Urwatul-Wusqaa - Hud : 82
فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ١ۙ۬ مَّنْضُوْدٍۙ
فَلَمَّا : پس جب جَآءَ : آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم جَعَلْنَا : ہم نے کردیا عَالِيَهَا : اس کا اوپر (بلند) سَافِلَهَا : اس کا نیچا (پست) وَاَمْطَرْنَا : اور ہم نے برسائے عَلَيْهَا : اس پر حِجَارَةً : پتھر مِّنْ سِجِّيْلٍ : کنکر (سنگریزہ) مَّنْضُوْدٍ : تہہ بہ تہہ
پھر جب ہماری بات کا وقت آپہنچا تو ہم نے اس بستی کی تمام بلندیاں پستی میں بدل دیں اور اس پر آگ میں پکے ہوئے پتھر لگاتار برسائے
پھر کیا تھا کہ صبح ہونے کو تھی کہ ظالموں کی بستیاں ظالموں سمیت تہ وبالا کردی گئیں 107 ؎ (1) جب لوط (علیہ السلام) اور آپ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے سارے لوگ ہاں سے بحفاظت نکل گئے اور آخر شب ہونے کو تھی کہ اول ایک ہیبت ناک چیخ نے ان کو آ لیا اور پھر اچانک دیکھتے ہی دیکھتے آتش فشاں اس طرح پھٹنا شروع ہوا کہ پہلے دھواں ہی دھواں چھا گیا اور اس طرح ان کو اندھا کر کے اس زور سے وہ پھٹا کہ اس کے اوپر کے حصہ کا کچھ معلوم نہ ہوا کہ وہ کدھر گیا اور وہ جتنی بستیاں تھیں وہ سب کی سب غرق ہو کر رہ گئیں اور اس زمین کو اس وقت تک چین نہ آیا جب تک وہ سارا علاقہ بحرمیت میں تبدیل نہ ہوگیا۔ آتش فشاں پھٹنے سے پتھروں کا برسنا ، آگ کا لگنا ، چیخوں کا بلند ہونا اور سارے علاقے کو اڑا کر دور پھینک دینا سب کے سب آگئے جن میں سے کسی چیز کا ایک جگہ اور کسی چیز کا دوسری جگہ بیان کیا گیا اور اس طرح ایک ہی بات اور ایک ہی کام کو اس کے مختلف انداز کے مطابق بیان کیا گیا جس کا ماحصل صرف یہ تھا کہ جس طرح سنت اللہ کے مطابق گزشتہ امتوں کی نافرمانیوں کے باعث ہلاکت ہوئی اس کی یعنی قوم لوط کی ہلاکت بھی ہوگئی اور نبی اعظم و آخر ﷺ کی امت کے اس وقت کے لوگوں کو بتا دیا گیا کہ اے قوم قریش اور عرب کے بسنے والو ! تم سے یہ ظالموں کی بستیاں آخر کتنی دور ہیں ؟ مطلب یہ ہے کہ بالکل قریب ہے وہاں سے گزرتے ہوئے تم کتنی بار ان کو ملاحظہ کرچکے ہو اور آنے والے لوگ بھی ان کو ملاحظہ کرتے رہیں گے اس لئے بہتر ہے کہ ان ظالموں کی بستیوں سے عبرت حاصل کرو اور ظلم و شرک کرنا چھوڑ دو ورنہ تمہارا حال بھی ایسا ہی ہوگا یعنی تمہاری ہلاکت بھی کسی عذاب کے تحت ہوگی جیسا کہ پیچھے سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔
Top