Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 93
وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ یُّضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ لَتُسْئَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہتا لَجَعَلَكُمْ : تو البتہ بنا دیتا تمہیں اُمَّةً وَّاحِدَةً : ایک امت وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّضِلُّ : گمراہ کرتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے وہ چاہتا ہے وَ : اور يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَلَتُسْئَلُنَّ : اور تم سے ضرور پوچھا جائیگا عَمَّا : اس کی بابت كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ جس کسی پر چاہتا ہے راہ گم کردیتا ہے جس کسی پر چاہتا ہے کھول دیتا ہے اور ضرور ایسا ہونا ہے کہ تم سے ان کاموں کی باز پرس ہو جو کرتے رہتے ہو
اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو مجبور کرکے ایک امت بنا دیا : 107۔ انسان کے متعلق مشیت ایزدی کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ ایک حد تک اختیار دیا گیا ہے اور یہ اختیار اس کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ملا ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اس کو وہ اختیار دیتا اور اس طرح سارے انسانوں کو وہ ایک امت بنا دیتا لیکن اس نے چاہا کہ وہ سارے انسانوں کو مجبور کرکے ایک امت بنائے بلکہ اس کی مشیت کا فیصلہ یہ ہوا کہ وہ انسان کو ایک حد تک اختیار دے کر آزاد رکھے تاکہ وہ جس راہ کو چاہے من حیث العقل وفکر اختیار کرے تاکہ وہ اپنے کئے کے لئے جواب دہ ہو سکے یہ گویا مذہبی کش مکش بپا رکھنے والوں کو ہدایت دی جارہی ہے کہ تم نے یہ کش مکش کیوں بنا رکھی ہے اور آپس میں یہ الجھاؤ کیوں بنا رکھا ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو لوگوں سے یہ مذہبی اختیار چھین لیتا اور چار وناچار سارے انسان ایک امت اور ایک مذہب کے پیروکار ہوتے جیسے سارے حیوانات ہیں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے طرفداروں کی اور ان کے ذلیل ہتھکنڈوں کی جو وہ اللہ کے لئے بزعم خویش استعمال کر رہے ہیں قطعا حاجت نہ تھی یہ کام تو وہ خود اپنی تخلیقی طاقت سے کرسکتا تھا اس لئے ان ذلیل ہتھکنڈوں کو استعمال کو استعمال کرنے والوں کا یہ دعوی باطل ہے کہ وہ اپنے دین کے ہاں اصل کسی کو ان ہتھکنڈوں کی اجازت مرحمت فرما دے جیسا کہ یہ مذہبی ٹھیکہ دار بداعتدالیاں کر رہے ہیں ۔ اللہ کے ہاں اصل چیز دیانت وامانت اور سچی اور صاف وسیدھی بات ہے جس میں کسی طرح کا ایچ پیچ نہ ہو اور ان بداعتدالیوں کو وہ ہرگز ہرگز پسند نہیں کرتا جو لوگ مذہب وملت کے نام پر کر رہے ہیں ، اس نے ہدایت اور گمراہی کے لئے ایک قانون مقرر کردیا ہے اور جو ہدایت پاتا ہے وہ اس قانون کے تحت پاتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے وہ بھی اس کے قانون کے تحت گمراہ ہوتا ہے اس لئے وہ یقینا انسانوں سے ان کے اعمال کے متعلق سوال کرے گا کہ انہوں نے جو راہ اختیار کی وہ کیسے کی ؟ مطلب مزید صاف اور واضح ہوگیا کہ انسان کو اختیار وانتخاب کی آزادی اللہ نے خود دی ہے اس لئے انسانوں کی راہیں دنیا میں مختلف ہیں کوئی گمراہی کی طرف جانا چاہتا ہے تو اللہ اس کے لئے گمراہی کے اسباب ہموار کردیتا ہے اور کوئی راہ راست کا طالب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ہدایت کا سامان پیدا کردیتا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جو ئندہ یا بندہ ہوتا ہے اور جو تلاش کرتا ہے وہ پا لیتا ہے ۔
Top