Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 267
مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ١ؕ وَ مَا هِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ۠   ۧ
مُّسَوَّمَةً : نشان کیے ہوئے عِنْدَ رَبِّكَ : تیرے رب کے پاس وَمَا : اور نہیں ھِيَ : یہ مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) بِبَعِيْدٍ : کچھ دور
وہ پتھر تیرے پروردگار کے حضور نشان کیے ہوئے تھے ، یہ بستی ان ظالموں سے کچھ دور نہیں
خاص نشان کئے گئے پتھر برسانے کا مطلب کیا ہے ؟ 107 (ب) ؎ ان پتھروں کو نشان لگائے گئے اس لئے کہا گیا ہے کہ گویا وہ ان کے لئے مقدر ہوچکے تھے اور ہر ایک پر وہی پتھر گرا جس میں اس کی ہلاکت طے کردی گئی جس کو ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ اس کا پتھر صحیح نشانہ پر بیٹھا کہ جہاں لگانا چاہا وہیں جا کر لگا۔ اس وقت اس قوم کے لوگوں کی یہی حالت ہوئی تھی اور ایک بھی ایسا نہ ہوا کہ جو ان میں سے بچ نکلا۔ اس آیت پر لوط (علیہ السلام) کے قصہ کا خاتمہ ہوگیا اور اب لوط (علیہ السلام) کا مختصر تذکرہ یہاں نقل کیا جاتا ہے جو اس سورة میں بیان کئے گئے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے تذکار میں سے چوتھا تذکرہ ہے۔ سیدنا لوط (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت لوط (علیہ السلام) سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے برادر زادہ ہیں جس کو ہماری زبان میں بھتیجا کہتے ہیں۔ لوط (علیہ السلام) کے والد کا نام ہارون تھا۔ لوط (علیہ السلام) کا بچپن سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ گزرا ہے اور ان کی صحیح معنوں میں نشو ونما ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی آغوش تربیت کی رہین منت ہے۔ بالکل اسی طرح کے حالات محمد رسول اللہ ﷺ اور علی ؓ کے ہیں۔ فرق ہے تو یہ کہ لوط (علیہ السلام) مستقل نبی بنائے گئے تھے اور یہ بھی کہ لوط (علیہ السلام) ابراہیم (علیہ السلام) کے داماد نہیں تھے اور علی ؓ محمد رسول اللہ ﷺ کے داماد تھے اور چونکہ محمد رسول اللہ ﷺ خاتم الانبیاء تھے آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی ہو ہی نہیں سکتا تھا اس لئے علی ؓ کو علی (علیہ السلام) کہنا مناسب نہیں ہے کیونکہ ” (علیہ السلام) “ کا جملہ رسل عظام اور انبیائے کرام کیلئے طے پا گیا ہے اور اس طرح صحابہ کرام ؓ کے نام کے ساتھ ؓ کے الفاظ پڑھے اور لکھے جاتے ہیں کسی غیر صحابی کیلئے یہ الفاظ مناسب نہیں کہ اس میں صحابی ہونے کا اشتباہ ہے اور صحابہ کرام ؓ کے بعد سارے اولیائے امت اور نیک و صلحا کیلئے ” (رح) “ کے الفاظ کہنا مناسب اور ان کے درجہ عزت و وجاہت ہیں۔ لوط (علیہ السلام) اور سیدہ سارہ ؓ جو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی تھیں ساری ہجرتوں میں ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ رہے تھے اس لئے وہ ملت ابراہیمی کے پہلے مسلم اور ” السابقون الاولون “ میں شامل ہیں اور بالکل یہی شرف سیدہ خدیجہ ؓ کو بھی حاصل ہے جو ہمارے نبی کریم ﷺ کی سب سے پہلی شریک حیات تھیں۔ تورات کے بیان کے مطابق مصر کے قیام میں چونکہ ابراہیم (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) دونوں کے پاس کافی ساز و سامان تھا اور مویشیوں کے بڑے بڑے ریوڑ بھی تھے بلاشبہ دونوں چچا بھتیجا ، آپس میں شیر و شکر تھے لیکن دونوں کی علیحدہ علیحدہ ملکیت ہونے کے باعث ان کے چرواہے اور ملازم و محافظ آپس میں الجھے رہتے تھے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے چرواہے چاہتے تھے کہ اس چراگاہ اور سبزہ زار سے پہلے ہمارے ریوڑ فائدہ اٹھائیں اور سیدنا لوط (علیہ السلام) کے چرواہوں کی خواہش ہوتی کہ اول ہمارا حق سمجھا جائے کہ ساتھ دینے والے کو اولیت حاصل ہوجاتی ہے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اس صورت حال کا اندازہ کر کے سیدنا لوط (علیہ السلام) سے مشورہ کیا اور دونوں کے مشورہ سے یہ طے پایا کہ باہمی تعلقات کی خوشگواری اور دائمی محبت و الفت کی بقاء کیلئے ضروری ہے کہ لوط مصر سے ہجرت کر کے شرق اردن کے علاقہ سدوم اور عامورہ کی طرف چلے جائیں اور وہاں رہ کر دین حنیف کی تبلیغ کریں اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) واپس فلسطین چلے جائیں اور وہاں رہ کر اسلام کی تعلیم و تبلیغ کو سربلند کریں لہٰذا اس پروگرام کے مطابق عمل ہوا۔ مصر سے لوط (علیہ السلام) سدوم کو چلے گئے اور ابراہیم (علیہ السلام) فلسطین کی طرف روانہ ہوگئے۔ اردن کی وہ جانب جہاں آج بحرمیت یا بحر لوط واقع ہے یہی وہ جگہ ہے جس میں سدوم اور عامورہ کی بستیاں آباد تھیں۔ اس کے قریب بسنے والوں کا یہ خیال ہے کہ پہلے یہ تمام حصہ جو اس وقت سمندر ہے کسی زمانہ میں خشک زمین تھی اور اس پر شہر آباد تھے اور سدوم و عامورہ کی آبادیاں اسی مقام پر تھیں۔ یہ مقام شروع سے سمندر نہیں تھا بلکہ جب قوم لوط پر عذاب آیا اور اس سرزمین کو سخت زلزلے اور بھونچال نے ایسا ہلایا کہ یہ زمین تقریباً چار سو میٹر بلند سمندر سے نیچے چلی گئی اور پانی ابھر آیا اس لئے اس کا نام بحر میت یا بحر لوط پڑگیا۔ (بستانی جلد 9 ص 537 بحوالہ قصص القرآن) صحیح حقیقت حال اللہ ہی کو معلوم ہے البتہ اس بات کی قوی شہادت موجود ہے کہ اس بحرمیت یا بحر لوط کے ساحل پر وہ حادثہ رونما ہوا جو قوم لوط کے عذاب سے موسوم ہے اور جو موجودہ اثری تحقیق نے بحر میت کے ساحل پر لوط (علیہ السلام) کی بستیوں کے بعض تباہ شدہ آثار ہویدا کر کے ان علم و یقین کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ہے جس کا اعلان چودہ سو سال قبل قرآن کریم نے کردیا تھا۔ لوط (علیہ السلام) جب سدوم میں آئے اور یہاں قیام کیا تو دیکھا کہ یہاں کے باشندے بہت سی معصیتوں میں مبتلا ہیں کہ دنیا کی کوئی برائی ایسی نہیں جو ان لوگوں میں پائی نہ جاتی ہو اور کوئی خرابی ایسی نہ تھی جو ان میں موجود نہ ہو۔ یہ قوم دنیا کی سرکش ، متمرد ، بداخلاق اور بد اطوار قوم کے دوسرے سارے عیوب کے ساتھ ایک ایسا خبیث عمل بھی رکھتی تھی جو دوسری کسی قوم میں اس وقت تک دیکھا یا سنا نہیں گیا تھا کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے عورتوں کی بجائے امرد لڑکوں کے شیدائی تھے یہی بدبخت قوم ہے جس نے اس ناپاک عمل کی طرح ڈالی اور اس کا نام ” تدومیت “ ہے لیکن افسوس کہ ہم مسلمانوں کے ہاں اس کو لوط (علیہ السلام) کی نسبت سے ” لواطت “ کا نام دیا گان جو کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ سدومی لوط (علیہ السلام) کی خاندانی برادری کے افراد نہ تھے۔ علاوہ ازیں سدومیوں میں وہ ساری قباحتیں موجود تھیں جو ایسے افراد میں ہوتی ہیں گویا ہر بدعملی دوسری کے ساتھ جنم لے لیتی ہے۔ چنانچہ عبدالوہاب نجار جو مورخین میں سے اپنے فن کے ماہر مورخ سمجھے جاتے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے عبرانی ادب کی ایک کتاب میں ان کی بعض بداعمالیوں کا حال پڑھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل سدوم کی یہ بھی عادت تھی کہ وہ باہر سے آنے والے تاجروں اور سوداگروں کے مال کو ایک نئے اور اچھوتے انداز سے لوٹ لیا کرتے تھے چناچہ ان کا یہ طریقہ تھا کہ جب کوئی سوداگر باہر سے آ کر سدوم میں مقیم ہوتا تو اس کے مال کو دیکھنے کے بہانے سے ہر شخص تھوڑی تھوڑی چیزیں اٹھاتا اور لے کر چل دیتا اور تاجر بےچارہ حیران و ششدر ہو کر رہ جاتا۔ اب اگر اس نے اپنے ضیاع مال کا شکوہ کیا اور رونے دھونے لگا تو ان لٹیروں میں سے ایک آتا اور لوٹی ہوئی ایک دو چیزیں دکھلا کر کہنے لگتا کہ بھائی میں تو یہ لے گیا تھا لو تمہاری یہ چیز موجود ہے وہ رنجیدہ آواز میں کہتا ہے کہ میں اس کو لے کر کیا کروں گا جہاں میرا سارا مال لٹ گیا وہاں یہ بھی سہی جا تو لے جا جب یہ معاملہ ختم ہوجاتا تو اب دوسرا آتا اور وہ بھی اسی طرح کوئی معمولی سی چیز دکھا کر وہی کہتا جو پہلے نے کہا تھا اور سوداگر رنج و غم اور غصہ میں اس سے بھی وہی کچھ کہتا۔ اس طرح سب اس کا مال ہضم کر جاتے اور سوداگر کو لوٹ کھسوٹ کر بھگا دیتے۔ اس کتاب میں یہ عجیب قصہ بھی موجود ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اور سارہ ؓ نے ایک مرتبہ لوط (علیہ السلام) کی خیر و عافیت معلوم کرنے کیلئے اپنے خانہ زاد الیعرز دمشقی کو سدوم روانہ کیا۔ وہ جب بستی کے قریب پہنچا تو اجنبی سمجھ کر ایک سدومی نے اس کے سر پر پتھر دے مارا اور الیعزر کے سر سے خون جاری ہوگیا تب آگے بڑھ کر سدومی کہنے لگا کہ میرے پتھر مارنے کی وجہ سے یہ تیرا سر سرخ ہوا ہے لہٰذا مجھے اس کا معاوضہ ادا کر اور اس مطالبہ کیلئے اس بیچارے کو کھینچتا ہوا سدوم کی عدالت میں لے گیا حاکم سدوم نے مدعی کا بیان سن کر کہا بلاشک الیعرز کو سدومی کے پتھر مارنے کی اجرت دینی چاہئے الیعزر یہ سن کر غصہ میں آگیا اور ایک پتھر اٹھا کر حاکم کے سر پر دے مارا اور کہنے لگا کہ میرے پتھر مارنے کی جو اجرت ہے وہ تو اس سدومی کو دے دینا اور یہ کہہ کر وہاں سے بھاگ گیا۔ یہ واقعات صیحے ہوں یا غلط لیکن ان سے یہ روشنی ضرور پڑتی ہے کہ اہل سدوم اس قدر ظلم ، فحش ، بےحیائی ، بداخلاقی اور فسق و فجور میں مبتلا تھے کہ اس زمانہ کی قوموں میں ان کی جانب سے اس قسم کے واقعات عام طور پر منسوب کئے جاتے تھے۔ لوط (علیہ السلام) کتنی مدت ان میں رہ چکے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے نوازا کچھ معلوم نہیں تاہم یہ بات تو یقینی ہے کہ لوط (علیہ السلام) ان میں سکونت پذیر ہونے کے باعث فریقین ایک دوسرے سے اچھی طرح مانوس ہوچکے تھے اور ایک دوسرے کو سمجھ چکے تھے اور اگر کوئی زبان کا اختلاف تھا تو وہ بھی یقیناً حل ہوچکا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کو انہی بستیوں کی طرح نبی مبعوث کردیا اور لوط (علیہ السلام) نے اللہ کا پیغام ان کو سنانا شروع کردیا اور ان کی برائیوں سے ان کو روکنے کی پوری کوشش کی۔ لوط (علیہ السلام) نے ان کی بےحیائیوں اور خباثتوں پر ملامت کی اور شرافت و طہارت کی زندگی کی رغبت دلائی اور حسن خطابت ، لطافت اور نرمی کے ساتھ جو ممکن طریقے سمجھانے کے ہو سکتے تھے استعمال کئے اور ان کو سمجھایا اور موعظت و نصیحت کی اور گزشتہ اقوام کی بداعمالیوں کے نتائج وثمرات بتا کر عبرت دلائی لیکن ان بدبختوں پر مطلق اثر نہ ہوا بلکہ اس کا الٹا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ برملا کہنے لگے کہ : ” اس لوط اور اس کے خاندان کو اپنے شوہر سے نکال دو ۔ یہ بلاشبہ بہت ہی پاک لوگ ہیں۔ “ (الاعراف 7 : 82) انھم اناس یتطھرون ” بلاشبہ یہ پاک لوگ ہیں “ قوم لوط کا یہ مذاقیہ فقرہ تھا گویا انہوں نے لوط (علیہ السلام) اور ان کے خاندان کرتے ہوئے ان کا ٹھٹھہ اڑاتے ہوئے یہ الفاظ کہے کہ بڑے پاک باز ہیں ان کا ہماری بستی میں کیا کام یا ناصح مشفق کی مربیانہ نصیحت سے غیظ و غضب میں آ کر کہتے تھے کہ ہم ناپاک اور بےحیاء ہیں اور وہ بڑے پاکباز ہیں تو ان کا ہماری بستی سے کیا واسطہ ؟ ان کو یاں سے نکالو یہ پاکبازوں میں جا کر رہیں اور بسیں۔ قوم کے اس استہزاء اور مذاق کی پرواہ انبیائے کرام کا شیوہ نہیں وہ ان باتوں سے بالکل بےنیاز تھے کہ کون کیا کہتا ہے ؟ ان کا کام اللہ کا پیغام پہنچانا تھا اور کسی کے روکے اپنے پیغام پہنچانے کی ذمہ داری سے رک نہیں جاتے تھے اور یہی کام لوط (علیہ السلام) نے کیا قوم کے اس طرح کے الٹی میٹم کی کوئی پروانہ کرتے ہوئے اپنی تبلیغ جاری رکھی اور فرمایا کہ لوگو ! تم کو اتنا بھی احساس نہیں رہا کہ یہ سمجھ سکو کہ مردوں کے ساتھ بےحیائی کا تعلق ، لوٹ مار اور اس قسم کی دوسری بداخلاقیاں بہت برے اعمال ہیں ، تم یہ سب کچھ کرتے ہو اور پھر محفلوں اور مجلسوں میں کرتے ہو اور پھر شرمندہ ہونے کی بجائے بعد میں ان کا ذکر ایک دوسرے کو اس طرح سناتے ہو کہ گویا یہ کار نمایاں ہیں جو تم نے انجام دیئے ہیں۔ چناچہ فرمایا کہ : ” کیا تمہارا حال یہ ہے کہ مردوں کے پاس جاتے ہو اور راہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں برے کام کرتے ہو ؟ “ (العنکبوت 29 : 29) یعنی یہ فحش کام چھپ کر بھی نہیں کرتے بلکہ اعلانیہ اپنی مجلسوں میں ایک دوسرے کے سامنے اس کا ارتکاب کرتے ہو اور یہی بات سورة نحل میں اس طرح فرمای گئی کہ ” تم ایسے بگڑ گئے ہو کہ دیکھنے والی آنکھوں کے سامنے فحش کاری کرتے ہو ؟ “ لوط (علیہ السلام) کی یہ باتیں سن کر انہوں نے جو کچھ کہا وہ یہ تھا کہ ” ائتنا بعذاب اللہ ان کنت من الصدقین “ لے آللہ کا عذاب اگر تو سچا ہے۔ جیسا کہ آپ پیچھے پڑھ چکے ایک وقت لوط (علیہ السلام) نے ان کو یہ کہا تھا کہ ” بھائیو ! یہ میری بیٹیاں موجود ہیں یہ تمہارے لئے پاکیزہ تر ہیں۔ کچھ اللہ کا خوف کھائو اور میرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھے ذلیل نہ کرو کیا تم میں کوئی بھی بھلا آدمی موجود نہیں۔ “ تو انہوں نے برملا جواب سنا دیا کہ : ” تجھے معلوم ہے کہ تیری بیٹیوں میں ہمارا کوئی حق نہیں ہے اور تو یہ بھی جانتا ہے کہ ہم کس چیز کے شیدائی ہیں۔ “ (ہود 11 : 79) یہ فقرہ ان لوگوں کے نفس کی پوری تصویر کھینچ دیتا ہے کہ وہ خباثت میں کس قدر ڈوب گئے تھے۔ بات صرف اس حد تک ہی نہ رہی تھی کہ فطرت اور پاکیزگی کی راہ سے ہٹ کر ایک گندی اور خلاف فطرت راہ پر چل پڑے تھے بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ان کی ساری رغبت اور تمام دلچسپی اب اس گندی راہ ہی میں تھی۔ ان کے نفس میں اب طلب اس گندگی ہی کی راہ گئی تھی اور وہ فطرت اور پاکیزگی کی راہ کے متعلق یہ کہنے میں کوئی شرم محسوس نہ کرتے تھے کہ یہ راستہ ہمارے لئے بنا ہی نہیں ہے۔ یہ اخلاق کے زوال اور نفس کے بگاڑ کا انتہائی مرتبہ ہے جس سے فرو تر کسی مرتبے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس شخص کا معاملہ تو بہت ہلکا ہے جو محض نفسی کمزوری کی وجہ سے حرام میں مبتلا ہوجاتا ہے لیکن حلال کو چاہنے کے قابل اور حرام کو بچنے کے قابل چیز سمجھتا ہے ایسا شخص کبھی سدھر بھی سکتا ہے اور اگر نہ سدھرے تو بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک بگڑا ہوا انسان ہے مگر جب کسی شخص کی ساری رغبت صرف حرام ہی میں ہو اور پھر وہ یہ بھی سمجھے کہ حلال اس کے لئے ہے ہی نہیں تو اس کا شمار انسانوں میں نہیں کیا جاسکتا وہ دراصل ایک گندہ کیڑا ہے جو غلاظت ہی میں پرورش پاتا ہے اور طیبات سے اس کے مزاج کو کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ ایسے گندے کیڑے اگر کسی صفائی پسند گھر میں پیدا ہوجائیں تو وہ اپنی پہلی فرصت میں ان پر فینئال ڈال کر ان کے وجود سے اپنے گھر کو پاک کردیتا ہے۔ غرض لوط (علیہ السلام) کے ابلاغ حق ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا قوم پر کچھ اثر نہ ہوا اور وہ اپنی بد اخلاقیوں پر اسی طرح قائم رہی۔ سیدنا لوط (علیہ السلام) نے یہاں تک غیرت دلائی کہ تم اس بات کو نہیں سوچتے کہ میں آئے دن جو اسلام اور صراط مستقیم کی دعوت کو پیغام کے لئے تمہارے ساتھ حیران و سرگرداں ہوں کیا کبھی میں نے تم سے اس سعی و کوشش کا کوئی ثمرہ طلب کیا ہے ؟ کیا کوئی اجرت مانگی ہے ؟ کسی نذر و نیاز کا طالب ہوا ہوں ؟ میرے پیش نظر تو تمہاری دینی و دنیوی سعادت و فلاح کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے مگر تم ہو کہ مطلق توجہ ہی نہیں کرتے۔ مگر ان کے تاریک دلوں پر یہ سب کچھ کہنے کا کوئی اثر نہ ہوا اور وہ لوط (علیہ السلام) کو ” اخراج “ اور ” سنگساری “ کی دھمکیاں بدستور دیتے رہے جب نوبت یہاں تک پہنچی اور ان کی سیاہ بختی نے کسی طرح اخلاقی زندگی پر آمادہ نہ ہونے دیا تو اس وقت ان کو بھی وہی پیش آیا جو اللہ کے بنائے ہوئے قانون جزاء کا یقینی اور حتمی فیصلہ ہے یعنی بدکرداریوں پر اصرار کی سزا بربادی و ہلاکت سنت اللہ میں طے ہے۔ مختصر یہ کہ وہ ملائکۃ اللہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے کی خوشخبری دینے کے بعد وہاں سے رخصت ہونے کے بعد سدوم پہنچ گئے اور لوط (علیہ السلام) کے ہاں مہمان ہوئے یہ اپنی شکل و صورت میں حسین و جمیل اور عمر میں امرد لڑکوں کی شکل و صورت میں تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی لباس ان کو یہاں آنے کے لئے دیا گیا تھا جس شکلوی صورت کے سدومی شیدائی تھے۔ لوط (علیہ السلام) نے ان مہمانوں کو دیکھا تو ڈر گئے کہ اب نہ معلوم یہ بدبخت قوم میرے ان مہمانوں کے ساتھ کیا کرے گی ؟ کیونکہ ابھی تک ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ ہیں۔ ابھی لوط (علیہ السلام) اسی شش و پنج میں تھے کہ قوم کو خبر لگ گئی اور وہ لوط (علیہ السلام) کے مکان پر چڑھ آئے اور مطالبہ شروع کردیا کہ تم ان کو ہمارے حوالے کر دو ۔ لوط (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا اور کہا کہ کیا تم میں کوئی بھی سلیم الفطرت انسان نہیں ہے کہ وہ انسانیت کو برتے اور حق کو سمجھے ؟ تم کیوں اس لعنت میں گرفتار ہو اور خواہشات نفس کے ازالہ کے لئے فطری طریق عمل کو چھوڑ کر اور حلال طریقہ سے عورتوں کو رفیقہ حیات بنانے کی جگہ اس ملعون بےحیائی کے درپے ہو۔ اے کاش ! میں ” رکن شدید “ کی زبردست حمایت حاصل کرسکتا ۔ لوط (علیہ السلام) کی اس پریشانی کو دیکھ کر ملائکہ نے کہا کہ آپ ہماری ظاہری صورتوں کو دیکھ کر گھبرائیے نہیں ہم آپ کو ان پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی خبر دینے کے لئے بھیجے گئے ہیں اسلئے کہ اللہ کے قانون ” جزائے اعمال “ کا فیصلہ ان کے حق میں اٹل ہے۔ وہ اب ان کے سر سے ٹلنے والا نہیں۔ آپ اور آپ کا خاندان اللہ کے اس نہ ٹلنے والے عذاب سے محفوظ رہے گا مگر آپ کی بیوی ان ہی کی رفاقت میں ہلاک ہو جائیگی اور آپ کا ساتھ نہ دے گی۔ پھر آخر عذاب الٰہی کا وہ مقررہ وقت آپہنچا ابتدائے شب ہوئی تو لوط (علیہ السلام) ان کی دی گئی ہدایت کے مطابق اپنے خاندان سمیت دوسری جانب سے نکل کر سدوم سے رخصت ہوگئے اور ان کی بیوی نے ان کی رفاقت سے انکار کردیا اور راستہ ہی سے لوٹ کر سدوم واپس آگئی ۔ آخر شب ہونے کو تھی کہ اول ایک ہیبت ناک چیخ نے اہل سودم کو تہ وبالا کردیا اور پھر آندھی اور سنگریزوں کی بارش نے ساری بستی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ایک ہی شدید زلزلہ سے زمین سمندھر کی اصل تہ سے بھی کہیں نیچے دھنسا دی گئی کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ قبل اس کے کہ ان آیات کریمات کو ایک جگہ جمع کیا جائے جہاں جہاں قرآن کریم میں لوط (علیہ السلام) کا تذکرہ ہے دو تین باتیں مزید سمجھنے کی ہیں ان کو سمجھ کر پھر آگے چلیں گے۔ انشاء اللہ۔ ۔ 1 کہا جاتا ہے کہ لوط (علیہ السلام) نے لو ان لی بکم قوۃ اواوی الی رکن شدید (ہود 11 : 80) ” کاش ! میرے پاس اتنی طاقت ہوتی کہ (تمہیں سیدھا کردیتا) یا ” رکن شدید “ کی طرف ٹھکانا پکڑتا ۔ کے الفاظ بیان فرما کر غیر اللہ کی طرف توجہ فرمائی ہے۔ حالانکہ اس آیت سے غیر اللہ کی طرف توجہ کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ جس نے کہا اس کی اپنی تفہیم درست نہ ہوئی۔ اس لئے کسی نے اس سے لوط (علیہ السلام) کا خاندان مراد لیا اور کسی نے کوئی پختہ محل جبکہ ایسی کوئی بات بھی نہیں۔ اس رکن شدید سے کیا مراد ہے ؟ کیا لوط (علیہ السلام) نے ” الیعاذ باللہ “ اللہ کی قدرت پر بھروسہ نہ کیا کہ وہ کسی ” رکن شدید “ کی پناہ کے طالب تھے ؟ خود نبی اعظم و آخر ﷺ کی زبان اقدس نے اس کا فیصلہ فرما دیا۔ چناچہ آپ نے فرمایا یغفر اللہ للوط ان کان لیاوی الی رکن شدید (صحیح بخاری مع فتح الباری پارہ 13 ص 244) اللہ لوط کو بخشے کہ وہ (کس قدر پریشان کئے گئے) کہ رکن شدید (اللہ تعالیٰ ) کی طرف ہجرت کے طالب ہوئے۔ زیر نظر حدیث پر نہایہ ابن الاثیر اور ممع البحار میں یہ تبصرہ کیا گیا ہے کہ : رحمہ اللہ لوطا ان کان یاوی الی رکن شدید الی اللہ الذی ھو اشد الارکان واقوھا وانما ترحم علیہ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ لوط علیہ ال سلام نرم مزاج اور قابل رحم تھے کہ قوم کی شرارتوں سے تنگ آ کر انہوں نے رکن شدید کی طرف توجہ فرمائی جس سے مراد ان کی اللہ پاک کی ذات گرامی ہے کہ وہ مجھے بحفاظت تام کسی بہتر جگہ پہنچا دے اور یہ وہی بات ہے جو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) لوط (علیہ السلام) کے سامنے کئی بار کہہ چکے تھے جیسے انی ذاھب الی ربی (الصافات 37 : 99) انی مھا جر الی ربی (العنکبوت 29 : 26) میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں اور یہ کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں امید ہے کہ وہ مجھے بحفاظت تام کسی بہتر جگہ پر پہنچا دے گا اور یہی بات لوط (علیہ السلام) نے کہی ہے اس لئے کہ ابھی تک فرشتوں نے ہجرت کی اطلاع آپ کو نہ دی تھی اور آپ کے اس جملہ کے بعد کچھ زیادہ دیر نہ لگی کہ آپ کو ہجرت کا حکم سنا دیا گیا اور رات آنے تک آپ وہاں سے محفوظ مقام کی طرف ہجرت کر بھی گئے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کے الفاظ یغفر اللہ للوط اور شارحین کے جملہ رحم اللہ لوط سے کسی صاحب کو وہم نہ ہو کہ جب کوئی غلطی لوط (علیہ السلام) نے نہیں کی تو پھر ان الفاظ کا مطلب کیا ؟ یاد رہے کہ رحم اللہ فلانا محل مدح میں واقع ہے اور یہ لفظ مختلف جگہوں میں ” محل مدح “ کے طور پر خود رسول اللہ ﷺ نے بار بار استعمال فرمایا ہے اس سے کسی گناہ کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں پایا جاتا۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : عن علی قال قال رسول اللہ ﷺ رحم اللہ ابابکر زوجنی ابنتہ و حملنی الی دار الھجرۃ واعتق بلالا من مالہ رحم اللہ عمر یقول الحق وان کان مرا ترکہ الحق ومالہ صدیقف رحم اللہ عثمان تستحییہ الملائکۃ رحم اللہ علیا اللھم ادر الحق معہ حیث دار (جامع ترمذی ج 2 ص 219 باب مناقب علی ؓ رحم اللہ امرا صلی قبل العصر اربعاً (ابو دائود ج اول ص 180) رحم اللہ رجلا قام من اللیل فصلی وایقظ امراتہ فان ابت نضح فی وجھا الماء رحم اللہ امراۃ قامت من اللیل (ابو دائود ج اول ص 185) یہ سب مناقب و فضائل میں کہا گیا ہے ، مثالب و رذائل کا نہ کوئی شبہ ہے اور نہ گنجائش۔ پھر رکن شدید کے متعلق صاف صاف بیان محمد ثین و مفسرین کا موجود ہے جیسا کہ اوپر بھی بیان کیا گیا ہے اور مزید یہ ہے کہ : فالمراد بالرکن الشدید ھو اللہ سبحانہ و تعالیٰ فانہ اشد الارکان و اقواھا وامنعھا (عون الباری ص 289 ج 2 ، عمدۃ القاری ص 270 ج 15 ، فتح الباری شرح صحیح بخاری پارہ 13 ص 244 ، سراج وہاج ص 432 ج 2 ، صحیح مسلم مع شرح نووی ج اول ص 86) الرن الشدید من اللہ الذی لارکن مثلہ (مشکل الاثار امام طحاوی ج اول ص 135) مطلب صاف ہوگیا کہ سیدنا لوط (علیہ السلام) اللہ کو بھول کر کسی اور قوت کی پناہ کے طالب نہ تھے بلکہ وہ اس درجہ قابل رحم حالت میں تھے کہ اس وقت ان کی یہ تمنا ہوئی کاش ! کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایسی قوت عطا فرماتا کہ میں اس وقت ان سب بدبختوں کو ان کی خباثت کا مزہ چکھا سکتا اور ” رکن شدید “ یعنی اس کے پروردگار نے آخر ان کی مدد کی اور ان پر فرشتوں نے سارا راز ظاہر کردیا اور ان کو تسلی اور اطمینان دیا کہ آپ پریشان نہ ہوں تھوڑا ہی وقت گزرے گا کہ یہ اپنی اس بد کرداری کے عبرت ناک انجام کو پہنچ جائیں گے۔ اس راز کے کھل جانے کے بعد آپ سدوم سے ہجرت کر کے مع اپنے خاندان کے افراد کے ضوع یا ضغر کی بستی میں چلے گئے جو سدوم سے قریب ہی آباد تھی اور بعد ازیاں جلد ہی ضغر کو بھی چھوڑ کر قریب ہی ایک پہاڑ پر جا کر آباد ہوگئے اور امن وامان سے رہنے سہنے لگے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ ۔ 2 لوط (علیہ السلام) کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے مہمانوں کی حفاظت کے لئے اپنی بیٹیاں کیسے پیش کردیں ؟ کیونکہ آپ نے ان سے فرمایا ہے کہ ” ھولاء بنتی ھن اطھرلکم (ہود 11 : 78) ھولاء بنتی ان کنتم فعلین (الحجر 15 : 71) یعنی لوط (علیہ السلام) نے قوم کی مزاحمت اور مہمانوں سے متعلق مطالبہ سے تنگ آ کر یہ فرمایا کہ ” تم ان مہمانوں سے تعرض نہ کرو اگر نفس کی فطری خواہش پوری کرنا چاہتے ہو تو یہ میری بیٹیاں موجود ہیں یہ تمہارے لئے پاک ہیں۔ “ اس کا کیا مطلب ہے ؟ ایک باعصمت و باعزت انسان اور پھر وہ نبی معصوم کس طرح یہ گوارا کرسکتا تھا کہ اپنی باعصمت لڑکیوں کو ایے بےحیاء اور خبیث انسانوں کے سامنے پیش کرے ؟ بلاشبہ اس طرح کے فرضی سوال اٹھائے گئے اور پھر مختلف طریقوں سے ان کے جواب بھی دیئے گئے حالانکہ ذرا غور کرلیا جاتا تو اس طرح کے سارے سوال خود بخود ہی ختم ہو کر رہ جاتے بڑی تمہیدات کی کوئی ضرورت نہ پڑتی۔ بات بالکل صاف ہے کہ لوط (علیہ السلام) نبی و رسول ہیں اور ہر ایک نبی و رسول اپنی پوری امت کا روحانی باپ ہے قوم مسلمان ہو کر اس کی اطاعت گزار ہو یا انکارر کے متمرد و منحرف ہوجائے۔ دونوں صورتوں میں وہ اس کی امت میں داخل ہے اگرچہ پہلا گروہ ” امت اجابت “ کہلاتا ہے اور دوسرا گروہ ” امت دعوت “ اور اس طرح تمام امت اس کی اولاد ہوتی ہے اور نبی و رسول اس پوری امت کا روحانی باپ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح لوط (علیہ السلام) نے جو ” بنتی “ کا لفظ ارشاد فرمایا تو اس کے ساتھ ” ھن اطھر لکم “ بھی فرمایا یعنی میری وہ بیٹیاں جو تمہارے ساتھ بیاہی جا چکی ہیں وہ تمہاری اس نفسانی خواہش کے ازالہ ہی کے لئے تو ہیں جو تمہارے لئے لحال اور پاکیزہ ہیں پھر تم کتنے بدبخت ہو کہ ان کو چھوڑ کر اس ملعون اور خبیث کام پر اصرار کرتے ہو ایسا نہ کرو ” الیعاذ باللہ “ یہ مقصد بالکل نہ تھا کہ وہ اپنی صلبی لڑکیاں ان کو پیش فرما رہے تھے۔ جس نے یہ سمجھایا جس نے یہ کہا بالکل غلط سمجھا اور بالکل غلط کہا۔ ہمیں تعجب ہے کہ علامہ عبدالوہاب نجار مصری نے اس پر یہ سوال کیسے اٹھا دیا کہ ” یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ لوط (علیہ السلام) ان کافر عورتوں کے باپ تسلیم کئے جائیں ؟ “ اس میں باپ تسلیم ہونے یا بیٹیاں تسلیم کرنے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے ہر زبان میں کسی بچی یا کسی بچے کو بیٹی یا بیٹا ” ایھا الولد “ ” My Son “ کے لفظ سے یاد کیا سکتا ہے اور اسی طرح کسی بزرگ اور بڑے آدمی کو ” ابو “ ” چچا “ یا ” والدی “ اور ” Father “ کہا جاسکتا ہے اور اس سے وہ حقیقی اور صلبی اولاد یا باپ نہیں بن جاتا۔ اتنی عام فہم بات کو کیا سے کیا بنا دیا گیا۔ اور سب سے بڑھ کر ثبوت اس معاملہ میں اللہ کی کتاب ہے اور اس نے خود اس بات کا دوسرا جگہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ لوط (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو ان کی اپنی بیویوں کی طرف توجہ دلائی تھی وہ بات نہیں کہی تھی جس پر سوال جواب کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : اور سب سے بڑھ کر ثبوت اس معاملہ میں اللہ کی کتاب ہے اور اس نے خود اس بات کا دوسرا جگہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ لوط (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو ان کی اپنی بیویوں کی طرف توجہ دلائی تھی وہ بات نہیں کہی تھی جس پر سوال جواب کا سلسلہ شرع کردیا گیا۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : (آیت) (الشعراء 26 : 166) ” کیا تم دنیا جہان میں مردوں ہی کے پاس آتے ہو اور تمہاری بیویوں میں تمہارے رب نے تمہارے لئے جو کچھ پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو ؟ (کتنے نالائق ہو تم) بلکہ تم لوگ تو حد سے ہی گزر گئے ہو۔ “ اب انہی ” آزواجکم “ کو لوط (علیہ السلام) نے ” بنتی ھن اطھرلکم “ کہہ دیا ہے تو آخر کو سنی قیامت ہوگئی ہے ؟ اور کیوں اس بحث کو اتنا طول دیا گیا ہے ؟ چنانچہ در منشورج 3 ص 342 میں بحوالہ ابو الشیخ عبداللہ بن عباس مروی ہے کہ : ” ما عرض لوط (علیہ السلام) بناتہ علی قومہ لا سفاحا ولا نکاحا انما قال ھولآء بناتی نساء کم لان النبی اذا کان بین ظھری قوم فھو ابوھم قال اللہ فی القرآن وازواجہ امھانھم و ھو ابوھم فی قراہ ابی “ نیز بحوالہ ابن عساکر اور ابن ابی الدنیا سدی سے مروی ہے کہ : ” ھولاء بناتی قال عرض علیھم نساء امتہ کل نبی ابوامتہ و فی قراۃ عبداللہ النبی اولی بالمئومنین من انفسھم وازواجہ امھاتھم۔ “ نیز بحوالہ ابن جریر ابن ابی حاتم وغیرہ مجاہد اور سعید بن جیر سے مروی ہے کہ : ” ھئولاء بناتی قال عرض علیھم نساء امتہ کل نبی ابوامتہ و فی قراۃ عبداللہ النبی اولی بالمئومنین من انفسھم وازواجہ امھاتھم۔ “ نیز بحوالہ ابن جریر ابن ابی حاتم وغیرہ مجاہد اور سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ : ” لم تکن بناتہ ولکن کن من امتہ و کل نبی ابوامتہ … انما دعا ھم الی نساء ھم و کل نبی ابوامتہ۔ “ ۔ 3 کیا لوط (علیہ السلام) کی بیوی کافرہ اور مشرکہ تھی یا زانیہ اور بدکار ؟ یہ سوال پیچھے نوح (علیہ السلام) کے تذکرہ میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ سمجھ لینا چاہئے کہ کسی نبی کے حسب و نسب میں زنا جیسی بد کاری کا صدور تسلیم نہیں اور نہ ہی کسی نبی کے اہل یعنی زوجہ میں۔ ہاں حسب و نسب میں کفر و شرک اور اہل یعنی زوجہ میں مرض منافقت کا صدور ممکن ہے جس کو نبی کی خیانت پر محمول کیا گیا ہے اور یاد رہے کہ نوح (علیہ السلام) کی بیوی ” واہلہ “ اور لوط (علیہ السلام) کی بیوی ” واعلہ “ دونوں میں نبوی خیانت موجود تھی زوج کی خیانت نہیں اور اللہ کے ان دونوں بندوں کا کمال ہے کہ انہوں نے باوجود نبی و رسول ہونے کے نبوت و رسالت کی خیانت کو برداشت کرتے ہوئے وقت گزار دیا اور اپنی زوجیت سے ان کو فارغ نہیں کیا جس میں ساری امتوں کے لئے جو ان کے بعد آئیں ایک ” اسوئہ حسنہ “ موجود ہے اور قران کریم نے اس کو بیان فرما کہ یہ ثابت کردیا ہے کہ میاں بیوی کا تعلق کتنا ہی قریب کا تعلق ہے لیکن اتنا قریب بھی اس شخص کے لئے مفید مطلب ثابت نہیں ہوتا جس شخص میں نبی و رسول کی نافرمانی کے جراثیم موجود ہوں۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : (آیت) (التحریم 66 : 10) ” اللہ کافروں کے معاملہ میں نوح اور لوط کی بیویوں کو بطور مثال پیش کرتا ہے وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں مگر انہوں نے دونوں نبیوں سے (باوجود ان کی بیویاں ہونے کے) خیانت کی اور وہ (نبی) اللہ کے مقابلے میں ان کے کچھ بھی کام نہ آسکے اور ان دونوں (نبیوں کی بیویوں سے) کہہ دیا گیا کہ جائو آگ میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی داخل ہو جائو۔ “ اس معاملہ میں مشاہر علمائے اسلام و مفسرین کرام نے تشریح و تفسیر کردی ہے۔ چنانچہ تفسیر فتح البیان میں زیر نظر آیت کے تحت بیان کیا گیا ہے کہ : وقد و قعت الا دلۃ الا جماعیۃ علی انھا فمازنت امراۃ بنی قط ” سب مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سکی نبی کی بیوی زانیہ نہیں ہوئی۔ “ در منشورج 3 ص 335 میں بحوالہ ابن ابنی حاتم اور ابو الشیخ عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ : ان نساء الانبیاء لا یزنین ” نبیوں کی بیویاں کبھی زنا کار نہیں ہو سکتیں۔ “ در منشورج 3 ص 335 میں بحوالہ عبدالرزاق فریابی ابن منذر ، ابن ابی حاتم ، ابن عساکر اور ابوالشیخ عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ : مایغت امراۃ بنی قط ” کسی نبی کی بیوی زنا کار نہیں ہوئی اور نہ ہی ہو سکتی تھی۔ “ در منشورج 6 ص 245 بحوالہ ابن عساکر اثرس فراسانی سے مرفوعاً آیا ہے کہ : انہ قالما بغت امراۃ بنی قط ” نبی اعظم و آخر ﷺ نے فرمایا کہ کبھی بھی کسی نبی کی بیوی بدکار (زانیہ) نہیں ہوئی۔ “ در منشور ج 6 ص 245 بحوالہ عبدالرزاق فریابی ، سعید بن منصور ، عبدبن حمید ، ابن ابی الدنیا ، ابن جریر ، ابن منذر ، ابن ابی حاتم ، حاکم عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ : ما زنتا اما خیانت امراۃ نوح فکانت تقول للناس انہ مجنون و اما خیانت امراۃ لوط فکانت تدل علی الضیف فتلک خیانیھما …” وہ بدکار نہیں تھیں ، نوح (علیہ السلام) کی بیوی تو لوگوں سے کہہ دیتی کہ وہ نوح مجنون ہے اور لوط (علیہ السلام) کی بیوی دوسرے لوگوں کو باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی اطلاع کردیتی تھی۔ “ تفسیر مواحب الرحمٰن میں ہے کہ ” کسی نبی کی بیوی کبھی بدکار نہیں رہی ، ان دونوں عورتوں کی خاونت دراصل دین کے معاملہ میں تھی نوح (علیہ السلام) کی بیوی اپنی قوم کے جباروں کو ایمان لانے والوں کی خبریں پہنچایا کرتی تھی اور لوط (علیہ السلام) کی بیوی اپنے شوہر کے ہاں آنے والے لوگوں کی اطلاع اپنی قوم کے بد اعمال لوگوں کو دے دیا کرتی تھی۔ “ (زیر نظر آیت زیر بحث) در منشور ج 6 ص 234 میں بحوالہ ابن عدی ، ابن عساکر ، شعب ال ایمان ضحاک سے مروی ہے کہ : انما کانت خیانت امراۃ نوح وامراۃ لوط النمیمۃ ” ان دونوں عورتوں کو چغل خوری کی عادت تھی ادھر کی باتیں ادھر کرتی رہتی تھیں۔ “ مفردات امام راغب میں خیانت کا ترجمہ ” نفاق “ کیا ہے اور یہ ان ساری باتوں پر ” حاوی “ ہے جو پیچھے ذکر کی جا چکی ہیں لیکن کسی منافق کو بھی محض اس کے نافق کے باعث زانی نہیں کہا جاسکتا۔ اور ازدواجی زندگی میں آنے کے بعد زوجین میں سے کسی کا نفاق کھل جائے چونکہ وہ نفاق ازدواج بننے سے پہلے معلوم نہ تھا اب اصلاح کی کوشش تو کی جاسکتی ہے لیکن محض اس کے باعث ازدواجی زندگی منقطع نہیں کرنی چاہئے۔ ازدواجی زندگی کے انقطاع کی جائز و ج ہیں اور ہیں۔ ازیں بعد ان آیات کریمات کو یکجا جمع کیا جا رہا ہے جن میں سیدنا لوط (علیہ السلام) کا ذکر آیا ہے۔ حسب معمول ہم ترجمہ پر اکتفا کریں گے۔ متن قرآن کریم سے دیکھ لیں اور تفسیر دیکھنا مطلوب ہو تو آیتوں کے حوالہ جات سے وہ مقامات نکال کر دیکھی جاسکتی ہے۔ ” اور لوط کا واقعہ یاد کر ، جب اس نے اپنی قوم سے کہا تھا کیا تم اس بےحیائی کا کام پسند کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی انسان نے نہیں کیا ؟ تم عورتوں کو چھوڑ کر نفسانی خواہش سے مردوں پر مائل ہوتے ہو یقینا تم ایک ایسی قوم ہوگئے ہو جو اپنی نفس پرستیوں میں بالکل چھوٹ ہے۔ لوط کی قوم نے اس کو جو جواب دیا وہ صرف یہ تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کو کہنے لگے اس آدمی کو اپنی بسی سے نکال باہر کرو یہ ایسے لوگ ہیں جو بڑے پاک و صاف (بنے بیٹھے) ہیں۔ پھر ایسا ہوا کہ لوط اور اس کے سارے گھر والوں کو تو ہم نے بچالیا مگر سا کی بیوی نہ بچی کہ وہ بھی پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔ ہم نے ان پر ایک انوکھی بارش برسائی جو بھی برسائی سو دیکھو مجرموں کا انجام کیسا ہوا ؟ “ (الاعراف 7 : 81 تا 84) ” اور پھر جب ایسا ہوا کہ ہمارے فرستادہ لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کے آنے سے خوش نہیں ہوا ، ان کی موجودگی نے اسے پریشان کردیا وہ (دل ہی دل میں ) بولا آج کا دن تو بڑی مصیبت کا دن ہے اور اس کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے آئے وہ پہلے ہی برے کاموں کے عادی ہوچکے تھے۔ لوط نے ان سے کہا کہ لوگو ! یہ میری بیٹیاں ہیں (یعنی ان ہی کی عورتیں جو اس بستی میں ان ہی لوگوں کے گھروں میں رہ رہی تھیں اور جنہیں انہوں نے چھوڑ رکھا تھا) یہ تمہارے لئے جائز اور پاک ہیں (کیونکہ تمہارے نکاح میں ہیں) پس (ان کی طرف ملتفت ہو) اللہ سے ڈرو ، میرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھے رسوا نہ کرو کیا تم میں کوئی بھی بھلا آدمی نہیں ہے ؟ ان لوگوں نے جواب دیا کہ تجھے معلوم ہوچکا ہے کہ تیری ان بیٹیوں سے (جن کو تو نے اپنی بیٹیاں کہہ کر ہم کو متوجہ کیا ہے) ہمیں کوئی سروکار نہیں (ہماری رغبت اس طرف نہیں) اور تو اچھی طرح جانتا ہے کہ ہم کس بات کے شیدائی ہیں۔ لوط نے (ان کی بات سنی اور) کہا اے کاش تمہارے معاملے کی مجھے طاقت ہوتی (کہ تمہیں سیدھا کردیتا) یا ” رکن شدید “ کی طرف ٹھکانا پکڑتا (ہجرت کا حکم ملتا تو یہاں سے ہجرت کرجاتا) اس وقت مہمان خود بول پڑے کہ اے لوط ! ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے آئے ہیں (گھبرائیے نہیں) یہ لوگ تجھ پر قابو نہیں پا سکیں گے۔ بس تو اس طرح کر کہ جب رات کا ایک حصہ گزر جائے تو اپنے گھر کے آدمیوں کو ساتھ لے کر یہاں سے ہجرت کر جا اور تم میں سے کوئی ادھر ادھر نہ دیکھے (لیت و لعل نہ کرے) مگر ہاں ! تیری بیوی تیرا ساتھ دینے والی نہیں (پیچھے رہ جائے گی) اور جو کچھ ان لوگوں پر گزرنے والا ہے اس پر بھی گزر جائے گا۔ ان لوگوں کے لئے عذاب کا مقررہ وقت صبح کا ہے اور صبح کے آنے میں آخر کتنی دیر ہے ؟ (کچھ دیر نہیں) پھر جب ہماری (ٹھہرائی ہوئی ) بات کا وقت آپہنچا تو ہم اس بستی کی تمام بلندیاں پستی میں بدل کر رکھ دیں گے اور اس پر آگ میں پکے ہوئے پتھر لگاتار برسائے جو تیرے پروردگار کی طرف سے نشان کئے ہوئے تھے اور (پیغمبر اسلام ! ) یہ بستی (جس کو تہس نہس کرنے کا ذکر کیا جا رہا ہے) آپ کے وقت کے ظالموں سے کوئی دور نہیں ہے۔ (یہ اپنی سیرو سیاحت میں وہاں سے گزرتے رہتے ہیں۔ ) ( سورة ہود 11 : 77 تا 83) ” پھر جب ایسا ہوا کہ یہ بھیجے ہوئے (فرشتے) لو کے لوگوں کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا کہ تم لوگ اجنبی آدمی معلوم ہوتے ہو ، انہوں نے کہا نہیں ایسی بات نہیں بلکہ ہم تمہارے پاس وہ بات لے کر آئے ہیں جس میں (آپ کی قوم کے ) لوگ شک کیا کرتے تھے (یعنی ان کی ہلاکت کی خبر) ہمارا آنا تو ایک امر حق کے لئے ہے اور ہم اپنے بیان میں سچے ہیں۔ پس چاہئے کہ کچھ رات رہے اپنے گھر کے لوگوں کو لے کر نکل جائو (یہاں سے ہجرت کر جائو) اور تم خود ان کے پیچھے پیچھے چلو اور اس بات کا خیال رکھو کہ تم میں سے کوئی پلٹ کر نہ دیکھے۔ جہاں جانے کا حکم دے دیا گیا ہے (اس طرف رخ کئے) چلے جائو۔ غرض کہ ہم نے لوط پر حقیقت حال واضح کردی کہ ہلاکت کا ظہور ہونے والا ہے اور باشندگان شہر سدوم کی بیخ و بنیاد صبح ہوتے ہوتے اکھڑ جانے والی ہے اور اس (اثناء میں ایسا ہوا کہ ) شہر کے لوگ خوشیاں مٹاتے ہوئے آپہنچے۔ لوط نے کہا دیکھو یہ نئے آدمی میرے مہمان ہیں تم میری فضیحت نہ کرو ، اللہ سے ڈرو تم میری رسوائی کے کیوں در پے ہوگئے ہو ؟ انہوں نے کہا کیا ہم نے تجھے اس بات سے نہیں روک دیا تھا کہ کسی قوم کا آدمی ہو لیکن اپنے یہاں نہ ٹھہرائو (اگرٹھہرائو گے تو پھر جو کچھ ہمارے جی میں آئے گا وہ کر گزریں گے) لوط نے کہا اگر ایسا ہی ہے تو دیکھو یہ میری بیٹیاں (یعنی تمہاری بیویاں ہیں جن کی طرف ملتقت ہونے کا تم کو حکم ہے ) ان کی طرف ملتفت ہو۔ (اس وقت فرشتوں نے لوط سے کہا) تمہاری زندگی (کے رب) کی قسم یہ لوگ تو اپنی بدمستیوں میں کھوئے گئے ہیں (تمہاری باتیں ماننے والے نہیں) غرض (فرشتوں نے جب صورتحال بتا دی تو) سورج نکلتے ہی نکلتے ایک ہولناک آواز (الصیحۃ) نے انہیں آ لیا۔ پس ہم نے وہ بستی زیر و زبر کر ڈالی اور پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی ان پر بارش کی (کہ آتش فشاں نے پھٹ کر ان کو تہہ وبالا کردیا) بلاشبہ اس واقعہ میں ان لوگوں کے لئے بڑی ہی نشانیاں ہیں جو (حقیقت کی ) پہچان رکھنے والے ہیں (اور جو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیں ان کے لئے کچھ فائدہ نہیں۔ ) اور (قوم لوط کی) یہ بستی (کسی غیر معروف گوشے میں نہ تھی وہ) ایسی راہ پر واقع ہے جہاں آمد و رفت کا (اب بھی) سلسلہ قائم ہے بلاشبہ اس بستی کی حالت میں ایمان رکھنے والوں کے لئے ایک بڑی ہی نشانی ہے۔ “ ( سورة الحجر 15 : 61 تا 79) ” لوط کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔ یاد کرو جب ان کے بھائی لوط نے ان سے کہا تھا کہ کیا تم لوگ ڈرتے نہیں ہو ؟ میں تمہارے لئے ایک امانت دار رسول ہوں لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے کیا تم دنیا جہان کی مخلوق سے مردوں کے پاس جاتے ہو اور تمہاری بیویوں میں تمہارے رب نے تمہارے لئے جو کچھ پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو ؟ بلکہ تم لوگ تو حد سے ہی گزر گئے ہو۔ انہوں نے کہا اے لوط ! اگر تو ان باتوں سے باز نہ آیا تو جو لوگ ہماری بستیوں سے نکالے گئے ہیں ان میں سے بھی شامل ہو کر رہے گا۔ اس نے کہا کہ تمہارے کرتوتوں پر جو لوگ کڑھ رہے ہیں میں (پہلے ہی) ان میں شامل ہوں ، اے پروردگار مجھے اور میرے اہل و عیال کو ان کی بدکرداریوں سے نجات دے۔ انجام کار ہم نے اسے اور اس کے سارے اہل و عیال کو بچالیا بجز اس بڑھیا کے جو اس کی بیوی تھی وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی پھر باقی ماندہ لوگوں کو ہم نے تباہ کردیا اور ان پر ایک ایسی بارش برسائی جو بہت ہی بری بارش تھی جو ان ڈرائے جانے والوں پر برسائی گئی۔ “ (الشعراء 26 : 160 تا 173) ” اور ہم نے لوط کو بھیجا کہ جب کہ اس نے اپنی قوم سے کہا کہ تم تو وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کیا ہے۔ کیا تمہارا حال یہ ہے کہ تم مردوں کے پاس جاتے ہو اور رہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں برے کام کرتے ہو ؟ پھر کوئی جواب اس کی قوم کے پاس اس کے سوا نہ تھا کہ انہوں نے کہا لے آ اللہ کا عذاب اگر تو سچا ہے۔ لوط نے کہا اے میرے رب ! ان مفسد لوگوں کے مقابلہ میں میری مدد فرما۔ “ (العنکبوت 29 : 28 تا 30) اور سورة التحریم 66 کی آیت 10 میں بھی لوط (علیہ السلام) کی بیوی کا ذکر آیا جس کی تفصیل قریب ہی پیچھے گزر چکی ہے۔ لوط (علیہ السلام) کی دعوت کو مختصراً بیان کردینا بھی فائدے سے خلای نہیں ہوگا اس لئے اس کا مختصر سے مختصر ذکر اس طرح کیا جاسکتا ہے جو یاد رکھنا آسان ہوگا۔ ۔ 1 لوط (علیہ السلام) سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے بھیجتے ہارون کے بیٹے تھے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ہی مہاجر ہوئے اور بحکم الٰہی ” سدوم “ میں مقیم ہوگئے جو دریائے یرون کی ترائی میں واقعہ تھا۔ ۔ 2 لوط (علیہ السلام) کی قوم میں جو بد اعمالیاں پھیلی ہوئی تھیں ان سب میں سرفہرست سدومیت یعنی اغلام بازی تھی اور چند معدودے آدمیوں کے سوا پوری قوم اس بےحیائی اور غیر فطری فعل میں غرق ہوچکی تھی۔ اس لئے لوط (علیہ السلام) نے بھی سب سے پہلے اس بات کو اپنی دعوت کا موضوع بنایا لیکن آپ کی دعوت کا قوم پر ذرا اثر نہ ہوا۔ ۔ 3 لوط (علیہ السلام) چونک باہر سے آ کر آباد ہوئے تھے آپ کے پاس کے علاقے کے مہمان آئے تو ان کو اس بستی کے لوگ تنگ کرتے اور ان کے پیچھے پڑجاتے تھے۔ ۔ 4 لوط (علیہ السلام) سے مطالبہ کرتے کہ یا تو آپ ان مہمانوں کو یہاں اپنے ہاں ٹھہرنے نہ دیں یا جو کچھ ہم چاہتے ہیں اس سے ہم کو منع نہ کریں۔ ۔ 5 سدومیوں میں علاوہ ازیں بہت کچھ برائیاں پائی جاتی تھیں کہ وہ لوگوں کا مال ہتھیا لیتے تھے اور خصوصاً اجنبیوں کو طرح طرح سے تنگ کرتے تھے۔ ۔ 6 سدوم کی بستی آتش فشاں پہاڑوں کے دامن میں تھی اور یہ وسعے و عریض پہاڑی دامن مویشی پالنے اور زراعت کے کام کے لئے نہایت ہی موزوں تھا۔ ۔ 7 اللہ تعالیٰ کے فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے تاکہ ان کو وہاں سے نکل جانے کی اطلاع دیں اور قوم کے غرق ہوجانے کی خبر پہنچائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو شکل و صورت کا ایسا لباس دیا جو سدومیوں کے لئے جاذب نظر تھا وہ ان کو دیکھتے ہی مفتون ہوگئے اور ایسے اندھے ہوئے کہ خواہش نفس کے ازالہ کے لئے لوط (علیہ السلام) کے گھر میں گھس آئے۔ ۔ 8 لوط (علیہ السلام) نے ان کو بیشمار پندو نصیحت کی لیکن وہ اتنے ڈھیٹ نکلے کہ ان پر کسی بات کا کچھ اثر نہ (آیت 88) ہوا۔ لوط (علیہ السلام) کی پریشانی کو دیکھ کر فرشتوں نے حقیقت سے پردہ اٹھایا اور لوط (علیہ السلام) کو ہجرت کی اطلاع دے کر اور مقام ہجرت کا اشارہ سمجھا کر دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہوگئے اور انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ آپ کی بیوی آپ کا ساتھ دینے والی نہیں ہے اسلئے اس کی ہلاکت کا پیغام ہی یاد رکھو۔ ۔ 9 لوط (علیہ السلام) رات کے وقت اپنے سارے خاندان کو لے کر اطلاع دیئے گئے مقام کی طرف نکل گئے اور آپ کی بیوی نے فی الواقع آپ کا ساتھ نہ دیا۔ ۔ 10 رات کے آخری حصہ میں آتش فشاں پھٹا اور سورج کے نکلنے کے وقت تک اس پوری بستی کو تہس نہس کر کے رکھ دیا اور اس علاقہ کو زمین کے اندر دھنسا کر رکھ دیا گیا۔ گویا اس عذاب الٰہی کی ابتداء آگ اور پتھر کی بارش سے ہوئی اور انتہا زمین کے اندر ہی اندر دھنس جانے پر۔
Top