Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 40
اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ
اِلَّا : سوائے عِبَادَكَ : تیرے بندے مِنْهُمُ : ان میں سے الْمُخْلَصِيْنَ : مخلص (جمع)
ہاں ! ان میں جو تیرے مخلص بندے ہوں گے میرے بہکاوے میں آنے والے نہیں
ہاں ! ان میں جو مخلص بندے ہوں گے وہ میرے بہکانے میں نہیں آئیں گے : 40۔ آیت کا یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ شیطان نیک بندوں کو پھانسنے کی کوشش ہی نہ کرے گا ‘ نہیں ! جال تو وہ سب پر پھینکے گا بلکہ نیک بندوں پر زیادہ کوشش بھی کرے گا البتہ اللہ کے نیک بندوں پر اس کی کوئی چال بھی کامیاب نہیں ہوگی اور ہر حال میں اس کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا اس لئے وہ خود ہی اعتراف کررہا ہے کہ اے اللہ ! تیرے نیک بندوں پر میری کوئی چال بھی کام نہیں کرے گی ، لہذا اس کو اس حق بات کے اعتراف میں ذرا جھجھک محسوس نہیں ہوتی اس لئے ہم اکثر یہ بات کہتے ہیں کہ شیطان کو جھوٹ چلانے کیلئے کچھ نہ کچھ سچ بھی بولنا پڑتا ہے اور وہ بولتا ہے دیکھ وہ کہہ رہا ہے کہ اے اللہ ! وہ بندے جن کو تو نے اپنی عبادت وطاعت کیلئے چن لیا ہے اور شکوک و شبہات کی آلودگیوں سے پاک وصاف ہوچکے ہیں ان پر میرا بس نہیں چلتا ، یہ وہ پاک لوگ ہیں جن کے عزم و استقامت کے سامنے شیطان جیسا خرانٹ بھی ہار ماننے پر مجبور ہے ۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ” ان ابلیس قال یا رب وعزتک وجلالک لا ازال اغوی بنی ادم مادامت ارواحھم فی اجسامھم وقال الرب وعزتی وجلالی لا ازال اغفرلھم ما استغفرونی “ یعنی شیطان نے کہا کہ اے میرے رب ! مجھے تیری عزت و جلال کی قسم جب تک انکی روحیں ان کے جسم میں رہیں گی میں ان کو گمراہ کرتا رہوں گا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مجھے بھی اپنی عزت و جلال کی قسم جب تک وہ مجھ سے مغفرت طلب کرتے رہیں گے میں ان کو معاف کرتا رہوں گا ، اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے کہ انسان جہاں تک ہو سکے گناہ کے کام سے بچتا رہے لیکن اگر اس سے کوئی گناہ ہو ہی جائے تو اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ وہ اس کی معافی طلب کرلے کیونکہ معافی طلب کرنے والوں کو معاف کردیا جاتا ہے ۔
Top