Tafseer-e-Baghwi - An-Naml : 50
وَ اللّٰهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ۠   ۧ
وَاللّٰهُ : اور اللہ اَنْزَلَ : اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی فَاَحْيَا : پھر زندہ کیا بِهِ : اس سے الْاَرْضَ : زمین بَعْدَ : بعد مَوْتِهَا : اس کی موت اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيَةً : نشانی لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّسْمَعُوْنَ : وہ سنتے ہیں
اور اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کی آبپاشی سے زمین کو جو مردہ ہوچکی تھی زندہ کردیا ، بلاشبہ اس صورتحال میں ان لوگوں کے لیے ایک نشانی ہے جو سنتے ہیں
اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کی بارش سے دلوں کی مردہ زمین کو زندہ کردیا : 75۔ گزشتہ آیت میں کتاب کا نزول ہدایت ورحمت ہے اور اس جگہ اس کی وضاحت فرما دی کہ یہ معاملہ ایسا ہی ہے جیسے باران رحمت کا نزول ۔ وہ مردہ زمین کو زندہ کردیتی ہے یہ مردہ دلوں کو زندہ کردیتا ہے اس کی تشریح سورة الرعد میں بڑی تفصیل سے ذکر کی گئی جہاں اس کو ایک تمثیل کے رنگ میں سمجھایا گیا ، اس تمثیل میں اس علم کو جو نبی اعظم وآخر ﷺ پر بذریعہ وحی نازل کیا گیا تھا آسمانی بارش سے تشبیہ دی اور ایمان لانے والے سلیم الفطرت لوگوں کو ان ندی نالوں کی مانند ٹھہرایا گیا ہے جو اپنے اپنے ظرف کے مطابق باران رحمت سے بھرپور ہو کر رواں دواں ہوجاتے ہیں اور اس ہنگامہ وشورش کو جو اسلام کے خلاف منکرین و مخالفین نے برپا کر رکھی تھی اس جھاگ اور خس و خاشاک سے تشبیہہ دی گئی ہے جو ہمیشہ سیلاب کے رکتے ہی سطح آب پر اپنی اچھل کود دکھانی شروع کردیتا ہے اور ایک جگہ اس کو اس طرح بیان فرمایا : ” کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں سے پانی برساتا ہے اور اس کی بدولت زمین سرسبز ہوجاتی ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ لطیف وخبیر ہے اس کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے بلاشبہ وہ غنی وحمید ہے ۔ “ (الحج 22 : 64) یہاں بھی ظاہر مفہوم کے پیچھے ایک لطیف اشارہ چھپا ہوا ہے ۔ ظاہر مفہوم تو محض اللہ کی قدرت کا بیان ہے مگر لطیف اشارہ اس میں یہ ہے کہ جس طرح اللہ کی برسائی ہوئی بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی تم دیکھتے ہو کہ سوکھی پڑی ہوئی زمین یکایک لہلہا اٹھتی ہے اسی طرح یہ وحی کا باران رحمت جو آج ہو رہا ہے عنقریب تم کو یہ منظر دکھانے والا ہے کہ یہی عرب کا بنجر ریگستان علم اور اخلاق اور تہذیب صالح کا وہ گلزار بن جائے گا جو چشم فلک نے کبھی نہیں دیکھا تھا اور ایک جگہ ارشاد الہی ہے کہ : ” دیکھو اللہ کی رحمت کے اثرات کہ مردہ پڑی ہوئی زمین کو وہ کس طرح جلا اٹھاتا ہے یقینا وہ مردوں کو زندگی بخشنے والا ہے اور وہ ہرچیز کا بندھن باندھنے والا ہے ۔ “ ( سورة الروم 30 : 50) کیونکہ وہ قادر مطلق ہے ، اس جگہ بھی جس انداز سے نبوت اور بارش کا ذکر یکے بعد دیگرے کیا گیا ہے اس میں ایک لطیف اشارہ اس حقیقت کی طرف بھی ہے کہ نبی کی آمد بھی انسان کی اخلاقی زندگی کے لئے ویسی ہی رحمت ہے جیسر بارش کی آمد اس کی مادی زندگی کے لئے رحمت ثابت ہوتی ہے جس طرح آسمانی بارش کے نزول سے مردہ پڑی ہوئی زمین یکایک جی اٹھتی ہے اور اس میں کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں اسی طرح وحی کا نزول اخلاق ورروحانیات کی ویران پڑی ہوئی دنیا کو جلا اٹھاتا ہے اس میں فضائل و محامد کے گلزارلہلہانے شروع ہوجاتے ہیں یہ کفار کی اپنی بدقسمتی ہے کہ اللہ کی طرف سے یہ نعمت جب ان کے ہاں آتی ہے تو وہ اس کا کفران کرتے ہیں اور اس کو اپنے لئے مژدہ رحمت سمجھنے کے بجائے پیام موت سمجھ لیتے ہیں ۔ زیر نظر آیت میں بھی فرمایا کہ ” اللہ نے اوپر سے پانی نازل کیا پھر اس سے زمین کو اس کے خشک ہونے کے بعد جلا دیا بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لئے بڑی ہی نشانی ہے جو بات کو اچھی طرح سنتے ہیں ۔ “ اوپر سے پانی برسانا اور اس سے خشک زمین کو از سر نو سبز کردینا جو روز مرہ کا مشاہدہ ہے اس میں آسمانی پانی وحی الہی ہے جو مردہ دلوں کو زندہ کرتی ہے اور یہ تشبیہ دے کر بات واضح فرما دی ہے کہ جس طرح بارش سے مردہ زمین میں ہریاول ہی ہریاول نظر آنے لگتی ہے اسی طرح جو لوگ اس وحی الہی کی بارش سے مستفید ہوتے ہیں ان کے دلوں کی مردہ زمین ماشاء اللہ زندہ ہوجاتی ہے اور وہ اس دنیا کی ساری زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں ادنی اور ہیچ سمجھنے لگتے ہیں اور آخر میں ارشاد فرمایا کہ اس میں بگوش ہوش سننے والوں کے لئے ایک بہت بڑی نشانی ہے ۔
Top