Urwatul-Wusqaa - Ibrahim : 42
وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ١ؕ۬ اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ
وَلَا : اور نہ تَحْسَبَنَّ : تم ہرگز گمان کرنا اللّٰهَ : اللہ غَافِلًا : بیخبر عَمَّا : اس سے جو يَعْمَلُ : وہ کرتے ہیں الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِنَّمَا : صرف يُؤَخِّرُهُمْ : انہیں مہلت دیتا ہے لِيَوْمٍ : اس دن تک تَشْخَصُ : کھلی رہ جائیں گی فِيْهِ : اس میں الْاَبْصَارُ : آنکھیں
اور اے پیغمبر اسلام ! ایسا خیال نہ کرنا کہ اللہ ان ظالموں کے کاموں سے غافل ہے دراصل اللہ نے ان کا معاملہ اس دن تک کے لیے پیچھے ڈال دیا ہے جب آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی
اے پیغمبر اسلام ! اللہ ظالموں کے کام سے غافل نہیں حساب کے روز ان کو معلوم ہوجائے گا 45 ؎ اب خطاب پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف ہے اور آپ ﷺ کی قوم کو مخاطب کیا جا رہا ہے اور گزشتہ دعوتوں کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے فرمایا اس سے بڑھ کرنا شکری اور کیا ہو سکتی ہے جو قریش مکہ نے کی ہے ؟ وہ دنیا کے ایک ایسے گوشہ میں سکونت رکھتے ہیں جو انسانی آبادی کیلئے زیادہ سے زیادہ ناموزوں مقام تھا کہ ایک بےآب وگیاہ ریگستان جہاں درندے بھی بھٹ نہ بنائیں اور پرند بھی ہوا میں اڑنا پسند نہ کریں لیکن اللہ نے اپنے فضل و کرم سے اسے ایسا دلچسپ اور معمور مقام بنا دیا کہ انسانی گروہوں کے دل بےاختیار اس کی طرف کھینچنے لگے اور زمین کی ساری پیداواریں جو کسی سرسبز و شاداب ملک میں ملک سکتی ہیں اس بنجر زمین میں مہیا ہوگئیں۔ یہ انقلاب حال کیونکر ظہور میں آیا ؟ اس طرح کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہاں دین حق کی عبادت گاہ بنائی اور اس کی پاسبانی اپنی اولاد کے سپرد کی ‘ انہوں نے دعا مانگی تھی کہ خدایا ! اس ویرانے کو آباد کردیجئے چناچہ ان کی دعا قبول ہوئی اور یہ ویرانہ اس طرح آباد ہوگیا کہ تمام عرب وا طراف عرب کے سالانہ اجتماع کا مرکز بن گیا۔ رئوسا قریش انہی کی نسل سے ہیں اور انہی کی برکتوں کا ظہور ہیں لیکن انہوں نے اس نعمت کا حق کس طرح ادا کیا ؟ یوں ادا کیا کہ ملت ابراہیمی سے منحرف ہوگئے ظلم و گمراہی کو اپنا شیوہ بنا لیا ‘ وہ دین حق جس کے قیام کیلئے یہ عبادت گاہ بنائی گئی تھی اصنام پرستی سے بدل گیا اور اب اپنی تمام طاقتیں اس دعوت کی مخالفت میں خرچ کر رہے ہیں جو اس ملت ابراہیمی کی تجدید ہے۔ زیر نظر آیت میں رسول اللہ ﷺ اور ہر مظلوم کی تسلی اور ظالم کیلئے سخت عذاب کی دھمکی ہے کہ ظالم اور مجرم لوگ اللہ تعالیٰ کی ڈھیل دینے سے بےفکر نہ ہوجائیں اور یہ نہ سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے جرائم کی خبر نہیں ‘ اس لئے باوجود جرائم کے وہ پھل پھول رہے ہیں۔ کوئی عذاب و مصیبت ان پر نہیں آتی بلکہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں سب اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہے مگر وہ اپنی رحمت اور حکمت کے تقاضے سے ڈھیل دے رہا ہے۔ ” ایسا خیال نہ کرنا کہ اللہ ان ظالموں کے کاموں سے غافل ہے “۔ یہ خطاب بظاہر ہر اس شخص کیلئے ہے جس کو اس کی غفلت اور شیطان نے اس دھوکہ میں ڈالا ہوا ہے اور اگر اس کا مخاطب رسول اللہ ﷺ ہوں تو بھی مقصود اس سے امت کے غافلوں کو سنانا اور تنبیہہ کرنا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے اس کا امکان ہی نہیں کہ وہ معاذ اللہ ‘ اللہ تعالیٰ کو حالات سے بیخبر یا غافل سمجھیں۔
Top