Urwatul-Wusqaa - Ibrahim : 41
رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۠   ۧ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب اغْفِرْ لِيْ : مجھے بخشدے وَلِوَالِدَيَّ : اور میرے ماں باپ کو وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ : اور مومنوں کو يَوْمَ : جس دن يَقُوْمُ : قائم ہوگا الْحِسَابُ : حساب
اے اللہ ! جس دن اعمال کا حساب لیا جائے گا تو مجھے اور میرے ماں باپ کو اور ان سب کو جو ایمان لائے بخش دیجیو
ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے لئے ‘ اپنے والدین کے لئے اور سارے مومنوں کے لئے دعا فرمائی 44 ؎ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے لئے اور اپنے والدین کیلئے جو دعائے مغفرت فرمائی اس کا ذکر واضح الفاظ میں قرآن کریم میں موجود ہے اس لئے بعض مفسرین نے اس سے یہ اخذ کیا ہے اور پھر اس پر دلائل پیش کئے ہیں کہ آذر جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے اگرچہ ابراہیم (علیہ السلام) اس کو مخاطب کر کے ” یا ابنی “ کے الفاظ کہتے رہے جیسا کہ قرآن کریم میں موجود ہے تاہم مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ دراصل آذر آپ کے والد نہیں تھے بلکہ آذر آپ کا چچا تھا آپ کے والد کا نام ” تارح “ ہے اور وہ مسلمان ہوگیا تھا اور اس کا ثبوت یہ آیت ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ” ولوالدی “ گویا تارح آپ کے والد تھے جو مسلمان ہوچکے تھے اس وجہ سے آپ نے اپنے والدین کو دعائے مغفرت میں شریک کیا ہے اور بعض نے یہ کہا ہے کہ آپ ﷺ نے یہ دعا اس وقت کی جب کہ ابھی والد زندہ تھا اور ہجرت کے وقت چونکہ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ ” سا ستغفرلک ربی (مریم 19 : 47) مگر بعد میں جب آپ کو معلوم ہوگیا کہ وہ تو بدستور شرک پر قائم رہا اور شرک ہی پر اس کی موت ہوگئی تو آپ نے صاف بیزاری کا اعلان کردیا اور اس کے بعد دعائے مغفرت نہیں فرمائی اس کی تفصیل ہم سورة التوبہ کی آیت 114 میں کرچکے ہیں وہاں سے ملاحظہ فرما لیں۔ بہرحال ہجرت کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) بدستور اپنے والد کیلئے دعائے مغفرت کرتے رہے جس کا مدعا ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت عطا فرما دے جیسا کہ سورة الشعراء میں بھی آپ ﷺ کی دعا کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ ” واغفرلی یابی انہ کان من الضالین (الشعراء 26 : 86) ” اور میرے باپ کو معاف کر دے کہ بلاشبہ وہ گمراہ لوگوں میں سے ہے۔ “ آج کل بعض علماء یہ بیان کرتے ہیں کہ ” رب اجعلنی “ الخ والی دعا ان لوگوں کو نہیں پڑھنی چاہئے جن کے والدین ‘ بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں اور وہ اس عقیدہ پر وفات پا جائیں تو ان کی نماز جنازہ میں شریک اور دعا کی ممانعت ہے اس لئے یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ کسی مکتب فکر کا نام لے کر اس کے ساتھ وابستگی پر اتنا سخت فتویٰ مناسب نہیں جو لوگ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کلمہ ادا کرتے ہیں اگر وہ ناسمجھی اور جہالت کے باعث کوئی کام ایسا کرتے بھی ہیں جو شرک کے ساتھ ملتا ہے یا بظاہر ایسا نظر آتا ہے تو ان کو معذور خیال کرنا ہی مناسب ہے جب تک وہ زندہ ہوں اولاد کا حق ہے کہ اگر وہ صحیح العقیدہ ہے تو ان کے ساتھ شفقت و ہمدردی سے کوشش کرے اور کرتی ہی رہے کہ ان کا عقیدہ صحیح اور درست ہوجائے لیکن اگر وہ بضد ہوں تو ان کے کلمہ کا اعتماد کرتے ہوئے ان کو بدستور نہلائے ‘ دھلائے اور تجہیز و تکفین میں برابر حصہ لے اور دعائے مغفرت کرے اور علم الٰہی کا معاملہ علم الٰہی ہی تک رہنے دے اور اپنی نماز میں بغیر کسی روک ٹوک کے اس دعا کو مانگے اور دعا کے اندر لفظ ” وللمومنین “ کے الفاظ آتے ہیں اور وہ اب بھی ان کو ادا کر رہا ہے لہٰذا اگر اس کے والدین مومنین میں شامل ہیں تو دعا ان کیلئے ہوگی ۔ حیران و سراسیمہ نظریں اٹھائے ہوئے دوڑ رہے ہوں گے نگاہیں ہیں کہ لوٹ کر تو دعا ان کیلئے ہوگی اور اگر خدانخواستہ وہ ” للمومنین “ میں شامل نہیں تو معاف کرنا نہ کرنا اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہے وہ چاہے گا تو معاف فرمائے گا اور چاہے گا تو نہیں لیکن وہ دوسرے مومنوں کو محروم کیوں کریں ؟ یہ آیت رسول اللہ ﷺ نے خود پڑھی اور دوسرے سارے مومن پڑھتے رہے ان میں وہ لوگ بھی تھے جن کے والدین واقعی مشرک تھے یا والدین میں سے ایک مشرک تھا اور ان کے شرک میں کوئی شک نہیں تھا تاہم میں نے کسی حدیث میں یہ نہیں پڑھا کہ آپ نے اس دعا کو قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت نہ پڑھنے کا ارشاد فرمایا یا نماز ادا کرتے وقت اس آیت کی تلاوت ان لوگوں کو منع فرمایا ہو یا کبھی نماز میں ان لوگوں کو پڑھنے سے منع فرمایا ہو جب ایسی کوئی بات شارع (علیہ السلام) سے نہیں ملتی تو کسی کو کیا حق ہے کہ وہ اس سے منع کرے پھر اس گرو ہی اسلام کا تصور تو ویسے اسلام میں موجود نہیں ہے جس سے سارے گروہوں کا حکم ایک ہی جیسا ہے اگر کوئی عرف عام میں مشرک نہیں تو گروہوں میں تقسیم کرنا یا تقسیم ہونا تو بذاتہ شرک ہے جس کے شرک ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس گروہی شرک سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسلام کے ساتھ وابستگی کی سچی توفیق نصیب کرے۔
Top