Urwatul-Wusqaa - Maryam : 14
وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا
وَّبَرًّۢا : اور اچھا سلوک کرنیوالا بِوَالِدَيْهِ : اپنے ماں باپ سے وَلَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا وہ جَبَّارًا : گردن کش عَصِيًّا : نافرمان
اور ماں باپ کا خدمت گزار تھا ، سخت گیر اور نافرمان نہ تھا
سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) والدین کے فرمانبردار تھے سخت گیر نہ تھے ۔ 14۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی نبی اپنے ماں باپ کا نافرمان اور ان پر سختی کرنے والا بھی ہو سکتا تھا لیکن یحییٰ (علیہ السلام) ایسے نہیں تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ انکے والدین بھی ایسے تھے کہ ان کی کسی معاملہ میں بھی نافرمانی ممکن نہ تھی یعنی دین و دنیا میں وہ والدین کے ساتھ تھے اور کسی معاملہ میں بھی وہ والدین سے الگ تھلگ نہیں ہوئے ممکن ہے کہ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہو کہ جو اولاد اکلوتی ہو اور ایک مدت کے بعد میسرآئے وہ لاڈ پیار میں عموما خراب ہوجاتی ہے ایسے لوگوں کے لئے ایک نمونہ پیش کرنے کے لئے اس صفت کو خاص کر اجاگر کیا گیا ہو لیکن تعجب ہے کہ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ” ماں باپ کے ساتھ ان کی وفاداری کا بیان اس لئے کیا گیا کہ باوجود اس کے کہ ان کی ولادت سے لے کر ان کی تعلیم وتربیت تک ہرچیز براہ راست اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں ہوتی ہے وہ کسی چیز میں بھی اپنے ماں باپ کے محتاج نہیں ہوئے لیکن اس کے باوجود فرمانبردار رہے اور انہوں نے سرکشی نہیں کی ۔ “ گویا ماں باپ کا نام ٹوٹل پورا کرنے کے لئے لیا گیا ورنہ نہ تو وہ ماں کے پیٹ میں بطور جنین رہے اور نہ ہی ماں نے ان کو وضع کیا ‘ نہ دودھ پلایا اور نہ ہی ان کی پرورش میں والدین کا کوئی حصہ ہے اور اگر بات اس طرح ہے تو معلوم نہیں کہ مفسر صاحب نے یہ کیوں نہیں فرما دیا کہ وہ بغیر ماں باپ کے محض قدرت الہی سے پیدا ہوئے تھے صرف خانہ پری کرنے کے لئے ماں باپ کا نام لیا گیا تاکہ مسیح (علیہ السلام) کی فوقیت ان پر قائم رہے ، گویا مفسرین کی اپنی مرضی ہے چاہے وہ جو بات قدرت الہی کے ذمہ ڈال دیں ‘ کون ان کو پوچھ سکتا ہے ۔
Top