Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 28
الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ ظَالِمِیْۤ اَنْفُسِهِمْ١۪ فَاَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْٓءٍ١ؕ بَلٰۤى اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
الَّذِيْنَ : وہ جو کہ تَتَوَفّٰىهُمُ : ان کی جان نکالتے ہیں الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے ظَالِمِيْٓ : ظلم کرتے ہوئے اَنْفُسِهِمْ : اپنے اوپر فَاَلْقَوُا : پس ڈالیں گے السَّلَمَ : پیغام اطاعت مَا كُنَّا نَعْمَلُ : ہم نہ کرتے تھے مِنْ سُوْٓءٍ : کوئی برائی بَلٰٓى : ہاں ہاں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
ان کافروں کے لیے کہ فرشتوں نے جب ان کی روحیں قبض کی تھیں تو اپنی جانوں پر خود اپنے ہاتھوں ظلم کر رہے تھے ، تب وہ اطاعت کا اظہار کریں گے ہم نے تو کوئی برائی کی بات نہیں کی تھی ، ہاں تم جو کچھ کرتے رہے ہو اللہ اس سے اچھی طرح واقف ہے
A ۔ فرشتوں کا کفار سے خطاب جب وہ ان کی روحیں قبض کریں گے : 34۔ فرمایا جن لوگوں کی جانیں فرشتوں نے اس حال میں قبض کی تھیں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے یعنی موت کے وقت تک کفر وشرک میں مبتلا رہے تھے تب وہ صلح کا پیغام ڈالیں گے کہ ہم تو کوئی برائی نہیں کرتے رہے اس پر ہیبت ناک وہولناک منظر سے دو چار ہو کر منکرین حق اب خوشامندانہ لہجہ میں عرض کرنا شروع کریں گے ، کہ بھلا ہماری کیا مجال تھی جو ہم شرک میں مبتلا ہوتے ! کہاں تو دنیا میں اتنا اکڑے ہوئے رہتے تھے اور کہاں اب وہ خوشامد پر اتر آئیں گے کہ (آیت) ” ماکنا نعمل من سوء “۔ یعنی اپنے خیال اور عقیدہ میں تو ہم کوئی بری بات نہیں کر رہے تھے ‘ بلاشبہ اللہ خوب جانتا ہے اس کو جو تم کرتے رہے تھے تو اب تمہارے اقرار و انکار سے ہوتا کیا ہے ؟ تمہارا حال تو عالم الغیب پر خود ہی سب کا سب روشن ہے ۔ غور کرو کہ ان لوگوں کے لئے جو اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی پکڑ میں آگئے تم انکے مرنے کے بعدتیسرے ‘ چوتھے ساتویں ‘ دسویں اور چالیسویں کر رہے ہو اور مرنے والوں کے لواحقین کو کس دھوکہ میں تم نے مبتلا کر رکھا ہے تمہارے اس فراڈ سے وہ فرشتوں کے نرغے سے چھوٹ جائیں گے ؟ یہ تو اللہ کی کتاب کا بیان ہے تمہارے یہاں اس کی دلیل کیا ہے ؟ اللہ نے اور اس نے رسول ﷺ نے کہاں سے تم کو یہ بات سمجھا دی کہ ہماری پکڑ سے بچانے کے لئے تم تیسرا ‘ چوتھا ‘ ساتواں ‘ دسواں اور چالیسواں کرو تو ان پکڑے جانے والوں کو آزاد کردیں گے ، تم نے صرف اپنے پیٹ کی خاطر یہ ظلم کیسے روا رکھا ؟ کیا تم کو مرنا نہیں ہے ‘ پھر تم اللہ کے سامنے کیا بیان دو گے اور اس کی پکڑ سے کیونکر بچو گے ؟ یاد رہے کہ برائی اور معصیت کرنے کو ہر جگہ قرآن کریم نے (آیت) ” ظلموا انفسھم “۔ اور (آیت) ” اسرافوا علی انفسھم “۔ سے تعبیر کیا ہے ، یعنی انہوں نے اپنی جانوں کے ساتھ ناانصافی کی اور اپنی جانوں پر زیادتی کی یہاں بھی زیر نظر آیت میں ایسی ہی تعبیر ہے اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کے نزدیک کفر و بدعملی کی حقیقت اس سے سوا کچھ نہیں ہے کہ یہ خود اپنے ہاتھوں اپنی جانوں کو نقصان ہلاکت میں ڈالنا ہے ، اس بات کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کی آدمی کو ہم سینکھیا کھاتے دیکھتے ہیں تو بےاختیار کہہ اٹھتے ہیں کہ کیوں اپنی جان کے پیچھے پڑے ہو ؟ اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاک کر رہے ہو ؟ قرآن کریم کے نزدیک کفر ومعصیت بھی ایسی ہی چیز ہے ، یہ دودھ پینے جگہ سنکھیا کھانا ہے اور جو کھاتا ہے وہ خود ہی اپنی جان کے ساتھ ناانصافی کرتا ہے اور خود ہی اپنے اوپر زیادہ کرنے والا ہوتا ہے ۔
Top