Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 76
وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلَیْنِ اَحَدُهُمَاۤ اَبْكَمُ لَا یَقْدِرُ عَلٰى شَیْءٍ وَّ هُوَ كَلٌّ عَلٰى مَوْلٰىهُ١ۙ اَیْنَمَا یُوَجِّهْهُّ لَا یَاْتِ بِخَیْرٍ١ؕ هَلْ یَسْتَوِیْ هُوَ١ۙ وَ مَنْ یَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ١ۙ وَ هُوَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠   ۧ
وَضَرَبَ : اور بیان کیا اللّٰهُ : اللہ مَثَلًا : ایک مثال رَّجُلَيْنِ : دو آدمی اَحَدُهُمَآ : ان میں سے ایک اَبْكَمُ : گونگا لَا يَقْدِرُ : وہ اختیار نہیں رکھتا عَلٰي شَيْءٍ : کسی شے پر وَّهُوَ : اور وہ كَلٌّ : بوجھ عَلٰي : پر مَوْلٰىهُ : اپنا آقا اَيْنَمَا : جہاں کہیں يُوَجِّهْهُّ : وہ بھیجے اس کو لَا يَاْتِ : وہ نہ لائے بِخَيْرٍ : کوئی بھلائی هَلْ : کیا يَسْتَوِيْ : برابر هُوَ : وہ۔ یہ وَمَنْ : اور جو يَّاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْعَدْلِ : عدل کے ساتھ وَهُوَ : اور وہ عَلٰي : پر صِرَاطٍ : راہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی
اور اللہ نے ایک [ مثال بیان فرمائی ، دو آدمی ہیں ایک گونگا ہے کسی بات کے کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ، اپنے آقا پر بوجھ ہے جہاں کہیں بھیجو کوئی خوبی کی بات اس سے بن نہ آئے ، دوسرا ایسا ہے کہ (گونگے ہونے کی جگہ) لوگوں کو عدل و انصاف کی باتوں کا حکم دیتا ہے اور خود بھی سیدھے راستے پر ہے کیا وہ اور یہ ، دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟
اللہ تعالیٰ ایک اور مثال بیان کرتے ہے تم ذرا سن کر خود فیصلہ کرو : 88۔ گزشتہ مثال میں اللہ اور بناوٹی معبودوں کے فرق کو اختیار اور بےاختیاری کے اعتبار سے نمایاں کیا گیا ہے اب اس دوسری مثال میں وہی فرق اور زیادہ کھول کر صفات کے لحاظ سے بیان کیا گیا ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ اور ان بناوٹی معبودوں کے درمیان فرق صرف اتنا ہی نہیں کہ ایک بااختایر مالک ہے اور دوسرا بےاختیار غلام ہے بلکہ مزید برآں یہ فرق بھی ہے کہ یہ غلام نہ تمہاری ہی پکار سنتا ہے ‘ نہ اس کا جواب دے سکتا ہے نہ کوئی کام بااختیار خود کرسکتا ہے اس کی اپنی زندگی کا سارا انحصار اس کے آقا کی ذات پر ہے اور اگر آقا کوئی کام اس کی ذات پر چھوڑ دے تو وہ کچھ بھی نہیں بنا سکتا بخلاف اس کے آقا کا حال یہ ہے کہ صرف ناطق ہی نہیں ناطق حکیم ہے ‘ دنیا کو عدل کا حکم دیتا ہے اور صرف فاعل مختارہی نہیں فاعل برحق بھی ہے جو کچھ کرتا ہے راستی اور صحت کے ساتھ کرتا ہے بتاؤ یہ کونسی دانائی ہے کہ تم ایسے آقا اور اس غلام کو یکساں سمجھ رہے ہو ، اس مفہوم کو اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ : یہ مثال ایمان وکفر کی مثال ہے فرمایا فرض کرو دو ؤدمی ہو ایک گونگا بہرا ‘ اپنے ساتھیوں کے لئے بوجھ ‘ کوئی کام بھی اس سے بن نہ پڑے ، دوسرا متکلم اور راہنما فلاح و کامیابی کی راہ چلنے والا اور دوسروں کو بھی راہ دکھانے والا تو کیا دونوں کی حالت میں تمہیں کوئی فرق نہیں دکھائی دے گا ؟ تمہاری نگاہ میں دونوں کا حکم ایک ہی ہوگا ؟ اگر نہیں ہوگا اور تم بےاختیار بول اٹھو گے کہ کہاں ایک گونگا بہرا اور کہا ایک گویا اور کار فرما ‘ تو پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم ایمان کی زندگی پر کفر کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو ‘ ایمان کی زندگی کیا ہے ؟ عقل وبصیرت کی زندگی جو خدا کے دیئے ہوئے حاسوں سے کام لیتی ‘ خود بھی سیدھی راہ چلتی اور دوسروں کی بھی راہنمائی کرتی ہے ۔ کفر کی زندگی کیا ہے ؟ بہری گونگی زندگی عقل و حواس تاراج کردینے والی جس راہ میں قدم اٹھائے کوئی خوبی کی بات حاص نہ کرسکے ، قرآن کریم ہر جگہ ایمان کو عقل وبصیرت اور ہدایت و راہنمائی کی راہ قرار دیتا ہے اور کفر جہل وکوری اور تعطل وہیچ کاری سے تعبیر کرتا ہے ۔
Top