Urwatul-Wusqaa - Ibrahim : 52
هٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنْذَرُوْا بِهٖ وَ لِیَعْلَمُوْۤا اَنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّ لِیَذَّكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠   ۧ
هٰذَا بَلٰغٌ : یہ پہنچادینا (پیغام) لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَ : اور لِيُنْذَرُوْا : تاکہ وہ ڈرائے جائیں بِهٖ : اس سے وَلِيَعْلَمُوْٓا : اور تاکہ وہ جان لیں اَنَّمَا : اس کے سوا نہیں هُوَ : وہ اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : یکتا وَّلِيَذَّكَّرَ : اور تاکہ نصیحت پکڑیں اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
یہ انسانوں کے لیے ایک پیام ہے اور لوگوں کو خبردار کیا جائے اور وہ معلوم کرلیں کہ ان کا معبود ایک ہی معبود ہے نیز اس لیے کہ سمجھ بوجھ والے اس سے نصیحت پکڑیں
یہ لوگوں کیلئے پیام ہے تاکہ وہ ڈرائے جائیں اور جان لیں کہ اللہ ایک ہے 56 ؎ زیر نظر آیت میں بیان کردیا کہ یہ سب احوال قیامت کا بیان کرنا لوگوں کو تنبیہ کرنے کیلئے ہے تاکہ وہ اب بھی سمجھ لیں کہ قابل عبادت وطاعت صرف اور صرف ایک ہی ذات ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ہے تاکہ جن لوگوں میں کچھ بھی عقل و دانش ہے وہ شرک سے باز آجائیں۔ امام فخر الدین رازی (رح) تفسیر کبیر میں رقم طراز ہیں کہ انسان میں دو قوتیں ہیں۔ قوت نظری اور قوت عملی اور انہی کی تکمیل میں انسان کی ترقی اور کمال کا راز پنہاں ہے اور پھر ظاہر ہے کہ قوت نظری کا کام حقائق و موجودات کو جاننا ہے اور اس کا کمال یہ ہے کہ سب سے اعلیٰ وارفع حقیقت یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید کا عرفان اسے حاصل ہوجائے اور قوت عملی کا کام یہ ہے کہ انسان اخلاق فاضلہ سے متصف ہوجائے اور تمام اخلاق فاضلہ سے افضل اور احسن خلق یہ ہے کہ انسان اپنے خداوند ذوالجلال کی اطاعت کو اپنا شعار بنا لے اور یہ دونوں کمال قرآن کریم میں غور و فکر کرنے سے حاصل ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص ہدایت طلبی کے جذبہ سے سرشار ہو کر قرآن کریم کے دلائل وبراہین کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ بےساختہ یہ کہہ اٹھتا ہے لا الہ الا اللہ وہد لا شریک لہ ‘ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر اور پھر جب یقین کا یہ چراغ روشن ہوجاتا ہے تو عمل کی شاہراہ جگمگانے لگتی ہے اور وہ مستانہ وار یہ کہتا ہوا اس پر گامزن ہوجاتا ہے کہ اسلمت لرب العلمین میں نے اپنا سر اطاعت وانقیاد رب العالمین کے ہر حکم کے سامنے جھکا دیا ہے اور پھر وہ یقینا شرک کے قریب بھی نہیں بھٹکے گا خواہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں۔ یہی وہ حقیقت ہے کہ جب کسی کی سمجھ میں آجائے تو وہ اولوالالباب میں داخل ہوجاتا ہے اور اس مضمون پر سورة ابراہیم ختم ہو رہی ہے۔ الحمد للہ اس سورت کی تفسیر 19 اپریل 1996 ء بعد از نماز عصر ختم ہوئی۔
Top