Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 21
اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ١ۚ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ١ۙ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ۠   ۧ
اَمْوَاتٌ : مردے غَيْرُ : نہیں اَحْيَآءٍ : زندہ وَمَا يَشْعُرُوْنَ : اور وہ نہیں جانتے اَيَّانَ : کب يُبْعَثُوْنَ : وہ اٹھائے جائیں گے
وہ مردے ہیں نہ کہ زندگی رکھنے والے انہیں اس کی خبر نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے
وہ مردے ہیں نہ کہ زندگی رکھنے والے ‘ وہ نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائیں گے : 26۔ کیا ایسے بےخروں اور ناقص علم والوں کو معبود تسلیم کرلینا جہل وسفاہت کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے ؟ اور یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں خاص طور پر جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی جارہی ہے وہ فرشتے جن شیاطین یا لکڑی ‘ پتھر کی مورتیاں نہیں ہیں بلکہ اصحاب قبور ہیں اس لئے کہ فرشتے اور شیاطین تو زندہ ہیں ان پر (آیت) ” اموات غیر احیآء “۔ کے الفاظ کا اطلاق نہیں ہو سکتا اور لکڑی پتھر کی مورتیوں کے معاملہ میں (آیت) ” بعث بعد الموت “۔ کا کوئی سوال ہی نہیں ہے اس لئے (آیت) ” مایشعرون ایان یبعثون “۔ کے الفاظ انہیں بھی خارج از بحث کردیتے ہیں اب لامحالہ اس آیت میں (آیت) ” الذین یدعون من دون اللہ “۔ سے مراد وہ انبیاء ‘ اولیاء ‘ صالحین ، اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں جن کو غالی معتقدین داتا ‘ مشکل کشا ‘ فریاد رس ‘ غریب نواز ‘ گنج بخش ‘ اور نہ معلوم کیا کیا قرار دے کر اپنی حاجت روائی کے لئے پکارنا شروع کردیتے ہیں ، اس کے جواب میں اگر کوئی شخص یہ کہے کہ عرب میں اس طرح کے معبود نہیں پائے جاتے تھے تو ہم عرض کریں گے کہ یہ جاہلیت عرب کی تاریخ سے ناواقفیت کا ثبوت ہے کون پڑھا لکھا نہیں جانتا کہ عرب کے متعدد قبائل ربیعہ ‘ کلب ‘ تغلب ‘ قضاعہ ‘ کنانہ ‘ حرث ‘ کعب اور کندہ وغیرہ میں کثرت سے عیسائی اور یہودی پائے جاتے تھے ‘ اور یہ دونوں مذاہب بری طرح انبیاء ‘ اولیاء اور شہدا کی پرستش سے آلودہ تھے ۔ پھر مشرکین عرب کے اکثر نہیں تو بہت معبود وہ گزرے ہوئے انسان ہی تھے جنہیں بعد کی نسلوں نے خدا بنا لیا تھا بخاری میں ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ ود ‘ سواع ‘ یغوث یعوق اور نسریہ سب صالحین کے نام ہیں جنہیں بعد کے لوگ بت بنا بیٹھے ، حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ اساف اور نائلہ دونوں انسان تھے ، اسی طرح کی روایات لات اور منات اور عزی کے بارے میں بھی موجود ہیں اور مشرکین کا یہ عقیدہ بھی روایات میں آیا ہے کہ لات اور عزی اللہ کے ایسے پیارے تھے کہ اللہ میاں جاڑا ” لات “ کے ہاں اور گرمی ” عزی “ کے ہاں بسر کرتا تھا ۔ (آیت) ” سبحنہ وتعالیی عما عصفون “۔
Top