جگہ یعنی سورة نوح میں ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کے بعد کی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ واوحی الی نوح انہ لن یومن من قومک الا من قدا من فلا تبتئس بما کانوا یفعلون (ہود 11 : 36) اور نوح (علیہ السلام) پر وحی کی گئی کہ تیری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے سوا اب کوئی ایمان لانے والا نہیں ہے بس جو کچھ یہ کر رہے ہیں اس پر (بےکار کو) غم نہ کھا۔ (ہود 11 : 36) اس طرح جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان کردیا گیا تو نوح (علیہ السلام) نے بھی اس کی تائید میں بارگاہ خداوندی میں وہ دعا ارشاد فرمائی جس کا ذکر اس جگہ موجود ہے لیکن مفسرین میں سے معترضین حضرات نے اس طرف دھیان نہیں دیا ورنہ ان پر بات صاف واضح ہوجاتی اور وہ کبھی اعتراض نہ کرتے کیونکہ نوح (علیہ السلام) کی یہ قوم کے حق میں بددعا نہیں بلکہ فیصلہ الٰی کی تائید کی جا رہی ہے کہ اے رب العالمین جو تیرا فیصلہ ہے وہ بالکل سچ ہے کہ ان کے ہاں جو بچہ بھی پیدا ہوگا اس کی راہ الٹی ہی ہوگی۔ اب اس قوم کا زندہ رہنا خود اس کے حق میں بھی مفید ہونے کی بجائے نقصان ہی کا باعث ہے کہ یہ لوگ وقت کے ساتھ اپنے گناہوں میں مزید اضافہ ہی کریں گے۔ ان سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی اس لئے کہ اے اللہ ! تیرا کیا ہوا فیصلہ کبھی خطا نہیں ہوتا اور نہ ہی تو اس کو خطا ہونے دیتا ہے اس لئے کہ تو ہرچیز پر قادر ہے اور تیرے قبضہ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں پھر تیرے فیصلہ کے خلاف کیسے ممکن ہو سکتا ہے ؟ اس لئے معترضین کا یہ اعتراض صحیح نہیں ہے۔ پھر نبی کریم ﷺ کی زبان اقدس نے خود اس کی تردید فرما دی ہے اور خود اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) پر وحی فرما کر جاس کہ سورة ہود کی آیت 36 سے واضح ہے اس طرح کے سارے معترضین کے منہ میں مٹی ڈال دی ہے۔ اس فیصلہ الٰہی کے بعد اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو ایک کشتی تیار کرنے کا حکم دے دیا جس کا ذکر قرآن کریم میں کئی ایک مقامات پر کیا گیا ہے۔ چناچہ الٰہی فیصلہ کے اعلان کے بعد سورة ہود میں اس طرح ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ : ” اور ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم کے مطابق ایک کشتی بنانا شروع کر دے اور ان ظالموں کے متعلق اب ہم سے کچھ عرض معروض نہ کر یقینا یہ لوگ غرق ہوجانے والے ہیں۔ “ (ہود 11 : 37) اس طرح جب اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو اپنے قانون جزائے اعمال کے مطابق سرکشوں کی سرکشی اور متمردون کے تمرد کی سزا کا اعلان کردیا اور حفظ ماتقدم کیلئے پہلے نوح (علیہ السلام) کو ہدایت فرمائی کہ وہ ایک کشتی تیار کریں تاکہ اسباب ظاہری کے اعتبار سے وہ خود اور دوسرے مومنین قانتین اس عذاب سے محفوظ رہیں اور یہ سارا کام ان متمردین کی آنکھوں کے سامنے ہو جو اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں پر نازل ہونے والا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جب بحکم الٰہی کشتی بنانی شروع کی تو کفار نے نوح (علیہ السلام) کا مذاق اڑانا شروع کردیا اور جب کبھی ان کا ادھر سے گزر ہوتا تو کہتے کہ بہت خوب ! جب ہم غرق ہونے لگیں گے اس وقت تو اور تیرے پیرو اس کشتی میں محفوظ رہ کر نجات پا جائیں گے یہ کتنا احمقانہ خیال ہے اور حضرت نوح (علیہ السلام) بھی ان کو انجام کار سے غفلت اور اللہ کی نافرمانی پر جرأت دیکھ کر انہی کے طرز پر جواب دیتے اور اپنے کام میں مشغول رہتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ان کو حقیقت حال سے آگاہ فرما دیا تھا۔ چناچہ اس سورة ہود میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ” اے نوح ! (علیہ السلام) تو ہماری حفاظت میں ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کئے جا اور اب مجھ سے ان کے متعلق کچھ سوال نہ کر یہ لوگ بلاشبہ غرق ہونے والے ہیں۔ “ اب سفینہ بن کر اللہ تعالیٰ کے وعدہ عذاب کا وقت قریب آیا اور نوح (علیہ السلام) نے اس سے پہلی علامت کو دیکھا جس کا ذکر ان سے کیا گیا تھا کہ ” زمین کی تہہ میں سے پانی کا چشمہ ابلنا شروع ہوجائے گا “ اور جب وحی الٰہی کے مطابق چشمہ ابل پڑا تو اس وقت وحی الٰہی نے ان کو حکم سنایا کہ کشتی میں اپنے خاندان کو بیٹھنے کا حکم دور اور تمام جانداروں میں سے جن کی آپ کو ضرورت ہے ان کا ایک ایک جوڑا بھی کشتی میں سوار کرلو اور وہ مختصر جماعت بھی جو آپ پر ایمان لا چکی ہے۔ سب کشتی میں سوار ہو جائو۔ اس حکم الٰہی کے بعد آسمان کو حکم الٰہی ہوا کہ پانی برسانا شروع کر دے اور زمین کو حکم ہوا کہ وہ اپنا پانی باہر نکالنا شروع کر دے۔ اس طرح ہر طرف سے یہ طوفان امڈ آیا اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم تکوینی کے مطابق نوح (علیہ السلام) اور دوسرے سارے انسان اور حیوانوں کو بچالیا گیا جو کشتی میں سوار کر لئے گئے تھے اور باقی قوم کو نوح (علیہ السلام) اور آپ پر ایمان لانے والوں کی آنکھوں کے سامنے غرق کر کے رکھ دیا۔ اس طرح وہ سب قانون الٰہی کے مطابق اپنے اعمال کی پاداش میں کیفر کردار کو پہنچ گئے۔ اس میں کتنی مدت لگی اور یہ سیلاب کتنے وقت تک رہا اور کشتی کی پوری داستان کہ وہ کتنی لمبی ، چوڑی اور اونچی تھی اس کی ایک منزل تھی یا دو تھیں سب کا ذکر سورة الاعراف کی آیت 64 میں بیان کردیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو عروۃ الوثقی جلد سوم آیت مذکورہ۔ جب کشتی پانی پر تیرنے لگی اور پانی جوں جوں وقت گزر رہا تھا چڑھتا ہی چلا جا رہا تھا تو اس وقت نوح (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کا اپنا بیٹا بھی اپنے آپ کو طوفان سے بچانے کیلئے اپنی عقل و فکر کے مطابق کوشش میں مصروف ہے تو فطری تقاضے کے مطابق بیٹے کو آواز دے دی کہ ” اے میرے بیٹے ! ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہوجا اور کافروں کے ساتھ نہ رہ۔ “ بیٹے نے ایسے نازک وقت میں بھی باپ کی ایک نہ مانی بلکہ رو در رو باپ کو جواب دیا کہ ” میں پہاڑ پر پناہ لوں گا وہ مجھے پانی کی زد سے بچا لے گا۔ “ نوح (علیہ السلام) نے بیٹے کا جواب سن کر ارشاد فرمایا کہ بیٹا (تو کس خیال خام میں مبتلا ہے ؟ ) آج اللہ کی (ٹھہرائی ہوئی) بات سے کوئی بچانے والا نہیں مگر ہاں ! وہی جس پر رحم کرے۔ “ (ہود 11 : 43) باپ بیٹے میں یہ بات جاری ہی تھی کہ ” دونوں کے درمیان ایک ایسی موج حائل ہوئی کہ نوح (علیہ السلام) کی آنکھوں کے سامنے آپ کے بیٹے کو بہا کرلے گئی اور اس طرح آپ کا بیٹا دوسرے کافروں کے ہمراہ غرق کر کے رکھ دیا گیا۔ “ (ہود 11 : 43) اس فطری اضطرار کی حالت میں نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب کریم کو صدا دی کہ ” اے میرے اللہ ! میرا بیٹا تو میرے گھر کے لوگوں سے ہے اور یقیناً تیرا وعدہ بھی سچا ہی ہوتا ہے ، تجھ سے بہتر فیصلہ کرنے والا بھی اور کوئی نہیں۔ “ اصل ماجرا کیا ہے ؟ اس پر ہمارے بعض مفسرین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ نوح (علیہ السلام) نے یہ دعا کر کے ایک غلطی کی۔ لیکن ہمیں افسوس ہے کہ بات خود ان مفسرین کی سمجھ میں نہ آئی اور اعتراض نوح (علیہ السلام) پر جڑ دیا اور پھر خود ہی سوال اٹھا کر اس کے فرضی جواب دینے شروع کردیئے۔ بلاشبہ یہ نوح (علیہ السلام) نے استدعا کی لیکن کب کی ؟ جب کہ بیٹا غرق ہوچکا تھا۔ تو پھر یہ دعا بیٹے کے بچا لینے کی دعا کیسے ہوئی ؟ بیٹے کے بچائے جانے کی دعا تو اس وقت متصور ہوتی جب وہ زندہ ہوتا اور آپ (علیہ السلام) اللہ سے فرماتے کہ اللہ میرا بیٹا ڈوبا جا رہا ہے ، اس کو بچا لے۔ حالانکہ اس کو ڈوبتا دیکھ کر اس کو اس بات کی تلقین فرمائی ہے کہ بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہوجا کہ تیری جان بچ سکے لیکن جب بیٹا نہ مانا بلکہ اپنے والد کو اس سوال کا جواب رو در رو سنا دیا کہ میں پہاڑ پر چڑھ کر جان بچائو گا اب تیری بیڑی اس پانی سے نہیں بچ سکتی یہ تو ابھی کسی پہاڑ کے ساتھ ٹکرا کر پاش پاش ہونے والی ہے۔ اس کی یہ بات سن کر پھر اس کو جواب بھی دیا کہ آج اللہ کی ٹھہرائی ہوئی بات سے بچانے والا کوئی نہیں ؟ لیکن جب اپنے عمل کی پاداش میں وہ دھر لیا گیا اور جو کچھ ہونا تھا وہ ہوگیا تو اب اس بات کی گویا وضاحت طلب کی تاکہ آنے والے لوگوں کو بھی اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ نجات کا دارومدار ہر انسان کے اپنے اعتقاد و عمل کے ساتھ خاص ہے اور اللہ کی توفیق سے جب تک کوئی انسان خود اپنے کئے کی معافی طلب نہیں کرتے ، دوسروں کی اپیلوں سے نجات وابسطہ نہیں کی گئی۔ اپیل کرنے والا خواہ کوئی ہی کیوں نہ ہو۔ حتیٰ کہ اللہ کا رسول بھی کسی کیلئے اپیل کرے جب کہ اس کے اپنے اعمال و اعتقاد درست نہ ہوں تو اس کو وہ اپیل کچھ فائدہ نہیں دیتی اور نہ ہی نجات کا دارومدار حسب و نسب پر رکھا گیا کہ کوئی فرد یا کوئی قوم چاہے جو کچھ بھی کرتی رہے اس کو گرفت نہیں ہوگی ؟ اس لئے کہ وہ بخشے بخشوائے لوگوں کی نسل و اولاد ہے۔ چونکہ خود اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) سے فرمایا تھا کہ ” تیرے اہل کو نجات دی جائے گی اور اس کے ساتھ ہی استثناء بھی کردی کہ ” مگر ہاں ! وہ لوگ تیرے اہل و عیال میں داخل ہی نہیں جن کے متعلق پہلے ہی فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ “ اگر نوح (علیہ السلام) یہ سوال نہ اٹھاتے جو آپ نے بارگاہ ایزدی میں اٹھایا تو نہ معلوم کتنے لوگ نوح (علیہ السلام) کے بیٹے کو آپ کا بیٹا سمجھتے ہوئے اہل ہی سمجھتے اور ان کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا کہ نوح (علیہ السلام) کا بیٹا نوح (علیہ السلام) کا اہل ہونے کے باوجود غرق کیسے ہوگیا ؟ اس لئے نوح (علیہ السلام) کے سوال کے جواب میں اللہ نے پوری وضاحت فرما دی کہ اے نوح (علیہ السلام) ! وہ تیرا اہل ہی کب تھا ؟ کہ میں نے اس کو نہیں بچایا ” لیس من اھلک “ وہ تیرا اہل تھا ہی نہیں اس لئے کہ انہ عمل غیر صالح وہ تو (سرتاپا) عمل بد ہے یعنی جب وہ تیری راہ نہ چلا اور بدعملوں کا ساتھی ہوا تو فی الحقیقت تیرے حلقہ قرابت سے وہ باہر ہوگیا اور اب اسے اپنا نہ سمجھ۔ اس طرح سے نوح (علیہ السلام) کو اس طرح کے سوال سے روک کر آنے والی ساری نسلوں کو یہ سبق سکھا دیا کہ جس سے سوال کر رہا ہوں اس سے ایسا سوال کرنے کا حق ہے یا نہیں ؟ اور اللہ تعالیٰ ایسی باتوں کو سمجھانے کیلئے انبیائے کرام (علیہم السلام) ہی کو مخاطب فرما کر نبی کی قوم سے بات کرتا ہے تاکہ قوم جزبز ہونے کی بجائے غوروفکر سے کام لے اور دوسری بات یہ تفہیم کرا دی کہ بلاشبہ دعا بھی ایک طرح کا سوال ہی ہے لیکن ہر سوال دعا نہیں اور کچھ نا سمجھوں نے اس بات کو نہیں سمجھا اور نہ سمجھنے کی کوشش کی اور رسول اللہ یعنی نوح (علیہ السلام) پر اعتراض جڑ دیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو غرق ہونے سے بچانے کی دعا کی حالانکہ یہ بات فی نفسہ صحیح نہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ سورة ہود کی اس آیت 46 کے تحت اور خصوصاً ” انہ عمل غیر صالح “ سے نوح (علیہ السلام) کی بیوی پر بیہودہ الزام رکھنے کی بھی بےجا کوشش کی ہے لیکن ایسے غالی بےحیائوں کی باتوں کے بیان کیلئے تفسیر کے علاوہ تاریخ و سیر کی کتابیں ہیں اور اس سلسلہ میں تو نبی کریم ﷺ کی احادیث واضح ہیں کہ نبی کے حسب و نسب میں کفر و نفاق ممکن ہے لیکن فعل زنا ممکن ہی نہیں کیونکہ اس سے حسب و نسب کا تعلق ہے اور ہر نبی کا حسب و نسب بتائید ایزدی محفوظ رہا ہے اور کسی کو اپنی عصمت محفوظ رکھنے کی ہدایت کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس میں بدکاری کا خطرہ تھا بلکہ اس ڈانٹ کا تعلق ہمیشہ امت کی بیٹیوں کو ایک سبق سکھانا ہے اور اس کا ایسا طریقہ ہر مذہب و ملت میں موجود ہے اور صاحب عقل و فکر سے یہ بات پوشیدہ نہیں۔ بلاشبہ نوح (علیہ السلام) کی بیوی منافقہ تھی جیسا کہ لوط (علیہ السلام) کی بیوی بھی منافقہ تھی لیکن کسی کا منافق ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ وہ زانی یا مشرک بھی تھا اور نہ ہی یہ بات درست ہے کہ کسی منافق یا کافر کو زانی یا مشرک بھی کہا جائے تو خیر ہے۔ بلاشبہ ہر شرک کفر ہے لیکن ہر کفر شرک نہیں اس لئے ہر مشرک کو کافر کہا جاسکتا ہے لیکن ہر کافر کو مشرک نہیں کہا جاسکتا۔ عوام ان باتوں سے اگرچہ ناواقف ہوں لیکن اپنے آپ کو زمرہ علماء اور مفسرین میں شامل کرنے والوں پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہونی چاہئے تھی۔ نہ معلوم اس طرح کے سوال کیوں اٹھائے گئے اور گندی ذہنیت کے لوگوں نے ایسا گند کہاں کہاں پھیلا دیا۔ بہرحال نوح (علیہ السلام) کے اس سوال سے آنے والی نسلوں پر یہ حقیقت آشکارا ہوگئی کہ وعدہ نجات کا منشاء نسل و خاندان نہیں ہے بلکہ ” ایمان باللہ “ ہے لیکن ہمیں افسوس ہے کہ باقی قوموں کا ذکر کیا اس قرآن کریم کی حامل قوم آج بھی اس غلطی میں اس طرح ڈوبی ہوئی ہے جس طرح پہلی قومیں ڈوبی ہوئی تھیں اور مسلمانوں کی اکثریت آج بھی اس حسب و نسب پر نجات کا دارومدار سمجھتی ہے۔ چند معدوے آدمی ہوں گے جو اس بیماری کا شکار نہ ہوں بلکہ حکومت کے سربراہوں سے لے کر عوام تک سارے کے سارے اس مرض میں مبتلا ہیں۔ الایہ کہ اس بندہ پر جس پر اللہ کا خاص فضل ہو۔ تورات کے بیان کے مطابق یہ کشتی 150 دن یعنی پانچ ماہ برابر پانی پر تیرتی رہی۔ اصل حقیقت حال تو اللہ ہی جانتا ہے تاہم انجام کار نوح (علیہ السلام) کی کشتی ” جودی “ پر پہنچ کر رک گئی جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ” اور پھر اللہ کا حکم ہوا کہ اے زمین اپنا پانی پی لے اور اے آسمان تھم جا ! اور پانی کا چڑھائو اتر گیا اور حادثہ انجام پا گیا اور کشتی ” جودی “ پر ٹھہر گئی اور کہا گیا کہ نامرادی اس گروہ کا مقدر تھی جو ظلم کرنے والا گروہ تھا۔ “ (ہود 11 : 44) پھر تو رات ہی کے بیان کے مطابق جودی کو اراراط کے پہاڑوں میں سے بتایا گیا ہے اور اراراط درحقیقت ایک جزیرہ کا نام ہے یعنی اس علاقہ کا نام جو فراط و دجلہ کے درمیان دیار بکر سے بغداد تک مسلسل چلا گیا ہے پانی آہستہ آہستہ خشک ہونا شروع ہوگیا اور ساکنان کشتی نے دوسری بار امن و سلامتی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی زمین پر قدم رکھا اور زمین کا وہ علاقہ جو ایک بار مکمل طور پر تباہ ہو کر رہ گیا تھا انہی لوگوں سے اللہ نے اس کو پھر آباد کردیا اور انہی لوگوں کی نسل سے اس واقعہ کو قصہ پارینہ سمجھ کر بھلا دیا اور پھر آہستہ آہستہ وہی کفر و شرک اور فساد فی الارض کی شراتیں شروع کردیں۔ اب قابل غور و فکر ایک بات رہ جاتی ہے کہ ، کیا ؟ یہ کہ آیا طوفان نوح پوری دنیا پر آیا تھا یا کسی خاص خطہ پر ؟ اس کے متعلق قدیم سے ہمیشہ دو رائیں رہی ہیں اور اسی طرح آج بھی کچھ کی یہ رائے کہ طوفان تمام کرہ ارض پر آیا اور کچھ کی رائے ہے کہ نہیں صرف اس خطہ میں آیا جس خطہ میں نوح (علیہ السلام) کی قوم آباد تھی۔ ظاہر ہے کہ دوسری بات ہی زیادہ صحیح اور سچی معلوم ہوتی ہے اس لئے کہ یہ قصہ قوم نوح (علیہ السلام) ہی کے نام سے معروف ہے ، پوری انسانیت کے نام سے معروف نہیں ہے جیسا کہ صالح (علیہ السلام) ، ہود (علیہ السلام) اور شعیب (علیہ السلام) کے قصے بیان کئے گئے ہیں اور یہ بھی کہ پوری انسانیت کیلئے رسول صرف اور صرف ایک ہی بنائے گئے اور وہ محمد رسول اللہ ﷺ ، باقی سارے رسول اپنی اپنی قوم ہی کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور احادیث میں اس کی وضاحت بھی موجود و محفوظ ہے۔ قرآن کریم میں صراحتاً موجود ہے کہ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال تبلیغ و دعوت کا فرض انجام دیا جیسا کہ ارشاد ہوا کہ : ولقد ارسلنا نوحا الی قومہ فلبث فیھم الف سنۃ الا خمسین عاما (العنکبوت 29 : 14) ” ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ پچاس کم ایک ہزار سال ان کے درمیان رہا۔ “ یہ عمر موجودہ طبعی عمر سے بہت ہی زیادہ ہے اس علمائے امت میں سے بعض نے ” سنۃ “ کے لفظ پر بحث کر کے اس کو مہینہ کے برابر لانے کی کوشش کی اور اس طرح بعض نے ” سنۃ “ کی تشریح میں اور بھی بہت کچھ کہا ہے اصل حقیقت حال اللہ ہی جانتا ہے لیکن ایک بات قابل ذکر اور قابل غور ہے کہ قرآن کریم نے بہت سے انبیاء کرام (علیہ السلام) کا ذکر کیا ہے لیکن اس کے ذکر میں اس کی عمر یا سا کی قوم کی عمر کے متعلق کہیں کچھ نہیں کہا اس طرح بہت سے مقامات پر جو کچھ کتب سابقہ میں کہا گیا تھا اس کو حکائی رنگ میں بھی بیان کیا جب کہ اس میں کوئی کفر و شرک اور بداخلاقی و بدکرداری کی بات نہ تھی۔ اسی طرح نوح (علیہ السلام) کی عمر کے متعلق ایسا کہنا کفر و شرک کی طرح کی منافقت یا بداخلاقی و بدکرداری کی بات نہ تھی اور تورات میں اسی طرح مذکور بھی ہے لہٰذا اس کا رنگ وہی حکائی ہو ممکن ہے اور اس جگہ قرآن کریم کی سورة العنکبوت کی آیت 14 کے آخری الفاظ سے یہ بات مترشح بھی ہوتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا کہ : فاخذھم الطوفان وھم ظالمون (العنکبوت 29 : 14) ” آخر کار ان لوگوں کو طوفان نے آگھیرا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔ “ اس سے یہ بات واضح ہوتی معلوم ہوتی ہے کہ جب طوفان آیا تو اس وقت نوح (علیہ السلام) ان غرق ہونے والوں میں ساڑھے نو سو سال رہ چکے تھے لیکن آخر نوح (علیہ السلام) ان غرق ہونے والوں کے بعد بھی تو زندہ رہے اور اس طرح آپ (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار ہونے والے بھی اور اس بات کا کہیں ذکر نہیں کہ وہ قوم کی غرقابی کے بعد کتنی مدت تک زندہ رہے اس لحاظ سے مذکورہ عمر مزید بڑھے گی خواہ یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کتنی مزید بڑھی۔ اس طرح اس سے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کشتی میں سوار ہونے کے وقت جن لوگوں کی غرقابی کا حکم ہوا وہ وہی لوگ تھے جنہوں نے نوح (علیہ السلام) کی شروع سے مخالفت شروع کی تھی یا ان کی نسل کے لوگ تھے چاہے وہ بھی مخالف ہی ہوں کیونکہ اگر وہی لوگ تھے جنہوں نے شروع میں مخالفت کی تھی تو پھر ان سب کی عمر بھی قریب قریب نوح (علیہ السلام) ہی کے ہوگی یا ان سے کچھ زیادہ یا کچھ کم اور پھر نوح (علیہ السلام) کے ساتھ بچنے والوں میں وہ لوگ بھی تھے جو شروع ہی میں ایمان لائے تھے یا ان کی اولاد در اولاد۔ اس طرح ان ساری باتوں کا تجزیہ کرنے سے یہ بات مزید واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم کا یہ بیان حکائی رنگ کا ہے اور حقیقت حال اللہ ہی کے پاس ہے اور ظاہراً جو کچھ بیان ہوا ہمارا اس پر پختہ یقین ہے۔ مزید تفصیلات معلوم کرنا چاہیں تو قصص کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ اب اس جگہ استفادہ کیلئے چند باتوں کا مزید اختصار کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے تاکہ کچھ نہ کچھ یاد رہ جائے۔ اللہ کرے کہ ہماری یاد میں کچھ رہ بھی جائے۔ 1۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو سب سے پہلے توحید الٰہی کا درس دیا اور فرمایا کہ میری قوم کے لوگو ! اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ 2۔ اگر تم سرکشی سے باز نہ آئے تو اچھی طرح سن لو کہ عذاب کا ایک بڑا ہی دردناک دن آنے والا ہے۔ 3۔ قوم کے سرداروں اور اونچے درجے کی جماعتوں نے انکار و سرکشی کی۔ صرف معدودے چند لوگ ایمان لائے وہ بھی وہی تھے جو قوم میں بےوقعت سمجھے جاتے تھے اور قوم کے و ڈیرے ان کے ساتھ بیٹھنا اٹھنا بھی پسند نہ کرتے تھے۔ 4۔ منکرین نے کہا کہ تم بھی ہماری ہی طرح ایک آدمی ہو پھر تمہاری بات کیوں مانیں ؟ یعنی اگر تم میں کوئی ایسا اچنبھا پایا جاتا جو اور آدمیوں میں نہیں پایا جاتا یا دیوتائوں کی طرح اتر آئے ہوتے تو تمہاری تصدیق کرتے۔ 5۔ منکرین نے یہ بھی کہا کہ جو ہم میں کمینے اور بےوقعت ہیں وہی بےسمجھے بوجھے تمہیں مان رہے ہیں آخر کوئی باپ دادا والا آدمی آپ کی بات سننے کیلئے تیار بھی ہے ؟ پھر کیا ان بیوقوفوں کی طرح ہم بھی مان لیں ؟ اور پھر یہ بھی کہ ہم ایسی جماعت میں کیونکر شریک ہو سکتے ہیں جہاں رذیل و شریف میں کوئی امتیاز نہیں ہے ؟ 6۔ نوح (علیہ السلام) نے کہا کہ انسان کی ہدایت تو انسان ہی کیلئے ہو سکتی ہے اور وہ اتنا ہی کرسکتا ہے جو اس کے اختیار میں ہے۔ تم کہتے ہو کہ میں جھوٹا ہوں لیکن یہ تو بتلائو کہ اگر تم مجھے سچا سمجھتے ہو تو کیا اس بات کی توقع کرتے کہ میں جبراً تم کو بھلائی کی راہ دکھا دوں اور اس پر بزور چلا بھی دوں ؟ اللہ کی طرف سے کتنی ہی واضح دلیل حق مجھے مل گئی ہو لیکن تم سمجھنے سے انکار کر دو تو میں کیا کرسکتا ہوں ؟ 7۔ انہوں نے کہا کہ تم جتنے لوگوں کو ذلیل سمجھتے ہو میں کبھی نہیں کہوں گا کہ وہ ذلیل ہیں اور انہیں حوبی وسعادت نہیں مل سکتی اگر میں ایسا کروں تو اللہ کے مواخذہ میں گرفتار ہو جائوں۔ 8۔ انہوں نے فرمایا کہ میرا دعویٰ تو صرف یہ ہے کہ میں سچائی کا پیغامبر ہوں مجھے طاقت و تصرف کا دعویٰ نہیں اور نہ ہی انسانوں سے برتر کوئی ہستی ہوں۔ 9۔ منکروں نے ان دلائل و مواعظ پر غور کرنے سے انکار کردیا بلکہ وہ ان باتوں کو ” جدال “ سے تعبیر کرنے لگے اور یہاں تک سرکشی کی کہ خود عذاب کے ظہور کا مطالبہ کرنے لگے۔ 10۔ اس پر ارشاد الٰی ہوا کہ کہہ دے تم کہتے ہو کہ میں مفتری ہوں تو میرا گناہ مجھ پر اور تم سچائی کو جھٹلا رہے ہو تو اس کی پاداش تم کو جھیلنی ہے میں اس سے بری ہوں۔ اب فیصلے کا انتظار کرو۔ 11۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا وحی الٰہی سے مطلع ہونا کہ جو ایمان لا چکے ہیں ان کے سوا کوئی ایمان لانے والا نہیں اور یہ کہ ملک غرق ہونے والا ہے پس ایک کشتی بنا لو۔ 12۔ یہ باتیں سن کر منکرین کا تمسخر اڑانا۔ 13۔ طوفان کا ظہور اور حضرت نوح (علیہ السلام) کا کشتی میں سوار ہونا اور ان سب لوگوں کو ساتھ لے لینا جن کے ساتھ لینے کا حکم ہوا۔ 14۔ سیلاب نے اتنا گہرا پانی جمع کردیا تھا اور طوفانی ہوائوں کا یہ عالم تھا کہ اونچی اونچی موجیں اٹھنے لگی تھیں۔ 15۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے نے ان کا ساتھ نہ دیا اور انجام کار غرق ہوگیا۔ نوح (علیہ السلام) نے کہا کہ اے اللہ ! وہ میرے اہل میں سے تھا۔ حکم ہوا نہیں ! اس لئے کہ وہ بدعمل تھا اور بدعمل تیرے اہل میں داخل نہیں۔ 16۔ یہ آیت اس بات میں قطعی ہے کہ جسمانی رشتہ نجات کیلئے کچھ سود مند نہیں جو کچھ ہے فقط ایمان و عمل ہے جو انسان نے خود کمایا ہو۔ 17۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو اپنے بیٹے کے کفر کی یقیناً خبر تھی اللہ تعالیٰ سے جو سوال کیا وہ بیٹے کی ہلاکت کے بعد تھا اور اس سوال و جواب سے آنے والی نسلوں کو تفہیم کرانا تھا اور یہ پیرایہ بیان قرآن کریم میں عام ہے اور ان ہی آیات کے اندر اس کی وضاحت بھی موجود ہے کہ تیرے اہل میں سے جو ظالم ہوا اس کو عذاب الٰہی سے نہیں بچایا جائے گا۔ 18۔ سورة القمر 54 : 11 سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آسمان سے لگاتار بارش ہوتی تھی اور علاقہ کی تمام نہروں میں بہت بڑا سیلاب آگیا تھا اور تورات میں بھی اس طرح کا بیان موجود ہے۔ 19۔ نوح (علیہ السلام) کا ظہور اس سرزمین میں ہوا تھا جو دجلہ و فرات کی وادیوں میں واقع ہے اور دجلہ و فرات آرمینیا کے پہاڑوں سے نکلتے ہیں اور بہت دور تک الگ الگ بہہ کر عراق زیریں میں باہم مل جاتے ہیں اور پھر خلیج فارس میں سمندر سے ہم کنار ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح آرمینیا کے یہ پہاڑ ” اراراط “ کے علاقہ میں واقع ہیں لیکن قرآن کریم نے اس جگہ کا نام لیا جہاں کشتی ٹھہری تھی اور ” جودی “ تھا۔ 20۔ تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ یہ واقعہ تاریخی ہے اور آٹھویں صدی مسیح تک وہاں ایک معبد موجود تھا اور لوگ اس کو ” کشتی کا معبد “ کہتے تھے۔ 21۔ ایک ایسے طوفان و سیلاب کے بعد ملک کی جو حالت ہوگئی ہوگی اس کی ہولناکی بالکل واضح ہے اور کشتی کے مکینوں کو یہ خیال لاحق ہوگا کہ اس سرزمین میں اب کیونکر زندگی بسر ہوگی ؟ تو اللہ تعالیٰ نے وحی کردی کہ سلامتی اور برکت کے ساتھ زمین پر قدم رکھو تمہارے لئے اب خوف کی کوئی بات نہ ہوگی اور تم کو زندگی کی تمام برکتیں حاصل ہوں گی لیکن آہستہ آہستہ آنے والی امتیں وہی کچھ کریں گی جو ہلاک شدگان نے کہا تھا اور پھر وہ بھی اپنا حشر دیکھ لیں گے۔
Top