Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 94
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ
فَاصْدَعْ : پس صاف صاف کہہ دیں آپ بِمَا : جس کا تُؤْمَرُ : تمہیں حکم دیا گیا وَاَعْرِضْ : اور اعراض کریں عَنِ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
(اے پیغمبر اسلام ! ﷺ پس جو کچھ تم کو حکم دیا گیا ہے لوگوں پر آشکارا کرو اور مشرکوں کی کچھ پروا نہ کرو
تو لوگوں تک حق پہنچا دو اور مشرکوں کی کچھ پروا نہ کرو : 94۔ مشرکوں سے اعراض کے معنی یہ ہیں کہ ان کی مخالفت ‘ عداوت اور منصوبوں کی کچھ پروا نہ کرو اور کھول کھول کر بیان کرتے چلے جاؤ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا یہ سورت مکہ کے آخری زمانہ کی ہے اور نبی کریم ﷺ تو اس سے پہلے بھی کھول کر ہی بیان فرماتے تھے مگر اس وقت آپ ﷺ کو مٹانے کے لئے کفار میں مشورے ہو رہے تھے اور وہ طرح طرح کے منصوبے بنا رہے تھے اس لئے فرمایا کہ اے پیغمبر ! تم ان کے منصوبوں کی پروا نہ کرو اور یہ وقت ہے کہ آپ قرآن کریم کو کھول کھول کر بیان کرو اور اس قدر بیان کرو کہ تمہارا سر پھٹنے لگ جائے یعنی پوری تن دہی کے ساتھ بیان کرتے رہو اور جس طرح سخت چیز کو شق کرنے کیلئے بار بار ضرب لگانی پڑتی ہے اس طرح ان سخت دلوں پر جو دنیا کی آلائشوں میں ملوث ہیں صداقت الہی کو بار بار پیش کرو تاکہ انکو کوئی عذر نہ پیش رہ جائے جس کا مطلب صاف ہے کہ تبلیغ دین کیلئے ضروری ہے کہ پیغام الہی پہنچانے میں خوب کوشش کی جائے اور کسی طرح کی لچک نہ ڈالی جائے لیکن انداز بیان نرم اور پیارا ہونا ضروری ہے ۔ صدع سخت اجسام میں شق کرنے کو کہتے ہیں اور صدع الامر کے معنی ہیں کھول دیا اور صداع سخت درد سر کو کہتے ہیں گویا سردرد سے پھٹ رہا ہو جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ لا یصدعون عنھا (الواقعہ 56 : 19) اور تصدع القوم کے معنی ہیں تفرقوا پراگندہ ہوگئے جیسا کہ ارشاد الہی ہے کہ (آیت) ” یومئذ یصدعون “۔ (الروم 30 : 43) کہ اس دن لوگ پھٹ کر الگ ہوجائیں گے ۔
Top