Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 98
اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ الشَّمَآئِلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَ هُمْ دٰخِرُوْنَ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : انہوں نے نہیں دیکھا اِلٰى : طرف مَا خَلَقَ : جو پیدا کیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ شَيْءٍ : جو چیز يَّتَفَيَّؤُا : ڈھلتے ہیں ظِلٰلُهٗ : اس کے سائے عَنِ : سے الْيَمِيْنِ : دائیں وَالشَّمَآئِلِ : اور بائیں سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے لِّلّٰهِ : اللہ کے لیے وَهُمْ : اور وہ دٰخِرُوْنَ : عاجزی کرنے والے
کیا ان لوگوں نے اللہ کی مخلوقات میں سے کسی چیز پر بھی غور نہیں کیا ہے کہ ہرچیز کا سایہ دائیں اور بائیں سے ڈھلتا رہتا ہے اور اللہ کے آگے سجدہ کرتے ہوئے ڈھلتا ہے ؟ اور یہ کہ سب اس کے آگے عاجز و درماندہ ہیں
سایہ کے گھنٹے بڑھنے اور دائیں بائیں آنے جانے سے الوہیت پر دلیل : 55۔ فرمایا قوانین الہی کی عجائب آفرینیوں میں سے ایک عجیب و غریب منظر (ظل) یعنی اجسام کے سایے کا ہے نظام شمس کے تمام کرشمے ہم اس چیز میں دیکھ سکتے ہیں ، یہ ہمارے جسم کے ساتھ ساتھ رہتا ہے اور ساتھ ساتھ چلتا ہے لیکن لاکھوں میل فاصلہ کی خبر دیتا ہے ، سورج کا طلوع ‘ عروج زوال ‘ غروب کی ساری حالتیں ہم اس آئینہ میں دیکھ سکتے ہیں ، یہ کبھی گھٹتا ہے کبھی بڑھتا ہے ‘ کبھی ابھرتا ہے اور کبھی غائب ہوجاتا ہے ، کبھی کھڑا ہوتا ہے کبھی جھکتا ہے ‘ کبھی داہنے ہوتا ہے کبھی بائیں ، اس کی ان تمام حالتوں کا قانون اس درجہ قطعی ‘ اس درجہ یکساں اس درجہ منظم ہے کہ اس میں فتور پڑنے کا ہمیں وہم و گمان بھی نہیں ہو سکتا ، جس وقت گھڑیاں ایجاد نہیں ہوئیں تھیں ، یہی سایہ گھڑی کا کام دیتا تھا اور اسی سے دھوپ گھڑی بنی تھی ، آج کل بھی میدانوں اور دیہاتوں میں جہاں گھڑیاں نہیں ہوتیں ، دہقان سایہ دیکھ معلوم کرلیتا ہے کہ کتنا دن چڑھ چکا ہے ، کتنا ڈھل چکا ہے ، سایہ جب مساوی ہوجائے تو دوپہر کا وقت ہے ، اور جب گھٹنے بڑھنے لگے تو اس کی ہر مقدار گھڑی کی سوئی ہے ، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم قوانین الہی کے احاطہ ونفاذ کا ذکر کرتے ہوئے سایہ کی طرف توجہ دلاتا ہے اور کہتا ہے یہ تم سے دور نہیں ۔ ہر وقت تمہارے جسم کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے ہمیشہ اس پر تمہاری نگائیں رہتی ہیں کیونکہ اس سے وقت کا اندازہ لگایا کرتے ہو پس غور کرو کہ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ کس طرح یہ شہادت دے رہا ہے کہ یہاں کی ہرچیز کسی مدبر و حکیم ہستی کے احکام کے آگے سربسجود ہے اور اس نے جس چیز کے لئے جو حکم نافذ کردیا ہے ممکن نہیں کہ اس کی تعمیل میں بال برابر بھی انحراف ہو ! اس جگہ بھی زیر نظر آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے چناچہ اس کے بعد ہی فرمایا جا رہا ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کے لئے سجدہ ریز ہے ۔ ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجز و درماندہ ہے : 56۔ قرآن کریم بار بار غور وفکر کرنے کی دعوت دیتا ہے اور ” مذہبی رہنما “ بار بار یہ تلقین کرتے ہیں کہ مذہب کے معاملہ میں عقل کو کوئی دخل نہیں اور پھر قرآن کریم کی دعوت جتنا عقل وفکر سے کام لینے کی دعوت دیتی ہے اسی قدر مذہب کے ٹھیکہ دار اس کی نفی کرتے چلے جاتے ہیں ۔ فرمایا جس طرح تمہارے سایے دائیں بائیں آنے جانے اور گھٹنے اور بڑھنے پر مجبور ہیں بالکل اسی طرح دنیا کی ہر ایک چیز اللہ کی فرمانبرداری کرنے پر مجبور محض ہے اور صاحب اختیار اگر ہے تو کسی حد تک صرف انسان ہے اور اس اختیار کے باعث وہ اشرف المخلوقات قرار پایا ہے باقی ساری چیزیں قانون الہی کے سامنے اسی طرح محکوم ہیں جس طرح ان سایوں کا گھٹنا اور بڑھنا ہے اور اسی گھٹنے اور بڑھنے کو اس جگہ سجدہ ہے موسوم کیا گیا ہے کیونکہ سجدہ کے اصل معنی فرمانبرداری ہی کے ہیں گویا اس کائنات کی ہرچیز اور ہر مخلوق کو اپنے خالق اور فاعل حکیم کے روبرو پیش کیا جانا ہے اور سایہ دار چیزیں سب اسی کے مطیع وفرمانبردار ہیں ، کچھ ہمارے بھائی کھلے طور پر تو پیغمبر اسلام ﷺ کے مخلوق ہونے سے انکار نہ کرسکے کہ شاید انکو اس میں کوئی گنجائش نظر نہ آئی تو انہوں نے محمد رسول اللہ صیہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سایہ سے انکار کردیا اور اس طرح وہ بزعم خویش چپکے سے آپ کو مخلوق ہونے نکالنے پر کامیاب قرار پائے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی کہ یہ لوگ آپ ﷺ کے سایہ سے کیوں انکاری ہیں ؟
Top