Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 98
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَۙ
فَسَبِّحْ : تو تسبیح کریں بِحَمْدِ : حمد کے ساتھ رَبِّكَ : اپنا رب وَكُنْ : اور ہو مِّنَ : سے السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے
سو چاہیے کہ اپنے پروردگار کی ستائش کرو ، اس کے حضور سجدے میں گرے رہو
98۔ حمد سے مراد اللہ تعالیٰ کی تعریف وثناء کرنا بھی ہے اور اس کا شکر ادا کرنا بھی اور تسبیح سے مراد اللہ تعالیٰ کو ہر لحاظ سے پاک اور منزہ قرار دینا ہے اس موقع پر یہ ارشاد ہے کہ اپنے رب کا یہ کرشمہ جب تم دیکھو کہ لوگ آپ ﷺ کی دعوت کو استہزاء کے ساتھ ٹال رہے ہیں تو آپ کو دل تنگ ہونے کی بجائے اس ذات کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو کہ تمہارے دل میں اس سے ذرا گھٹن نہیں پیدا ہوئی اور تم نے اپنا کام سرانجام دیا تو اس کی رضا تمہارا مطلوب ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اور قلب و زبان سے اس امر کا اعتراف کرو کہ آپ نے یہ سب کچھ برداشت کیا تو اللہ کی رجا کیلئے اور تم اپنے رب سے دعا مانگو کہ جو خدمت اس نے تمہارے سپرد کی تھی اس کو انجام دینے میں تم سے جو بھول چوک یا کوتاہی بھی ہوئی ہو اس سے چشم پوشی اور درگزر فرماتے ، یہ وہ ادب ہے جو اسلام میں بندے کو سکھایا گیا ہے کسی انسان سے اللہ کے دین کی خواہ کیسی ہی بڑے سے بڑی خدمت انجام پائی ہو ‘ اس کی راہ میں خواہ کتنی ہی قربانیاں اس نے دی ہوں اور اس کی عبادت و بندگی بجا لانے میں خواہ کتنی ہی جانفشانیاں اس نے کی ہوں اس کے دل میں کبھی یہ خیال تک نہ آنا چاہئے کہ میرے اوپر میرے رب کا جو حق تھا میں نے پورے کا پورا ادا کردیا ہے بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھنا چاہئے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہئے تھا وہ میں نہیں کرسکا اور اسے اللہ سے یہی دعا ماننا چاہئے کہ اس کا حق ادا کرنے میں جو کوتاہی بھی مجھ سے ہوئی ہو اس سے درگزر فرما کر میری حقیر سی خدمت قبول فرما لے ، یہ ادب جب رسول اکرم ﷺ کو سکھایا گیا جن سے بڑھ کر اللہ کی راہ میں سعی وجہد کرنے والے کسی انسان کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تو دوسرے کسی کا یہ مقام کہاں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے عمل کو کوئی بڑا عمل سمجھے اور اس غرے میں مبتلا ہو کہ اللہ کا جو حق اس پر تھا وہ اس نے ادا کردیا ، اللہ کا حق اس سے بہت بالا و برتر ہے کہ کوئی مخلوق اسے ادا کرسکے ، اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے یہ سبق دیتا ہے کہ اپنی کسی عبادت و ریاضت اور کسی خدمت دین کو بڑی چیز نہ سمجھیں بلکہ اپنی جان تک راہ خدا میں کھپا دینے کے بعد یہی سمجھتے رہیں کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ۔ “ اسی طرح جب انہیں کوئی فتح نصیب ہو جیسا کہ ابھی وقت آنے والا ہے تو یاد رکھیں کہ اسے اپنے کسی کمال کا نہیں بلکہ اللہ کا فضل سمجھیں اور اس میں فخر و غرور میں مبتلا ہونے کی بجائے اپنے رب کے سامنے عاجزی کے ساتھ سر جھکا کر حمد وتسبیح اور توبہ استغفار کریں کیونکہ یہی ساری کامیابیوں کی کلید ہے اور سارے دکھوں اور دردوں کا مداوا ہے اور اس سے طبیعت میں انشراح پیدا ہوتا ہے اور غم اور ضیق صدر کا علاج بھی بتایا گیا ہے اور یہ ذکر توجہ الی الحق ہے اور سجدوں کی زیادتی کے باعث اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے جو دین و دنیا دونوں کے لئے واحد علاج ہے ۔
Top