Urwatul-Wusqaa - Maryam : 12
یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ١ؕ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ
يٰيَحْيٰى : اے یحییٰ خُذِ : پکڑو (تھام لو) الْكِتٰبَ : کتاب بِقُوَّةٍ : مضبوطی سے وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے اسے دی الْحُكْمَ : نبوت۔ دانائی صَبِيًّا : بچپن سے
اے یحییٰ (علیہ السلام) ! کتاب الٰہی کے پیچھے مضبوطی کے ساتھ لگ جا چناچہ وہ ابھی لڑکا ہی تھا کہ ہم نے اسے علم و فضیلت بخش دی
یحیٰ (علیہ السلام) کو کتاب الہی کے مضبوط پکڑنے کی ہدایت : 12۔ غور کیجئے کہ اس آیت سے پہلے کتنا مضمون حذف کردیا گیا اور پھر ضرورت کی بات کو بیان کردیا ، قرآن کریم جو کتاب ہدایت ہے نہ کہ مربوط قصے کہانیوں کی کتاب وہ اس طرح ضرورت کی باتوں کو بیان کرتا اور غیر ضروری کو حذف کرتا ہے لیکن اکثر لوگ ایسے مواقع پر خواہ مخواہ کی بحثیں شروع کردیتے ہیں اور علمائے کرام بھی جاننے بوجھنے کے باوجود انہی لوگوں کی ترجمانی کرتے رہتے ہیں ، کیوں ؟ اس لئے کہ اس طرح کی باتیں سمجھانے اور ان کو بیان کرنے پر وقت خرچ ہوتا ہے جن لوگوں کے ذہن میں سنی سنائی باتیں بیٹھ گئی ہوتی ہیں وہ بات بات پر مزاحمت کرتے ہیں اور خواہ مخواہ طول کلامی ہوتی ہے اس لئے وہ ان ساری باتوں سے گلو خلاصی کرنے کے لئے ان کے ترجمان بن کر رہ جاتے ہیں ۔ زیر نظر قصہ ہی کو پیش نظر رکھ کر آپ اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ ادھر بشارت کی آیت آپ نے پڑھی اور ساتھ ہی حکم مل گیا کہ (آیت) ” ییحیٰ خذ الکتب بقوۃ “۔ اے یحییٰ کتاب کو پوری قوت کے ساتھ تھام لے ۔ ظاہر ہے کہ اس خوشخبری کے بعد ایک عرصہ تک جس کی مدت کم از کم 9 ماہ ہے بطن مادر میں رہے پھر پیدا ہوئے بچپن گزرا اور بائیس پچیس سال کی عمر کو یقینا پہنچے کہ یہ حکم نازل ہوا لیکن اتنی لمبی مدت کس طرح نکل گئی آنکھ جھپکتے ؟ نہیں وقت وقت تو اسی طرح گزرتا گیا جس طرح اب گزرتا ہے لیکن اس دورانیہ کا ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ اس کی کوئی ضرورت نہ تھی اور اصل مقصود سیدہ مریم (علیہ السلام) اور سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر تک پہنچنا ہے تاکہ عیسائیوں کو ان دونوں شخصیتوں کا صحیح تعارف کرایا جائے لیکن اس سے پہلے عیسیٰ (علیہ السلام) کے مناد یحییٰ (علیہ السلام) کا متخصر تذکرہ کرنا ضروری تھا تاکہ دونوں نبیوں کا تقابل بھی ہوتا جائے اور اس تقابل میں ان غلط فہمیوں کی نشاندہی بھی کردی جائے جن غلط فہمیوں میں عیسائی دنیا مبتلا تھی ، اور سب سے بڑی غلطی چونکہ یہی تھی کہ عیسائی سمجھتے تھے کہ ادھر عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور ادھر ساتھ ہی (آیت) ” انی عبداللہ “ ۔ کا ذکر بھی شروع کردیا اور ایسا کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش عام حالات سے ہٹ کر روح القدس کی طاقت وقوت سے ہوئی تھی اور اس میں یہ قوت روح القدس کی طرف سے منتقل ہوئی تھی ، لہذا ان کی اس غلطی کو دور کرنے کے لئے پہلے یحییٰ (علیہ السلام) کا ذکر اس انداز میں پیش کیا گیا کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے بھی کئی لحاظ سے فوقیت لے گیا تاکہ اس غلطی کا ازالہ ہو سکے کہ اگر عیسیٰ (علیہ السلام) مافوق انسانیت ہیں تو یحییٰ (علیہ السلام) کو بدرجہ اتم مافوق انسانیت ہونا چاہئے اور جب یحییٰ (علیہ السلام) ان باتوں کے باعث مافوق انسانیت نہیں تو عیسیٰ (علیہ السلام) مافوق انسانیت ہو کر اللہ ‘ اللہ کا جز یا اللہ کا بیٹا کس طرح ہوگئے ؟ یحییٰ (علیہ السلام) پر ظاہر ہے کہ کوئی کتاب نازل ہوئی تھی جس کتاب کو قوت کے ساتھ تھامنے کا حکم ہوا وہ تورات ہی تھی چونکہ بنی اسرائیل نے اس کو اس طرح پشت پیچھے ڈال دیا تھا جس طرح آج مسلمانوں نے قرآن کریم کو ڈال رکھا ہے اس لئے یحییٰ (علیہ السلام) کو ہم نے یہ حکم اس وقت دیا جب وہ ابھی تیس سال کی عمر کو بھی نہیں پہنچے تھے اور اس عمر میں انسان فی والوقعہ طاقت سے کام لے سکتا ہے ۔ اس لئے کہ پیدائش سے لے کر تیس سال کی عمر تک (صبی) کا لفظ اطلاق کرتا ہے چناچہ سیر کی کتابوں میں تحریر ہے کہ ” وہ تیس سال سے قبل ہی نبی بنا دیئے گئے تھے ۔ (قصص الانبیاء للنجارص 420 بحوالہ قصص ج 2) بلاشبہ ” طاقت وقوت “ اور ” حکم “ دونوں کا اکٹھا ہونا وہ اعجاز ہے جو یحییٰ (علیہ السلام) ‘ عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی اعظم وآخر ﷺ کے سوا شاید ہی کسی دوسرے نبی کو عطا کیا گیا ہو ، کسی بات پر مضبوطی سے قائم رہنے اور دوسروں کو مضبوطی سے قائم رکھنے کے لئے جس قوت فیصلہ قوت اجتہاد تفقہ فی الدین اور معاملات میں صحیح رائے اختیار کرنے کی صلاحیت درکار ہوتی ہے وہ اس کم عمری میں ہی ان انبیاء کرام (علیہم السلام) میں پختہ سے پختہ تر کردی گئی ۔
Top