Urwatul-Wusqaa - Maryam : 13
وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةً١ؕ وَ كَانَ تَقِیًّاۙ
وَّحَنَانًا : اور شفقت مِّنْ لَّدُنَّا : اپنے پاس سے وَزَكٰوةً : اور پاکیزگی وَكَانَ : اور وہ تھا تَقِيًّا : پرہیزگار
اسے اپنے فضل خاص سے دل کی نرمی اور نفس کی پاکیزگی عطا فرمائی ، وہ پرہیزگار تھا
یحییٰ (علیہ السلام) کی دوسری امتیازی صفات کا مختصر بیان : 13۔ (حنان) کی اصل ح ن ن ہے جس کے معنی رحمت و شفقت کے ہیں جس میں ذوق وشوق اور سوز و گداز کی آمیزش بھی ہوتی ہے اور یہی ہے جو انسان کے قلب وروح کی زندگی کی اصل علامت ہے یہ نہ ہو تو سچی بات ہے کہ انسان انسان ہونے کا اہل نہیں اگرچہ جسم وڈھانچہ اور شکل و صورت وہ انسان کی سی رکھتا ہو سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کو یقینا اس میں وافر حصہ ملا تھا اور یہی بات (من لدنا) کے الفاظ سے ظاہر ہوتی ہے اور یہ بات آپ کو معلوم ہی ہے کہ قرآن کریم نے اس کی وضاحت فرما دی ہوئی ہے کہ انبیاء کرام اور رسل عظام میں سے بھی بعض بعض پر فضیلت رکھتے تھے کسی کو کسی معاملہ میں فضیلت حاصل تھی اور کسی کو کسی معاملہ میں اور مجموعی طور پر ساری فضیلتیں ہمارے نبی کریم ﷺ میں پائی جاتی تھیں ۔ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) میں بنی نوع انسان کے لئے جو رحمت و شفقت اور شوق وذوق تھا اس کا ذکر آج بھی اناجیل میں موجود ہے ان کے مطالعہ سے یقینا آج بھی انسانی ہمدردی کا پہلو اجاگر ہوتا ہے بلکہ انکے اقوال کی حرارت آج بھی دلوں کو گرما دیتی ہے اور روحوں کو تڑپا دیتی ہے ، سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کے یہ مواعظ آج بھی ” لوقا “ میں دیکھے جاسکتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے جس پہلو سے انکی شہرت ہوئی وہ یہ تھا کہ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کا بچپن اور جوانی ساری بیابانوں میں گزری اور ساری زندگی کسی بستی کے قریب نہ آیا ‘ اس نے بیابان ہی میں دریاؤں اور صحراؤں کے کناروں پر نبوت کا پیغام دیا ‘ ساری زندگی شادی نہ کی کیونکہ وہ شادی کے قابل ہی نہ تھا اور قوت مردمی رکھی ہی نہ گئی تھی اس طرح کی کتنی باتیں ہیں جو سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کے متعلق زبان زد خاص وعام ہیں اور علمائے کرام کے مواعظ کا حصہ ہیں اور کبھی کسی نے اس دعا پر غور نہیں کیا جو زکریا (علیہ السلام) نے اللہ سے مانگی تھی اور اللہ تعالیٰ نے جس کی قبولیت کا خاص طور پر ذکر کیا ہے کیا اس کی قبولیت کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ زکریا (علیہ السلام) کے ہاں جو بچہ پیدا ہو وہ اس قدر نکارہ ہو کہ وہ نبوت عطا ہونے کے باوجود کوئی نبوت کا کام سرانجام ہی نہ دے اور جنگلوں اور بیابانوں میں دھکے کھانے کے بعد خود زکریا (علیہ السلام) کی زندگی میں قتل کردیا جائے ۔ جو شخص ذرا بھی عقل وفکر سے کام لے گا وہ یقینا اس سے واضح طور پر انکار کر دے گا اور صاف کہہ دے گا کہ یہ سو فی صدی جھوٹ ہے کیونکہ اس سے زکریا (علیہ السلام) کے مبشر بیٹے کی ایک صفت بھی نہیں پائیں جاتی ہے حالانکہ زکریا (علیہ السلام) سے جو وعدہ کیا گیا تھا وہ اللہ رب العزت کی طرف سے تھا جس کا پورا ہونا لازم وضروری تھا اور وہ یقینا پورا ہوا اور ہم تک سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کے حالات زندگی جو تاریخی لحاظ سے پہنچے وہ صحیح نہیں ہیں اور قرآن کریم کے اشارات ان سارے واقعات کی یک قلم نفی کرتے ہیں جو واقعات تاریخ کے صفحات سے ہم کو ملتے ہیں ، سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کے کمالات کا ذکر ہم پیچھے عروۃ الوثقی جلد دوم تفسیر سورة آل عمران کی آیت 39 کے تحت ص 155 سے 157 تک بیان کرچکے ہیں ۔ زیر نظر آیت میں (حنانا) کے بعد آپ کی صفت میں (زکوۃ) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی پاکیزگی و طہارت کے ہیں جس سے مراد یقینا ظاہری اور باطنی طہارت ہے اور حنان کے بعد زکوۃ کا ذکر ایسا ہی ہے جیسا کہ دودھ کے ساتھ شکر کا خالص دودھ بھی ہو پھر اس میں شکر بھی ڈال دی جائے تو میٹھا ہونے میں کیا کسر باقی رہ گئی جبکہ موسم اور وقت کے مطابق وہ ٹھنڈا یا گرم بھی ہو تو سبحان اللہ ! پھر زکوۃ کہہ کر بھی ذکر کو ختم نہیں کیا ساتھ (تقیا) کا لفظ مزید بڑھا دیا ‘ کیوں ؟ اس لئے پچھلی دونوں صفتوں کا تعلق انسان کے باطن کے ساتھ تھا جس سے اس کا ظاہر مکمل طور پر اجاگر نہی ہوتا (تقیا) کا لفظ بول کر آپ کی ظاہری خوبیوں کا بھی ذکر کردیا کہ وہ ظاہری طور پر بھی نہایت ہی پرہیز گار اور متقی تھے ۔
Top