Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 10
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً لَّكُمْ مِّنْهُ شَرَابٌ وَّ مِنْهُ شَجَرٌ فِیْهِ تُسِیْمُوْنَ
هُوَ : وہی الَّذِيْٓ : جس نے اَنْزَلَ : نازل کیا (برسایا) مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی لَّكُمْ : تمہارے لیے مِّنْهُ : اس سے شَرَابٌ : پینا وَّمِنْهُ : اور اس سے شَجَرٌ : درخت فِيْهِ : اس میں تُسِيْمُوْنَ : تم چراتے ہو
وہی ہے جس نے آسمانوں سے پانی برسایا اس میں سے کچھ تو تمہارے پینے کے کام آتا ہے کچھ زمین کو سیراب کرتا ہے اس سے درختوں کے جنگل پیدا ہوتے ہیں اور تم اپنے مویشی ان میں چراتے ہو
وہی تو ہے جس نے آسمانوں سے پانی برسایا اور تمہاری آبادی کے سامان پیدا کیے : 14۔ تم دیکھو گے کہ زندگی کے لئے پانی اور رطوبت کی ضرورت ہے ہم دیکھتے ہیں کہ پانی کے وافر ذخیرے ہر طرف موجود ہیں لیکن اگر صرف اتنا ہی ہوتا تو یہ زندگی کے لئے کافی نہ تھا کیونکہ زندگی کے لئے صرف یہی ضروری نہیں ہے کہ پانی موجود ہیں لیکن اگر صرف اتنا ہی ہوتا تو یہ زندگی کے لئے کافی نہ تھا کیونکہ زندگی کے لئے صرف یہی ضروری نہیں ہے کہ پانی موجود ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ایک خاص انتظام ‘ ایک خاص ترتیب اور ایک خاص مقررہ مقدار کے ساتھ موجود ہو ۔ پس یہ جو دنیا میں پانی کے بننے اور تقسیم ہونے کا ایک خاص انتظام پایا جاتا ہے اور فطرت صرف پانی بناتی ہی نہیں بلکہ ایک خاص ترتیب ومناسب کے ساتھ بناتی اور ایک خاص اندازہ کے ساتھ بانٹتی رہتی ہے تو یہی ربوبیت ہے اور اس سے ربوبیت کے تمام اعمال کا تصور کرنا چاہئے ، قرآن کریم کہتا ہے یہ اللہ کی رحمت ہے جس نے پانی جیسا جوہر حیات پیدا کردیا لیکن یہ اس کی ربوبیت ہے جو پانی کو ایک بوند بوند کرکے ٹپکاتی ہے اور زمین کے ایک ایک گوشہ تک پہنچاتی ہے اور ایک خاص حالت اور مقدار میں تقسیم کرتی ہے ، ایک خاص موسم اور محل میں برساتی ہے اور پھر برسانے کے لئے ایک خاص قسم کا نظام اس نے تشکیل دیا ہے جس سے زمین کے ایک ایک تشنہ ذرے کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر سیراب کردیتی ہے ۔ اس سے پہلے انسان اور اس کی بقا کے لئے جن اشیاء کی ضرورت تھی ان کی تخلیق کا ذکر فرمایا اور اس آیت سے شان ربوبیت کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ جس قادر مطلق نے ایک قطرہ آب سے انسان جیسی دل کش اور دل چسپ مخلوق پیدا فرمائی ، اس نے پیدا کرنے کے بعد اسے فراموش نہیں کردیا بلکہ ان کی نشو ونما کے تمام تقاضوں کو باحسن وجوہ پورا فرمایا ، اس آیت میں سب سے پہلے پانی کا ذکر کیا کیونکہ انسانی ‘ حیوانی اور نباتاتی زندگی کا دارومدار اسی پر ہے انسان اسے پیتا ہے اور اپنی چراگاہوں ‘ کھیتوں اور باغات کو سیراب بھی کرتا ہے ، اسی سے چراگاہوں میں سبز گھاس اور کھیتوں میں شادات چارہ لہلہانے لگتا ہے جو جانوروں کی خوراک بنتا ہے ، اگر پانی ہی نایاب ہوجائے تو زندگی کی ساری رنگینیاں خا میں مل جائیں ، یہاں شجر سے مراد ہر وہ چیز ہے جو زمین سے اگتی ہے خواہ وہ گھاس ہو یا بیل وغیرہ اور زیر نظر آیت میں یہی مراد ہے کیونکہ آگے جانوروں کے چرانے کا ذکر ہے اور اس کا تعلق زیادہ تر گھاس پھوس ہی سے ہے ، فرمایا ہے کہ (فیہ تسیمون) یعنی تم جانوروں کو چراگاہوں میں چرنے کے لئے چھوڑتے ہو۔ غور کرو کہ وہ قانون کیا ہی قانون ہے جس کے تحت زمین سے پانی کو ہوا میں تبدیل کرکے اٹھا لیا جاتا ہے اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی ، اور پھر فضا میں اس کو اس طرح کھلے طور پر رکھا جاتا ہے کہ کوئی چیز اس کو روک کر رکھنے کی نظر نہیں آتی اور پھر کھلی فضا سے اس کو بوند بوند کرکے ٹپکایا جاتا ہے اور وہاں وہاں ٹپکایا جاتا ہے کہ اگر یہ نظام قائم نہ کیا جاتا تو وہاں تک پانی پہنچانا نہایت مشکل اور دشوار ہوتا اور پھر اس کو کس طرح مقطر کرکے صاف ستھرا بنا کر ایک ترتیب کے ساتھ گرایا جاتا ہے اور اس کی مقدار اتنی وافر رکھی ہے کہ زیادہ تگ ودو کے بغیر اس کو حاصل کیا جاسکتا ہے ، اور یہ سارا قانون جس قانون دان نے بنایا ہے اور چلایا ہے وہ کتنا دانا اور بینا ہے اور یقینا وہی ہے جو رب کہلانے کا حقدار ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں جس کو رب بنایا جائے ، ۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم :
Top