Urwatul-Wusqaa - Ar-Ra'd : 13
وَ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ مِنْ خِیْفَتِهٖ١ۚ وَ یُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیْبُ بِهَا مَنْ یَّشَآءُ وَ هُمْ یُجَادِلُوْنَ فِی اللّٰهِ١ۚ وَ هُوَ شَدِیْدُ الْمِحَالِؕ
وَيُسَبِّحُ : اور پاکیزگی بیان کرتی ہے الرَّعْدُ : گرج بِحَمْدِهٖ : اسکی تعریف کے ساتھ وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے مِنْ : سے خِيْفَتِهٖ : اس کے ڈر سے وَيُرْسِلُ : اور وہ بھیجتا ہے الصَّوَاعِقَ : گرجنے والی بجلیاں فَيُصِيْبُ : پھر گراتا ہے بِهَا : اسے مَنْ : جس يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَهُمْ : اور وہ يُجَادِلُوْنَ : جھگڑتے ہیں فِي اللّٰهِ : اللہ (کے بارے) میں وَهُوَ : اور وہ شَدِيْدُ : سخت الْمِحَالِ : پکڑ
اور بادلوں کی گرج اس کی ستائش کرتی ہے اور فرشتے بھی اس کی دہشت سے سرگرم ستائش رہتے ہیں وہ بجلیاں گراتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان کی زد میں لے آتا ہے لیکن یہ منکر ہیں کہ اس کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں حالانکہ وہ (اپنی قدرت میں) بڑا ہی سخت اور اٹل ہے
رعد اس کی حمد کے ترانے گا رہی ہی ‘ فرشتے اس کے جلال میں ہیں ‘ بجلی اس کے حکم کے تابع ہے 24 ؎ فرمایا دیکھو یہ بجلی کی کڑک جسے سن کر تم دہل جاتے ہو اور تمہارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں وہ کیا ہے اور کیوں ہے ؟ وہ سراسر حمد وثناء الٰہی کا ترانہ ہی تو ہے ۔ یہ اس کی کرشمہ سازیوں کا گیت ہی تو گا رہی ہے۔ وہ بزبان حال اپنے پیدا کرنے والے کو ہر عیب اور ہر ناتوانانی سے پاک ہی تو بیان کر رہی ہے وہ کہہ رہی ہے کہ میرا خالق ہر خوبی اور ہر کمال سے متصف ہے اور فرشتے بھی اس کی پاکیزگی اور حمد کے ثناء خواں ہیں سب اس مالک الملک اور رب ذوالجلال والاکرام سے لرزاں و ترساں ہیں کوئی بڑی سے بڑی قوت اور بڑے سے بڑا فرشتہ اس کے سامنے دم نہیں مار سکتا۔ رعد کیا ہے ؟ وہ ایک کڑک ہی تو ہے جو بادلوں کے آپس میں ٹکرانے سے پیدا ہوتی ہے۔ بجلی گرتی ہے تو کس کی حکم سے ؟ وہ اللہ ہی تو ہے جس کے نظام میں یہ سب کچھ اس کے قانون قدرت کے مطابق ہو رہا ہے۔ زیر نظر آیت میں جو کچھ بیان ہوا وہ گزشتہ بیان کی وضاحت ہے کہ اللہ نے جو کچھ کہا وہ خوبی اور اچھائی تو ہے علاوہ ازیں کچھ بھی نہیں لیکن کبھی اچھائی اور خوبی کی بات بھی تمہاری عاجز اور درماندہ نگاہوں کیلئے خوف و دہشت کی ہولناکی بن جاتی ہے۔ تم اپنی حالت اور اضافت کے لحاظ سے سمجھنے لگتے ہو کہ برائی ہے لیکن اس لئے نہیں کہ وہ فی فصہ برائی ہے بلکہ اس لئے کہ تمہاری حالت اور اضافت کے لحاظ سے برائی ہوگئی۔ ؎ کفر ہم نسبت بہ خالق حکمت ست چوں بہ ما نسبت کنی کفر آفت است اس حقیقت کی وضاحت کیلئے ایک مثال بیان کی جو ہر انسان کے علم و مشاہدہ میں ہمیشہ آتی رہتی ہے فرمایا بجلی کا چمکان مایوسیوں کیلئے پیام امید ہوتا ہے اگر نہ چمکے تو باران رحمت کے ظہور کا پیام بھی نہ ملے لیکن تمہارے لئے یہ معاملہ خوف وامید کا معاملہ بن گیا بارش کی امید سے خوش ہوتے ہو لیکن ساتھ ہی بجلی کی تیزی سے لرزاں و ترساں بھی ہو۔ پھر وہ بجلی جو زمین کیلئے زندگیوں کا پیام ہے جب کسی انسان پر گرتی ہے تو اس کیلیے موت کا پیام بن جاتی ہے اس طرح بادل کا گرجنا تمہارے لئے سرتا سر دہشت اور ہولناکی ہے حالانکہ وہ فی الحقیقت ہولناکی نہیں وہ اللہ کی وحدانیت کا ترانہ ہے وہ گرج گرج کر اس کی ستائشوں کا اعلان کرتا ہے ‘ اس کی تقدیس و تسبیح میں رطب اللسان ہے ‘ فرشتے اس کے گرجنے کے خوف سے نہیں ڈرتے اللہ کے خوف سے ترساں رہتے ہیں۔ پھر تم اپنی زندگی کا ایک ایک ورق الٹتے جائو دیکھو گے کہ تمہاری ساری مسرتیں اور تمہاری ساری خوشیاں اسی طرح کی تکالیف و مصائب میں گھری ہوئی ہیں ایک بچہ کی پیدائش سے لے کر اس کے جوان ہونے تک اور پھر اقتدار و ملازمت کی کرسی تک پہنچنے کیلئے جو کچھ ہوا اس میں کتنی کتنی پریشانیوں سے تم دوچار ہوئے لیکن کیا بغیر کسی امید کے ؟ اس لئے تو پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا تھا کہ ” ال ایمان بین الخوف والرجاء “ کتنا بڑا سچ ہے اور کتنی بڑی حقیقت ہے ؟ و ھم یجادلون فی اللہ “ یعنی اللہ کی قدرت و حکمت کی یہ نشانیاں ہمیشہ انسان کے علم و مشاہدہ میں آتی رہتی ہیں اور اس پر بھی اس کی غفلت کا یہ حال ہے کہ اللہ کی ہستی اور اس کی یگانگت کے بارے میں ہمیشہ جھگڑتا رہتا ہے گویا یہ حقیقتیں ثابت نہیں اور یہ نشانیاں کبھی ظہور میں ہی نہیں آئیں۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ ایسا خدا جس کے نظام کائنات کی کارفرمائیاں اتنی عجیب و عظیم ہوں اور جس کا اختیار و اقتدار اتنا ہمہ گیر و کامل ہو یہ نادان اس خدا کے مقابلہ میں دوسروں کو لاتے ہیں اور اس کی ذات وصفات میں اوروں کو شریک کرنا چاہتے ہیں۔
Top