Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 9
وَ عَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَ مِنْهَا جَآئِرٌ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ۠   ۧ
وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر قَصْدُ : سیدھی السَّبِيْلِ : راہ وَمِنْهَا : اور اس سے جَآئِرٌ : ٹیڑھی وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہے لَهَدٰىكُمْ : تو وہ تمہیں ہدایت دیتا اَجْمَعِيْنَ : سب
اور یہ اللہ کا کام ہے کہ راہ حق واضح کر دے اور راہوں میں ٹیڑھی راہیں بھی ہیں ، وہ اگر چاہتا تو تم سب کو راہ دکھا دیتا
تفسیر : اللہ تعالیٰ کا کام کیا ہے ؟ یہ کہ وہ راہ حق کو واضح کر دے : 13۔ (قصد السبیل) استقامت والا راستہ یا سیدھا راستہ (جآئر) سیدھے راستے سے پھرنے والا ۔ مطلب یہ ہے کہ راہ راست کو دلائل وبراہین سے واضح کردینا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہے یہ سب اس کی مہربانی ہے کہ اس نے سیدھی راہ ہم کو بتا دی لیکن سیدھی راہ معلوم کرنے اور جاننے پہچاننے کے لئے لازم وضروری ہے کہ وہ راستے بھی ساتھ موجود ہوں جو انسان کو غلط سمت کی طرف لے جاتے ہیں تاکہ معلوم کرنے والا اچھی طرح معلوم کرسکے کہ ان میں سے سیدھا راستہ کونسا ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ عقل وفکر کے استعمال کی ہر جگہ ضرورت ہے اور اس کے سوا انسان سیدھا راستہ بھی نہیں چل سکتا ، اس جگہ توحید ورحمت اور ربوبیت کے دلائل پیش کرتے ہوئے یہاں ایک اشارہ کردیا کہ سیدھا راستہ دیکھ کر اس پر چلنا ضروری ہے ‘ فرمایا : دنیا میں انسان کے لئے فکر وعمل کے بہت سے مختلف راستے ممکن ہیں اور عملا موجود ہیں ، ظاہر ہے کہ یہ سارے راستے بیک وقت تو حق نہیں ہو سکتے ، سچائی تو ایک ہی ہے اور صحیح نظریہ حیات صرف وہی ہو سکتا ہے جو اس سچائی کے مطابق ہو اور عمل کے بیشمار ممکن راستوں میں سے صحیح راستہ بھی صرف وہی ہو سکتا ہے جو صحیح نظریہ حیات پر مبنی ہو ۔ اس صحیح نظریئے اور صحیح راہ عمل سے واقف ہونا انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے بلکہ اصل بنیادی ضرورت یہی ہے کیونکہ دوسری تمام چیزیں تو انسان کی صرف ان ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جو ایک اونچے درجے کا جانور ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہوا کرتی ہیں مگر یہ ایک ضرورت ایسی ہے جو انسان ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہے یہ اگر پوری نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کی ساری زندگی ہی ناکام ہوگئی ، اب غور کرو کہ جس اللہ نے تمہیں وجود میں لانے سے پہلے تمہارے لئے یہ سب کچھ سروسامان مہیا کر کے رکھا اور جس نے وجود میں لانے کے بعد تمہاری حیوانی زندگی کی ایک ایک ضرورت کو پورا کرنے کا اتنی دقیقہ سنجی کے ساتھ بڑے پیمانے پر انتظام کیا ‘ کیا اس سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ اس نے تمہاری انسانی زندگی کی اس سب سے بڑی اور اصل ضرورت کو پورا کرنے کا بندوبست نہ کیا ہوگا ؟ یہی بندوبست تو ہے جو نبوت کے ذریعے سے کیا گیا ہے اگر تم نبوت کو نہیں مانتے تو بتاؤ کہ تمہارے خیال میں اللہ نے انسان کی ہدایت کے لئے اور کونسا انتظام کیا ہے ؟ اس کے جواب میں تم نہ یہ کہہ سکتے ہو کہ اللہ نے ہمیں راستہ تلاش کرنے کے لئے عقل وفکر دے رکھی ہے کیونکہ انسانی عقل وفکر پہلے ہی بیشمار مختلف راستے ایجاد کر بیٹھی ہے جو راہ راست کی صحیح دریافت میں اس کی ناکامی کی کھلی دلیل ہیں اور نہ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ اللہ نے ہماری راہنمائی کا کوئی انتظام نہیں کیا کیونکہ اللہ کے ساتھ اس سے بڑھ کر بدگمانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ جانور ہونے کی حیثیت سے تو تمہاری پرورش اور تمہاری نشو ونما کا اتنا مفصل اور مکمل انتظام کرے مگر انسان ہونے کی حیثیت سے تم کو یوں ہی تاریکیوں میں بھٹکنے اور ٹھوکریں کھانے کیلئے چھوڑ دے ۔
Top