Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 8
عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یَّرْحَمَكُمْ١ۚ وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا١ۘ وَ جَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا
عَسٰي : امید ہے رَبُّكُمْ : تمہارا رب اَنْ : کہ يَّرْحَمَكُمْ : وہ تم پر رحم کرے وَاِنْ : اور اگر عُدْتُّمْ : تم پھر (وہی) کرو گے عُدْنَا : ہم وہی کرینگے وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا جَهَنَّمَ : جہنم لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے حَصِيْرًا : قید خانہ
کچھ عجب نہیں کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم فرمائے لیکن اگر تم پھر سرکشی و فساد کی طرف لوٹے تو ہماری طرف سے بھی پاداش عمل لوٹ آئے گی اور ہم نے منکرین حق کے لیے جہنم کا قید خانہ تیار کر رکھا ہے
جزائے عمل کے متعلق جو کچھ کہا جاسکتا ہے اس آیت میں کہہ دیا گیا ہے : 11۔ زیر نظر آیت کے مختصر الفاظ میں وہ سب کچھ کہہ دیا گیا جو جزائے عمل کے بارے میں کہا جاسکتا ہے فرمایا (آیت) ” ان عدتم عدنا “۔ اگر تم دوبارہ انہی شرارتوں کی طرف لوٹے تو ہم بھی لوٹیں گے ، بلاشبہ بظاہر خطاب یہود ہی سے ہے کیونکہ ان ہی کی حالت کا بیان اس جگہ ہورہا ہے تاہم اصول سارے انسانوں کے لئے ہے جو اس دھرتی کے منہ پر بستے ہیں ان الفاظ سے قرآن کریم کی معجزانہ بلاغت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ مطلب بالکل واضح ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی انسان بدعملیوں کی طرف لوٹیں گے تو اللہ کا قانون مکافات بھی پاداش و عقوبت کی طرف لوٹے گا ، جونہی تم نے بڑائی کا رخ کیا نتائج عمل کا قانون بھی پاداش و عقوبت میں سرگرم ہوگیا۔ ” عمل “ اور ” نتیجہ “ دو ایسی لازم ملزوم حقیقتیں ہیں جو کسی حال میں بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتیں ” نتیجہ “ عمل کا سایہ ہے ۔ جہاں عمل آیا اس کا سایہ بھی ساتھ آگیا ۔ تم نے اچھے عمل کی طرف رخ کیا اور اچھے نتائج بھی تمہاری طرف دیکھے لگے ۔ تم نے برے عمل کی طرف قدم اٹھایا تو ساتھ ہی برے نتائج کے بھی قدم اٹھ گئے ۔ اس راہ میں جتنے بڑھتے جاؤ اور جس قدر بھی غور کرو حقیقت ہر جگہ یہی نظر آئے گی کہ (آیت) ” ان عدتم عدنا “۔ کاش کہ آج قوم مسلم بھی اس حقتقک کو سمجھنے کی کوشش کرتی اور قرآن کریم کی تلاوت کے وقت ان کے پیش نظر بھی یہ اصول ہوتا اور وہ واقعات کو قصہ پارینہ کی طرح نہ پڑھ جاتے بلکہ ان ” ماضی “ کے واقعات سے اپنا ” حال “ درست کرنے کی کوشش میں مصروف ہوتے ۔ اے اللہ ! ہماری حالت پر بھی رحم فرما اور ہمیں قرآن کریم کا مفہوم سمجھنے کی توفیق عطا فرما کہ ہم تیرے اس کلام ” غیرمخلوق “ سے وہ استفادہ حاصل کرسکیں جس کے لئے تو نے اس کو نازل فرمایا ۔ مختصر یہ کہ قوم یہود سے کہا جارہا ہے کہ تمہاری قومی دو ہلاکتیں ہوچکی ہیں اب تیسری مہلت تمہیں ملی ہے یعنی دعوت حق کے ظہور نے رحمت الہی کی بخشائشوں کا دروازہ کھول دیا ہے اگر انکار وسرکشی سے باز آجاؤ تو تمہارے لئے سعادت و کامرانی ہے اور اگر باز نہ آؤ گے تو پھر جس طرح دو مرتبہ نتائج عمل کا قانون اپنی عقوبتیں دکھلا چکا ہے تیسری مرتبہ بھی دکھلائے گا ۔ چناچہ ایسا ہی ہوا یہودیوں نے جس طرح پہلی دونوں مہلتوں سے فائدہ نہ اٹھایا جو ” ظہور مسیح “ (علیہ السلام) نے انہیں دی تھیں اسی طرح دعوت اسلام سے بھی انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا اور محرومی ونامرادی کی مہر ہمیشہ کے لئے ان کی قسمت پر لگ گئی اس وقت جو انہوں نے سرنکالنا شروع کیا ہے وہ یقینا عیسائیت کے سہارے پر ہے لیکن یہودیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے کبھی کسی سہارے کو سہارا نہیں سمجھا بلکہ وہ جس ٹہنی پر بیٹھتے ہیں اس کو کاٹنے کے عادی ہیں اور اب بھی وہ یہی کچھ کریں گے ، قرآن کریم کی روشنی میں یہ ہمارا ایمان ہے تاہم اس بات کا ہمیں اعتراف ہے کہ یہ موقع بھی ان کو اہل اسلام کی بدعملیوں اور ناعقبت اندیشیوں سے میسر آیا ہے ۔ اللہ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ کا غیبی ہاتھ آگے بڑھ کر ان حالات کو اپنے قابو میں لے لے ، آمین ۔ لیکن افسوس کے کہ اس وقت یعنی نزول قرآن کے وقت یہودیوں کو جو اس طرح کی اصلاحی تقریر کی گئی اس سے انہوں نے سبق حاصل نہ کیا اور ان آیات کے نزول کے فورا ہی بعد مدینے سے نکال باہر کردیا گیا جو ان کی اپنی شرارتوں ہی کے باعث تھا جو وہ اس وقت کر رہے تھے لیکن آج وہی کچھ قوم مسلم کے لیڈر خود کر رہے ہیں اور زمرہ علماء ان شرارتوں میں قوم مسلم کے لیڈروں کے ساتھ برابر کا شریک ہے اس لئے ظاہری طور پر اس کی حالت نہایت مخدوش نظر آتی ہے لیکن قدرت الہی کا غیبی ہاتھ اپنی مایوسیوں کے وقت آگے بڑھتا ہے اور ” سنت اللہ “ کبھی تبدیل نہیں ہوتی ۔
Top