Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 20
كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَ١ؕ وَ مَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا
كُلًّا : ہر ایک نُّمِدُّ : ہم دیتے ہیں هٰٓؤُلَآءِ : ان کو بھی وَهٰٓؤُلَآءِ : اور ان کو بھی مِنْ : سے عَطَآءِ : بخشش رَبِّكَ : تیرا رب وَ : اور مَا كَانَ : نہیں ہے عَطَآءُ : بخشش رَبِّكَ : تیرا رب مَحْظُوْرًا : روکی جانے والی
ہم ہر فریق کو اپنی پروردگاری بخشائشوں سے مدد دیتے ہیں ان کو بھی اور ان کو بھی اور تیرے پروردگار کی بخشش عام کسی پر بند نہیں
طلب وسعی پر انحصار ہے ورنہ ہم تو ہر ایک کی مدد کرتے ہی رہتے ہیں ۔ 26۔ اس آیت میں قانون تکوینی کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ ہم اپنے قانون کے مطابق دنیوی نعمتوں کا دروازہ کسی پر بھی بند نہیں کرتے ہر آدمی کی طلب وسعی پر منحصر ہے جو شخص صرف دنیا کا طالب ہے اس کو صرف دنیا اور جو شخص آخرت کی طلب رکھتا ہے اس کو اس کے حصہ کی دنیا بھی اور آخرت بھی ضرور ملتی ہے ، ہماری دنیا کی عطا کسی پر بھی بند نہیں کی گئی کیونکہ یہ ہمارے قانون تکوینی کے خلاف ہے اور قانون کے خلاف ہم کبھی نہیں کرتے ، کوئی مومن ہو یا کافر مطیع ہو یا نافرمان سعید ہو یا شقی سب کے لئے ہمارے قانون کا دروازہ کھلا ہے اور اس قانون کے تحت جو چیزیں آتی ہیں کسی سے ان کو بند نہیں کیا جاتا ، روزی ہے کہ سب کو دی جاتی ہے ‘ زندگی اور اس کی نشو ونما کی سہولتیں سب کے لئے یکساں ہیں جو چاہے قانون الہی کے مطابق انکو حاصل کرے اور جتنا چاہے حاصل کرے ۔ (کل) پر ایک فریق کے ہر ہر فرد کے لئے یہ عطا یکساں جاری وساری ہے نہ سعید کو اس سے زیادہ دیا جاتا ہے کہ وہ سعید ہے اور نہ شقی سے اس لئے روک لیا جاتا ہے کہ وہ شقی ہے ۔ اے پیغمبر اسلام ! ” تیرے پروردگار کی بخشش عام کسی پر بھی بند نہیں ہے ۔ “
Top