Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Maryam : 15
وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا۠ ۧ
وَسَلٰمٌ
: اور سلام
عَلَيْهِ
: اس پر
يَوْمَ
: جس دن
وُلِدَ
: وہ پیدا ہوا
وَيَوْمَ
: اور جس دن
يَمُوْتُ
: وہ فوت ہوگا
وَيَوْمَ
: اور جس دن
يُبْعَثُ
: اٹھایا جائے گا
حَيًّا
: زندہ ہو کر
اس (یحییٰ ) پر سلام ہو جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن مرا اور جس دن پھر زندہ کر کے اٹھایا جائے گا
سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ‘ زندگی اور موت سب میں سلامتی تھی۔ 15۔ زیر نظر آیت میں سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کی پوری زندگی کا خلاصہ پیش کردیا فرمایا لوگ جو کچھ کہتے رہیں ہمارے نزدیک تو سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) مجسمہ سلامتی تھے ، ان کی پیدائش ‘ ان کی زندگی اور انکی موت سب سلامتی ہی سلامتی تھے ۔ سلامتی میں آئے ‘ سلامتی میں رہے اور سلامتی سے رخصت ہوئے اور جب وہ اخروی زندگی میں اٹھائے جائیں گے تو ان کے لئے سلامتی ہی سلامتی ہوگی اور کیوں نہ ہو جب کہ ان کا پیدا ہونا ‘ زندگی بسر کرنا اور دوبارہ اٹھایا جانا سب کام اللہ کی رضا کے لئے ہیں انہوں نے اس دنیا میں قدم رکھا تو رضائے الہی کی خاطر ‘ وہ دنیا میں جیتے رہے تو رضائے الہی کے لئے اور دنیا سے رخصت ہوئے تو رضائے الہی کے ساتھ ، اناجیل کہتی ہیں کہ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) عیسیٰ (علیہ السلام) سے چھ مہینے بڑے تھے ۔ (لوقا) تقریبا تیس سال کی عمر یا اس سے بھی کم میں وہ نبوت پر فائز ہوئے ۔ (لوقا) انہوں نے شرق اردن کے علاقے میں دعوت الی اللہ کا کام شروع کیا ۔ (یوحنا) وہ کہتے تھے کہ میں بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ کو سیدھا کرو ۔ (یوحنا) وہ لوگوں سے گناہوں کی توبہ کراتے تھے اور توبہ کرنے والوں کو بتپسمہ دیتے تھے ، (مرقس) آپ کا نام یوحنا بپتسمہ دینے والا مشہور ہوگیا ۔ (متی) بنی اسرائیل ان کی نبوت کو تسلیم کرتے تھے (متی) ” جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں ان میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں ۔ “ (مسیح (علیہ السلام) متی 11 : 11) وہ اونٹ کے بالوں کی پوشاک پہنتے ‘ چمڑے کا پٹہ کمر میں باندھتے تے ۔ (متی اور لوقا) جس کے پاس دو کرتے ہوں وہ اس کو جس کے پاس نہ ہو بانٹ دے ۔ (لوقا) جس کے پاس کھانا ہو وہ بھی ایسا ہی کرے (لوقا) محصول لینے والوں نے پوچھا کہ استاد ہم کیا کریں تو انہوں نے فرمایا جو تمہارے لئے مقرر ہے اس سے زیادہ نہ لینا۔ (لوقا) سپاہیوں نے پوچھا ہمارے لئے کیا ہدایت ہے ؟ فرمایا نہ کسی پر ظلم کرو اور نہ ناحق کسی سے کچھ لو اور اپنی تنخواہ پر کفایت کرو ۔ (لوقا) بنی اسرائیل کے بگڑے ہوئے علماء ‘ فریسی اور صدوقی ان کے پاس بپتسمہ لینے کے لئے آئے تو ان کو ڈانٹ کر کہا کہ اے سانپ کے بجو ! تم کو کس نے جتا دیا کہ آنے والے غضب سے بھاگو۔۔۔۔۔ اب درختوں کی جڑوں پر کلہاڑا رکھا ہوا ہے پس جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے ، (متی) ان کے قتل کا حکم بادشاہ وقت کی مرضی کے خلاف فتوی صادر کرنے کے باعث ہوا۔ (متی لوقا ، اور مرقس) ان اشارات کی روشنی میں سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کی زندگی کے حالات کا ایک مختصر مضمون بھی درج کیا گیا ہے جو اس جگہ پیش خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں۔ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت : قرآن کریم میں سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کا ذکر ان ہی سورتوں میں آیا ہے جن میں زکریا (علیہ السلام) کا ذکر ہے یعنی آل عمران ، الانعام ، مریم اور الانبیاء میں۔ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) ، زکریا (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں اور انہی کی دعاؤں کا ثمرہ ۔ آپ کا نام بھی اللہ تعالیٰ ہی کا فرمایا ہوا ہے اور ایسا نام فرمایا جو اس سے پہلے کسی دوسرے کا نام نہیں تھا ۔ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) اور سیدنا عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا اپنی اپنی ماؤں کے رحم میں استقرار تقریبا ایک ہی زمانہ میں ہوا کیونکہ آپ دونوں کی عمروں میں صرف چھ ماہ کا فرق ہے گویا سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے چھ ماہ بڑے ہیں ۔ (فتح الباری ج 6 ص 364) یہی بات انجیل میں ہے کہ جب زکریا (علیہ السلام) کی بیوی الیشبع کو حاملہ ہوئے چھ ماہ گزر گئے تب جبریل فرشتہ مریم (علیہ السلام) پر ظاہر ہوا اور اس نے دوسرے فرشتوں کی معیت میں مریم (علیہ السلام) کو عیسیٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری دی اور کہا : ” دیکھو تیری رشتہ دار الیشبع کے بھی بڑھاپے میں بیٹا ہونے والا ہے اور اب اس کو جو بانجھ کہلاتی تھی چھٹا مہینہ ہے۔ “ (لوقا 1 : 26) اور اس طرح کی اور بھی کتنی پیش گوئیاں ہیں جن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دونوں بزرگوں کی عمروں کا فرق تقریبا چھ ماہ کا ہے ۔ زکریا (علیہ السلام) نے جب بیٹے کے لئے دعا کی تھی تو اس میں فرمایا تھا کہ وہ ” ذریت طبیہ “ ہو چناچہ قرآن کریم نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمایء اور یحییٰ (علیہ السلام) کی بشارت سنتے ہی فرما دیا کہ وہ نیکوں کے سردار اور زہد وورع میں بےمثال ہوں گے ‘ پارسائی میں ضرب المثل ہوں گے کہ ان کے دل میں کبھی کسی گناہ کی بشارت دیں گے اور ان کے لئے راستہ ہموار کریں گے ، قرآن کریم کے الفاظ میں آپ کو ” سید “ ” کلمۃ اللہ کا مصداق “ ” حصور “ اور ” نبی “ قرار دیا گیا اور ان کا نام بھی ” یحییٰ “ بتایا گیا ہے ۔ تفاسیر اور کتب سیر میں ان سارے خطابات کے مختلف اور طرح طرح کے معنی کئے گئے ہیں اور ایک دو کے سوا باقی آپ پر صادق آتے ہیں اور جن ایک دو کی ہم نے نفی کی ہے یہ ہمارا خیال ہے مثلا ” سید “ کے معنی کئے گئے ہیں حلیم ‘ علیم ‘ فقیہ ‘ صوفی ‘ دین و دنیا کا سردار ‘ شریف وپرہیزگار اور اللہ کے نزدیک پسندیدہ اور برگزیدہ ۔ اپنی اپنی جگہ سب صحیح اور درست ہیں اور خصوصا آخری معنی ” اللہ کے نزدیک پسندیدہ اور برگزیدہ “ تو ظاہر ہے کہ یہ معنی اوپر کے سب معانی کو اپنے اندر سمیٹ لیتے ہیں ۔ (حصورا) کے متعلق کہا گیا کہ ” وہ شخص جو اپنے نفس پر پوری طرح قابو رکھنے کی طاقت رکھتا ہو ۔ “ ” جو شخص خواہشات نفس کو روک سکتا ہو ۔ “ جو شخص قوت مردمی سے محروم کردیا گیا ہو۔ “ ” جس شخص میں شہوت موجود ہی نہ ہو۔ “ ہم نے جن معنوں کو آخر میں تحریر کیا ہے مفسریں وسیر والوں نے ان کو سب سے پہلے نوٹ کیا ہے ۔ چونکہ ہمارے نزدیک یہ معنی صحیح نہیں ہیں اس لئے ہم نے ان کو آخر میں رکھا ، رہی یہ بات کہ یہ معنی کیوں صحیح نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ محض اس لئے کہ ایک انسان کے لئے یہ معنی اس کی مدح نہیں کہلا سکتے عیب ہو سکتے ہیں اور قرآن کریم نے سارا بیان مدح میں دیا ہے نہ کہ آپ کے عیب بتائے ہیں ، پھر مدح کے اندر عیب کیوں ؟ یہ بات ہم ہی نے نہیں کہی ہم سے پہلے قیاضی عیاض (رح) نے ” شفا “ میں اور خفا جی (رح) نے اس کی شرح ” نسیم الریاض “ میں واضح الفاظ میں کہہ دی ہے اور ان اقوال کو باطل ٹھہرایا ہے جو فی الواقعہ باطل ہیں ۔ یہ تصور کیوں پیدا ہوا ؟ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) نے شادی نہیں کی ، اس کا ثبوت کیا ہے ؟ یہی کہ ان کی شادی کا قرآن کریم نے ذکر نہیں کیا اور نہ ہی ان کی کوئی اولاد بتائی ہے ، کیا قرآن کریم نے ان کی شادی کی نفی کی ہے ؟ کیا قرآن کریم اگر کسی نبی کی شادی اور کسی نبی کی اولاد کا ذکر نہ کرے تو اس کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ اس کی شادی نہیں ہوئی یا اس کی اولاد نہیں تھی ؟ یہ وہی بچوں والی باتیں ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں اور پھر بعض لوگوں نے مجرد رہنا اور اولاد کا پیدا نہ کرنا خوبی کی بات سمجھ لیا حالانکہ اسلام کی نظر میں یہ کبھی خوبی نہیں تسلیم کی گئی یہ سب خیالات ادہام پرستوں کے وہم ہیں جن کے لئے کوئی دلیل پیش نہیں کی جاسکتی بلکہ یہ بات اتنی غلط اور جھوٹ ہے جتنا کہ ” گدھے کے سر پر سینگ۔ “ ہاں ! بقائے قوت کے باوجود اس پر قابو پانے کے لئے لوگوں میں ہمیشہ دو ہی طریقے رہے ہیں ایک یہ کہ تجرد وتبتل کی زندگی اختیار کر کے مجاہدات وریاضات کے ذریعہ ہمیشہ اس قوت کو دبایا جائے یہاں تک بالکل فنا ہوجائے رہی یہ بات کہ اس طرح یہ قوت کسی کی فنا ہوئی یا نہیں ؟ اگر ہوئی تو کیسے ؟ اللہ جانے یا مجرد رہنے والے ۔ دوسرا طریقہ یہ رہا کہ اس کو اس قدر قابو میں رکھے جائے اور اس پر ضبط کیا جائے کہ وہ کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی بےمحل حرکت میں نہ آئے بلکہ بےمحل آنے کا خطرہ تک باقی نہ رہے لیکن بقاء نسل انسانی کے لئے صحح طریق کار کے ذریعہ ” تاہل “ زندگی اختیار کی جائے اور زدواجی فرائض بطریق احسن پورے کئے جائیں ۔ پہلا طریقہ اسلام کی نظر میں کبھی محمود نہیں بتایا گیا ۔ آدم (علیہ السلام) سے لے کر خاتم النبین محمد رسول اللہ ﷺ تک کسی ایک نبی ورسول نے بھی یہ طریقہ استعمال نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے اس کی کوئی خوبی بیان کی ۔ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف اس کو منسوب کیا گیا لیکن منسوب کرنے والوں نے سوائے ” وہم “ اور ” بناوٹ “ کے کوئی دلیل پیش نہ کی اور نہ ہی کرسکتے ہیں اور اس طرح کے نن ‘ منک ‘ گرو ‘ ملنگ اور سادھو جتنے بھی ہوئے ان کی داستانیں جھوٹ کے پلندہ کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ اور ان کی پارسائی کی ساری داستانیں فرضی اور بناوٹی ہیں تاہم اگر کسی اللہ کے بندے کو کوئی ایسا موقع ہی میسر نہیں آیا اس لئے اس نے اس مجبوری کے تحت زندگی کے دن پورے کردیئے تو وہ بلاشبہ اس کی خوبی تھی لیکن مجبوری ومعذری تو بہرحال ممکن ہے پھر مجبوری ومعذوری کو مجبوری اور معذوری ہی سمجھنا چاہئے اور دوسرا طریقہ ہی وہ طریقہ ہے جو اسلام کی نظر میں محمود ہے اور اس کی تعریف کی گئی ہے اور یہی طریقہ فطرت انسانی اور حیات اجتماعی کے لئے ضروری ہے اور سارے انبیائے کرام اور رسل عظام نے اسی طریقہ کو اختیار کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اس طریقہ کی تصدیق کی ہے اور اس کو پسند فرمایا ہے انبیائے کرام کی مجموعی زندگیوں کا مطالعہ کر کے دیکھو سب نے اس کو اختیار کیا اور تجرد وتبتل کو کسی نے پسند نہ کیا اور نبی اعظم وآخر ﷺ کی تعلیم اور آپ ﷺ کا ذاتی عمل اسی طرح کار کی تائید کرتے ہیں اور پھر جب کہ آپ ﷺ کی بعثت (کافۃ للناس) تمام عالم کے لئے ہے تو ایسی صورت میں آپ ﷺ کے لائے ہوئے ” دین فطرت “ میں اس کو برتری حاصل ہوئی ۔ چناچہ آپ نے متعدد شعبہ ہائے حا ات میں اس حقیقت کی جانب توجہ دلائی ہے کہ دنیا کے معاملات سے جدا ہو کر پہاڑوں کے غاروں اور بیابانوں میں زندگی گزارنے والوں کے مقابلہ میں اس شخص کا مرتبہ زیادہ بلند ہے جو دنیوی زندگی میں مقید رہ کر ایک لمحہ کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرے اور قدم قدم پر اس کے احکام کی پیروی کرے ۔ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کی ولادت باسعادت کی بشارت کے بعد قرآن کریم نے سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کے بچپن کے سارے واقعات کو نظر انداز کرکے جو اس کے مقصد سے غر متعلق تھے یہ ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یحییٰ کو حکم دیا کہ وہ اس کے قانون (توراۃ) پر مضبوطی سے عمل کریں اور اس کے مطابق لوگوں کو ہدایت دیں ، واضح ہوگیا کہا اگر قرآن کریم نے کسی بات کو بیان نہیں کیا جب کہ اس کے ساتھ ہر انسان کا واسطہ پڑتا ہے اور وہ سارے انسانوں میں مشترک ہے تو قرآن کریم کے ذکر نہ کرنے کے باعث یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ بات اس انسان پر گزری ہی نہیں کیونکہ قرآن کریم نے ذکر نہیں کیا اگر گزری ہوتی تو قرآن کریم اس کا ضرور ذکر کرتا ہر پیدا ہونے والے انسان پر بچپن آتا ہے اور اس کو بچپن کے دور سے گزر کر جوانی کی طرف جانا ہوتا ہے اور اس طرح ہوتا آیا ہے ‘ ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا حتی کہ اللہ تعالیٰ کو بدل دے وہ دوسری بات ہے ۔ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) جب سن رشد کو پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ توراۃ کے احکامات کی تبلیغ کریں اس لئے کہ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) نبی تھے ‘ رسول نہ تھے اور قرآن کریم نے اس بات کو بھی واضح کردیا کہ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کی زندگی نبوت کے منصب کے مطابق گزری اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر خاص فضل یہ کیا کہ دوسرے انبیاء کے مقابلہ میں کم عمری میں نبوت کے عہدہ پر فائز کردیا اور یہی وجہ ہے کہ مفسرین اور سیرنگاروں نے آپ کو تیس سال کی عمر میں نبوت عطا کردیئے جانے کا بیان کیا ہے اور یہی صحیح ہے ۔ (آیت) ” واتینہ الحکم صبیا “۔ کے یہی معنی ہیں جیسا کہ عبداللہ بن مبارک (رح) نے معمر (رح) سے نقل کیا ہے ۔ (تاریخ ابن کثیر ج 2) اور جس شخص نے اس سے یہ مراد لی ہے سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) بچپن ہی میں نبی بنا دیئے گئے تھے صحیح نہیں کہا اس لئے کہ منصب نبوت جیسا اعلی اور اہم نصب کسی کو بھی صغر سنی میں عطا ہونا نہ عقل کے نزدیک درست ہے اور نہ نقل سے یہ ثابت ہے اور رہا علم الہی کا معاملہ تو اس میں تو ہرچیز محفوظ ومعلوم ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف حضرت سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کو جو سلامتی کی دعا دی گئی ہے کہ : (آیت) ” سلام علیہ یوم ولد ویوم یموت ویوم یبعث حیا “۔ ” اس پر سلام ہو جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرا اور جس دن پھر زندہ کیا جائے گا ۔ “ یہ دعا تین اوقات کی تخصیص کے ساتھ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انسان کے لئے یہی تین اوقات سب سے زیادہ نازک اور اہم ہیں وقت ولادت جس میں رحم مادر سے جدا ہو کر عالم دنیا میں آتا ہے اور وقت موت کہ جس میں عالم دنیا سے وداع ہو کر عالم برزخ میں پہنچتا ہے اور وقت حشر ونشر کے جس میں عالم قبر وبرزخ سے عالم آخرت میں اعمال کی جزا وسزا کے لئے پیش ہونا ہے لہذا جس شخص کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان تینوں اوقات کے لئے سلامتی کی بشارت مل گئی اس کو سعادت داریں کا کل ذخیرہ مل گیا ۔ (آیت) ” فطوبی لہ وحسن ماب “۔ روایات میں آتا ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے یحییٰ (علیہ السلام) بن زکریا (علیہما السلام) کو پانچ باتوں کا خصوصیت کے ساتھ حکم دیا کہ وہ خود بھی ان پر عامل ہوں اور بنی اسرائیل کو بھی ان کی تلقین کریں چناچہ انہوں نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس میں جمع کیا اور جب مسجد بھر گئی تو وعظ وبیان فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے باتوں کا حکم دیا ہے کہ میں خود بھی ان پر عمل کروں اور تم کو عمل کی تلقین کروں اور وہ پانچ باتیں درج ذیل ہیں : 1۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو اور نہ کسی کو اس کا شریک وسہیم ٹھہراؤ کیونکہ مشرک کی مثال اس غلام کی سی ہے جس کو اس کے مالک نے اپنے روپیہ سے خریدا مگر غلام نے یہ وطیرا اختیار کر اختیار کرلیا کہ جو کچھ کماتا ہے وہ مالک کے سوا ایک دوسرے شخص کو دے دیتا ہے تو اب بتاؤ کے تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرے گا کہ اس کا غلام ایسا ہو ؟ لہذا سمجھ لو کہ جب اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا اور وہی تم کو رزق دیتا ہے تو تم بھی صرف اس کی پرستش کرو اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ۔ 2۔ یہ کہ تم خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرو کیونکہ جب تک تم نماز میں کسی دوسری جانب متوجہ نہ ہوگے اللہ تعالیٰ برابر تمہاری جانب رضا ورحمت کے ساتھ متوجہ رہے گا ۔ 3۔ یہ کہ روزہ رکھو اس لئے کہ روزہ دار کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ایک جماعت میں بیٹھا ہو اور اس کے ساتھ مشک کی تھیلی ہو چناچہ مشک اس کو بھی اور اس کے رفقاء کو بھی اپنی خوشبو سے مست کرتا رہے گا اور روزہ دار کے منہ کی بو کا خیال نہ کرو اس لئے کہ اللہ کے نزدیک روزہ دار کے منہ کی بو مشک کی خوشبو سے زیادہ پاک ہے ۔ 4۔ یہ کہ مال میں سے صدقہ نکالا کرو کیونکہ صدقہ کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جس کو اس کے دشمنوں نے اچانک آپکڑا ہو اور اس کے ہاتھوں کو گردن سے باندھ کر مقتل کی جانب لے چلے ہوں اور اس ناامیدی کی حالت میں وہ یہ کہے کیا یہ ممکن ہے کہ میں مال دے کر اپنی جان چھڑا لوں ؟ اور اثبات میں جواب پا کر اپنی جان کے بدلے سب دھن دولت قربان کر دے ۔ 5۔ یہ کہ دن رات میں کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے رہا کرو کیونکہ ایسے شخص کی مثال اس شخص کی سی ہے جو دشمن سے بھاگ رہا ہو اور دشمن تیزی کے ساتھ اس کا تعاقب کر رہا ہو اور بھاگ کر وہ کسی مضبوط قلعہ میں پناہ گزیں ہو کر دشمن سے محفوظ ہوجائے بلاشبہ انسان کے دشمن ” شیطان “ کے مقابلہ میں ذکر اللہ کے اندر مشغول ہوجانا محکم قلعہ میں محفوظ ہوجانا ہے ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی جانب متوجہ ہو کر ارشاد فرمایا میں تم کو ایسی پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے یعنی ” لزوم جماعت “ ” سمع “ اور ” اطاعت “ ” ہجرت “ اور ” جہاد فی سبیل اللہ “ پس جو شخص جماعت سے ایک بالشت باہر نکل گیا اس نے بلاشبہ اپنی گردن سے اسلام کی رسی کو نکال دیا مگر یہ کہ جماعت کا لزوم اختیار کرے اور جس شخص نے جاہلیت کے دور کی باتوں کی طرف دعوت دی تو اس نے جہنم کو ٹھکانا بنا لیا ، حارث اشعری کہتے ہیں کہ کہنے والے نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اگرچہ وہ شخص نماز ‘ روزہ کا پابند ہی ہو ‘ تب بھی جہنم کا سزاوار ہے ؟ فرمایا ہاں ! اگرچہ وہ نماز روزہ کا پابند بھی ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ میں مسلمان ہوں تب بھی سزاوار جہنم ہے ۔ (البدایہ والنہایہ ج 2 ص 52) بارگاہ ایزدی میں عرض پرداز ہوتے ہوئے آنسوؤں کا نکل آنا بلاشبہ خضوع وخشوع کی مستحسن صورت ہے لیکن اس کا مطلب یہ لے لینا کہ کوئی شخص گھر بار کو چھوڑ کر اور دنیوی علائق ختم کر کے باہر جنگ کی طرف نکل جائے اور آوارہ پھرتا رہے ‘ کبھی روئے ‘ کبھی ہنسے اور فقط اپنے حال میں مست رہے نہ یہ کسی شریعت میں مستحسن تھا اور نہ ہی اسلام نے اس کی تلقین کی ہے لیکن ایسی باتیں گزشتہ قوموں میں بھی تھیں اور قوم مسلم میں بھی پائی جاتی ہیں اور خصوصا جو شخص یہ عمل کرے اس کو بڑے سمجھدار ‘ عقل وفکر والے اور پڑھے لکھے لوگ بہت اچھی نظر سے دیکھتے اور ان کی زیارت کو ثواب جانتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ جس چیز کا نہ اللہ حکم دے اور نہ اللہ کا رسول اور نہ ہی قرآن کریم میں اس کا درس دیا گیا ہو وہ کام اچھا کیسے ہو سکتا ہے اور اس کا کرنے والا ” محسن “ کیسے ہوگیا ؟ بلکہ یہ تو ایک قابل مذمت بات ہوئی ۔ لیکن افسوس کہ ایسے اعمال جو یہود میں تھے اور یہود میں سے جو لوگ مسلمان ہوئے انہوں نے اس طرح کی روایات بیان کیں اور ہمارے علمائے اسلام اور سیر نگاروں نے وہی واقعات ان سے لے کر سیرت کی کتابوں اور قرآن کریم کی تفاسیر میں ان کو بھردیا اور آج وہی باتیں عوام و خواص میں ان کتابوں میں درج ہونے کے باعث اسلام کی باتیں سمجھی جاتی ہیں اور مصنوعی صوفی ‘ ملائیت پیشہ لوگ اور واعظ حضرات انہی باتوں کو بیان کرکے جہالت کی تبلیغ کرتے رہتے ہیں اور جاہل ان کو سن سن کر سردھنتے اور عش عش کر اٹھتے ہیں اور ان لوگوں کی خوب پذیرائی کرتے ہیں یہ باتیں اس جگہ اس لئے بیان کرنی پڑیں کہ اسرائیلیات میں یحییٰ (علیہ السلام) کے متعلق بہت سی ایسی دور از قیاس باتیں معروف ہیں مثلا تحریر ہے کہ ” یحییٰ (علیہ السلام) کی زندگی کا بہت بڑا حصہ صحرا میں بسر ہوا ‘ وہ جنگلوں میں خلوت نشین رہتے اور درختوں کے پتے اور ٹڈیاں ان کی خوراک تھی اور وہیں ان پر اللہ کا کلام نازل ہوا تب انہوں نے دریائے یرون کے نواح میں دین الہی کی منادی شروع کردی اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے ظہور کی بشارت دینے لگے لوق کی انجیل میں اس کی تائید اس طرح ہوتی ہے کہ : ” اس وقت خدا کا کلام بیابان میں زکریا کے بیٹے یوحنا (یحییٰ علیہ السلام) پر اترا اور وہ یرون کے سارے گرد ونوح میں جا کر گناہوں کی معافی کے لئے بپتسمہ (اصطباغ) کی منادی کرنے لگا۔ “ (لوقا 1 : 1) اسی طرح ابن عساکر نے بھی وہب بن منبہ ؓ سے چند روایات نقل کی ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کی خشیت اس درجہ تھی کہ وہ اکثر روتے رہتے تھے حتی کہ ان کے رخساروں پر آنسوؤں کے نشانات پڑگئے تھے ، چناچہ ایک مرتبہ ان کے والد زکریا (علیہ السلام) نے ان کو جنگل میں تلاش کرکے پا لیا تو ان سے فرمایا ” ہم تو تیری یاد میں مضطرب تجھ کو تلاش کر رہے ہیں اور تو یہاں آہ وگریہ میں مشغول ہے ؟ تو یحییٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا اے باپ ! تم نے مجھ کو بتایا تھا کہ جنت اور جہنم کے درمیان ایک ایسا لق ودق میدان ہے جو خدا کی خشیت میں آنسو بہائے بغیر طے نہیں ہوتا اور جنت تک رسائی نہیں ہوتی یہ سن کر زکریا (علیہ السلام) بھی رونے لگے ۔ “ (البدایہ والنہایہ ج 2 ص 53) غور کیجئے کہ قرآن کہ قرآن کریم کی وہ دعا جو زکریا (علیہ السلام) نے بیٹے کی طلب میں کی تھی اس میں کیا طلب کیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے کیسا بیٹا عطا کرنے کی پیش گوئی کی تھی اور واقعہ نگاروں نے اس کو کیا بنا دیا ؟ کیا نبی ہونے کے بعد وہ جنگلوں میں پھرتے رہے ؟ کیا ان کی نبوت دریا کے کنارے والوں ہی کے لئے تھی ؟ وہ تبلیغ جو یحییٰ (علیہ السلام) نے قوم کو کی جس کا ذکر پیچھے کیا گیا وہ دریا کے کنارے پر کی گئی تھی ؟ لیکن سیرت نگاروں نے وہ واقعات بھی نقل کردیئے اور یہ بھی لکھ دیئے تاکہ وہ طبقہ بھی خوش ہوجائے جو شریعت کے مطابق عمل کرنے کا عادی ہے اور وہ بھی جو آوارہ پھرنے جنگلوں کی خاک چھاننے میں نجات پانے کو مانتا اور تسلیم کرتا ہے حالانکہ نبوت کا کام قوم کی تعلیم وتربیت کرنا ہے اور پھر جتنی قوم اکھڑ تھی نبوت کی اتنا ہی زیادہ زور دار طریقہ سے پیغام رسالت پہنچانا ضروری تھا مثلا نوح (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) کی سوانح عمری کو ایک بار غور سے پڑھو تو تم پر بات واضح ہوجائے گی ۔ بعض سیرنگاروں نے وضاحت کی ہے کہ عین جوانی کے عالم میں یحییٰ (علیہ السلام) کو قوم نے قتل کیا اور اس وقت ابھی زکریا (علیہ السلام) زندہ تھے لیکن یہ بات بھی قرآن کریم کی وضاحت کے خلاف ہے کہ زکریا (علیہ السلام) کی موجودگی میں ہی قتل ہوگئے ہیں کیونکہ زکریا (علیہ السلام) کی دعا کی تکمیل اس صورت میں نہیں ہوتی ۔ یحییٰ (علیہ السلام) کی شہادت کا واقعہ اس طرح لکھا گیا ہے کہ : یحییٰ (علیہ السلام) نے جب اللہ کے دین کی منادی شروع کردی اور لوگوں کو یہ بتانے لگے کہ مجھ سے بڑھ کر ایک اللہ کا رسول آنے والا ہے تو یہود کو ان کے ساتھ دشمنی اور عداوت پیدا ہوگئی اور ان کی برگزیدگی ومقبولیت اور منادی کو برداشت نہ کرسکے اور ایک دن ان کے پاس جمع ہو کر آئے اور دریافت کیا کیا تو مسیح ہے ؟ اس نے کہا نہیں ‘ تب انہوں نے کہا کیا تو وہ نبی ہے ؟ اس نے نہیں ‘ کیا تو ایلیا نبی ہے ؟ اس نے کہا ‘ تب ان سب نے کہا پھر تو کون ہے ؟ جو اس طرح منادی کرتا ہے اور ہم کو دعوت دیتا ہے ؟ یحییٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا میں جنگل میں پکارنے والے کی ایک آواز ہوں جو حق کے لئے بلند کی گئی ہے یہ سن کر یہودی بھڑک اٹھے اور آخر کار ان کو شہید کردیا ۔ “ اور ابن عساکر نے ” المستقصی فی فضائل الاقصی “ میں حضرت معاویہ ؓ کے مولی قاسم سے ایک طویل روایت نقل کی ہے ‘ جس میں یحییٰ (علیہ السلام) کی شہادت کا واقعہ اس طرح مذکورہ ہے کہ دمشق کے بادشاہ ہدادبن حذاء نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں اور وہ چاہتا تھا کہ اس کو واپس کر کے بیوی بنا لے اس نے یحییٰ (علیہ السلام) سے فتوی طلب کیا انہوں نے فرمایا اب یہ تجھ پر حرام ہے ملکہ کو یہ بات سخت ناگوار گزری اور یحییٰ (علیہ السلام) کے قتل کے درپے ہوگئی اور بادشاہ کو مجبور کرکے قتل کی اجازت حاصل کرلی اور جب کہ وہ مسجد حبرون میں نماز میں مشغول تھے کہ ان کو قتل کرا دیا اور چینی کے طشت میں ان کا سر مبارک سامنے منگوایا مگر اس حالت میں بھی یہی کہتا رہا کہ تو بادشاہ کے لئے حلال نہیں تاوقتیکہ دوسری شادی نہ کرے اور اس حالت میں اللہ کا عذاب آیا اور اس عورت کو مع سرمبارک زمین میں دھنسا دیا ، اس روایت میں یہ بھی ہے جس کی وجہ سے تمام روایت ساقط الاعتبار ہوجاتی ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) کا خون فوارہ کی طرح چلتا رہا اور جسم مبارک سے برابر نکلتا رہا تا آنکہ بخت نصر نے دمشق کو فتح کر کے اس پر ستر ہزار اسرائیلیوں کا خون نہ بہا دیا تب ارمیاہ (علیہ السلام) نے آکر خون کو مخاطب کر کے کہا : اے خون ! کیا اب تو ساکن نہ ہوگا ؟ کتنی مخلوق خدا فنا ہوچکی اب ساکن ہوجا چناچہ اس وقت وہ خون بند ہوا۔ (البدایہ والنہایہ ج 2 ص 55) حافظ ابن حجر (رح) نے اس قصہ کو نقل کرکے فرمایا ہے کہ اس قصہ کی اصل حاکم کی روایت ہے جو انہوں نے مستدرک میں نقل کی ہے لیکن اس روایت کو اگر تاریخ کا کوئی مبتدی طالب علم بھی سنے گا تو وہ بلاترددباطل قرار دے گا ۔ اس لئے کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بخت نصر کا زمانہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ سے صدیوں پہلے ہے پھر یحییٰ (علیہ السلام) کے وقعہ میں بخت نصر کے حملہ دمشق کا جوڑ لگانا کس طرح درست ہو سکتا ہے ؟ اس لئے سخت تعجب ہے کہ حافظ ابن عساکر اور حافظ عماد الدین بن کثیر جیسے صاحب نقد بزرگوں نے اس طرح اس روایت کو نقل کرکے سکوت اختیار فرمایا ، علاوہ ازیں اس روایت میں جس قسم کے عجائب وغرائب بیان کئے گئے ہیں وہ اس وقت تک ہرگز قابل قبول نہیں ہو سکتے جب تک ان کا ثبوت نص صریح سے نہ ہوجائے اور حاکم کی روایت بلحاظ سند بھی محل نظر ہے اور بلحاظ روایت بھی اور اس طرح کی بےسروپا روایات ان کتابوں میں درج ہوجانے سے تاریخ اسلام کا قاری ذرا بھی عقل وفکر سے کام لے تو سخت مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے ۔ علمائے سیر اور تاریخ کا اس میں بھی سخت اختلاف ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) کا واقعہ شہادت کس جگہ پیش آیا ایک قول یہ ہے کہ بیت المقدس میں ہیکل اور قربان گاہ کے درمیان ہوا اور یہ بھی کہ اس جگہ ستر انبیاء شہید کئے گئے ، سفیان ثوری نے ثمر بن عطیہ سے یہی قول نقل کیا ہے اور ابوعبیدہ قاسم بن سلام نے حضرت سعید بن المسیب سے نقل کیا ہے کہ وہ دمشق میں قتل ہوئے اور اس میں بخت نصر کا واقعہ بھی ذکر کیا ہے ، اور ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ جب صحیح ہو سکتا ہے کہ عطاء اور حسن کے اس قول کو تسلیم کرلیا جائے کہ بخت نصر مسیح (علیہ السلام) کا معاصر تھا ، (تاریخ ابن کثیر جلد 4 ص 55) اور ہم ثابت کرچکے ہیں کہ مستند اور صحیح تاریخی شہادتوں سے یہ قول باطل ہے اس لئے کہ بخت نصر مسیح (علیہ السلام) سے صدیوں قبل گزرا ہے جیسا کہ خود ابن کثیر نے بیت المقدس کی تباہی اور عزیر (علیہ السلام) کے واقعات میں اس کو تسلیم کیا ہے ، علاوہ ازیں اس غلط بات کو تسلیم کرلینے کے بعد بھی یہ قول بھی قبول کرلینا ہوگا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے آخر نبی نہیں ہیں اور اس طرح یہ کہ نبی اعظم وآخر ﷺ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان ” فترۃ “ کا زمانہ نہیں ہے بلکہ ارمیاہ ‘ حزقیل ‘ عزیر اور دنیال (علیہم السلام) وغیرہ انبیاء کرام (علیہم السلام) بنی اسرائیل جو مسلمہ طور پر بخت نصر اور اس کے بعد کے زمانہ تک بابل میں قید رہے ان سب کا ظہور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ہوا حالانکہ یہ تمام باتیں باتفاق تارات تاریخی شہادت اور اسلامی روایات کے قطعا غلط اور باطل ہیں ۔ ایک یہ بات کہ یحییٰ (علیہ السلام) کا مقتل بیت المقدس نہیں بلکہ دمشق تھا تو حافظ ابن عساکر کی اس روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جو انہوں نے ولید بن مسلم کی سند سے نقل کی ہے کہ زید بن واقد کہتے ہیں کہ دمشق میں جب عمود سکاس کہ کے نیچے ایک مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا جا رہا تھا تو میں نے خواب میں خود دیکھا کہ مشرقی جانب محراب کے قریب ایک ستون کی کھدائی میں یحییٰ (علیہ السلام) کا سر برآمد ہوا اور چہرہ مبارک حتی کہ بالوں تک میں کوئی فرق نہیں آیا تھا اور خون آلود ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ابھی کاٹا گیا ۔ (تاریخ ابن کثیر ج 2 ص 55) لیکن اگر کوئی پوچھ لے کہ یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ یحییٰ (علیہ السلام) کا سر مبارک ہے اور کسی اور نبی یا صالح مرد کا کیوں نہیں ہو سکتا ؟ کیا سر نے بول کر بتایا تھا کہ میں یحییٰ (علیہ السلام) کا سر ہوں تو شاید اس گستاخی پر اس کو کفر کی سزا ملے ۔ مختصر یہ کہ اس کے بارہ میں کوئی فیصلہ کن شہادت مہیا نہیں ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) کا مقتل کونسا مقام ہے لیکن یہ مسلمات میں سے ہے کہ یہود نے ان کو شہید کردیا اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی شہادت کا علم ہوا تو انہوں نے علی الاعلان اپنی دعوت حق شروع کردی ‘ قرآن کریم نے متعدد جگہ یہود کی فتنہ پردازیوں اور باطل کوشیوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے یہ کہا انہوں نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھی قتل کئے بغیر نہیں چھوڑا جیسے پیچھے سوہ آل عمران کی آیت 21 میں تفصیل سے بیان کرچکے ہیں۔ امام بخاری (رح) نے یحییٰ (علیہ السلام) کے ذکر میں صرف اسراء کی حدیث کے اس ٹکڑے کو بیان کیا ہے جس میں بنی اعظم وآخر ﷺ کا دوسرے آسمان پر ان کے ساتھ ملاقات کرنا مذکور ہے ، روایت میں ہے کہ : ” پس جب میں دوسرے آسمان پر پہنچا تو دیکھا کہ یحییٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) وہاں موجود ہیں اور یہ دونوں خالہ زاد بھائی ہیں ۔ وھما ابناخالہ جبریل (علیہ السلام) نے کہا یہ یحییٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں ان کو سلام کیجئے میں نے ان کو سلام کیا تو دونوں نے سلام کا جواب دیا اور دونوں نے آپ کا آنا مبارک ہو اے ہمارے نیک بھائی اور نیک پیغمبر کے الفاظ کہے یہ بات علمائے کرام ہی سے پوچھ لیں کہ یہ دونوں قتل ہو کر دوسرے ہو کر دوسرے آسمان پر ہیں یا دونوں وفات پا کر یا دونوں زندہ ہیں اور ابھی پھر ان کو آنا ہے یا ایک کو قتل کر اور دوسرے کو زندہ اٹھا کر دوسرے آسمان پر اکٹھا رکھا گیا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو اس میں حکمت کیا ہے ؟ کیا اس ملاقات میں رسول اللہ ﷺ نے ان کے دوبارہ آنے کی کوئی بات بیان کی ہے یا عیسیٰ (علیہ السلام) نے کچھ کہا ہے کہ میں نے تو ابھی آکر آپ کا امتی بننا ہے اور نبوت سے دستبردار ہونا ہے ؟ یا اس طرح کی کوئی اور بات کہی ہے ؟ رہی یہ بات کہ ایشاع یعنی یحییٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ مریم ؓ کیخالہ تھیں یا عیسیٰ (علیہ السلام) کی ؟ تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ جب مریم ؓ کا ذکر آئے تو ان کی خالہ ہوتی ہیں اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) کا بیان آئے تو پھر عیسیٰ (علیہ السلام) کی کوئی ہمارے پاس ان روایات کے سوا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے کہ اس کی وضاحت کرسکیں ۔ ہاں ! بعض مفسرین نے اس معاملہ میں یہ کہا ہے کہ یہ مجاز ہے اور رشتوں میں اس طرح کا مجاز چلتا آیا ہے اور چل رہا ہے اور رائج ہے کہ والدہ کی خالہ کو اولاد بھی خالہ کہا کرتی ہے اور اگر کوئی سوال اٹھائے کہ یہ اولاد نے نہیں کہا بلکہ ایک دوسری شخصیت نے فرمایا ہے تو شاید اس کا جواب کیا ہوگا ؟ یہ واقعہ ہے کہ یہود تو اپنی سرشت کے مطابق یحییٰ (علیہ السلام) کے منکر ہیں مگر نصاری ان کو ” یسوع مسیح کا منادی تسلیم کرتے ہیں اور ان کے والد زکریا (علیہ السلام) کو صرف ” کاہن “ مانتے ہیں اور نصاری ان کا نام یوحنا بیان کرتے ہیں ہوسکتا ہے کہ عبری میں یوحنا کے وہی معنی ہوں جو یحییٰ کے ہیں اور یہ ممکن ہے کی عبری کے یوحنا نے عربی میں یحییٰ کا تلفظ اختیار کرلیا ہو ۔ انجیل لوقا نے بھی قرآن کریم نے بیان کی طرح یہ تصریح کی ہے کہ یہ نام ان کے خاندان میں سے کسی شخص کا ان سے پہلے نہیں تھا اس لئے جب خاندان والوں نے سنا تو تعجب کا اظہار کیا چناچہ لوقا میں ہے کہ : ” اور آٹھویں دن ایسا ہوا کہ وہ لڑکے کا ختنہ کرنے آئے اور اس کا نام اس کے باپ کے نام پر زکریا رکھنے لگے مگر اس کی ماں نے کہا نہیں بلکہ اس کا نام یوحنا رکھا جائے انہوں نے اس سے کہا کہ تیرے کنبے میں کسی کا یہ نام نہیں اور انہوں نے اس کے باپ کی طرف اشارہ کیا کہ تو اس کا نام کیا رکھنا چاہتا ہے ؟ اس نے تختی منگا کر یہ لکھا کہ اس کا نام یوحنا ہے اور سب نے تعجب کیا ، اسی دم اس کا منہ اور زبان کھل گئی اور وہ بولنے اور خدا کی حمد کرنے لگا۔ “ (لوقا 1 : 59 تا 65) اور یحییٰ (علیہ السلام) کی عام رہائش اور زندگی کے متعلق متی کی انجیل میں ہے کہ : ” یوحنا اونٹ کے بالوں کی پوشاک پہنے اور چمڑے کا پٹکا اپنی کمر سے باندھے رہتا تھا اور اس کی خوراک ٹڈیاں اور جنگلی شہد تھا ۔ “ (3 : 4 ، 5) اور یحییٰ (علیہ السلام) کی دعوت وتبلیغ کے متعلق اس طرح لکھا ہے کہ : ” یوحنا کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلم سے ” کاہن “ اور ” لاوی “ یہ پوچھنے کو بھیجے کہ تو کون ہے ؟ تو اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں انہوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے ؟ کیا تو ایلیا ہے ؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں ، کیا تو وہ نبی یعنی منتظر (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں ‘ پس انہوں نے اس سے کہا پھر تو ہے کون ؟ تاکہ ہم اپنے بھیجنے والے کو جواب دیں کہ تو اپنے حق میں کیا کہتا ہے ؟ اس نے کہا میں جیسا کہ یسعیاہ نبی نے کہا ہے بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ سیدھی کرو۔ (یوحنا باب 1 : 19 ‘ 23) اور لوقا کی انجیل میں اس طرح ہے کہ : ” اس وقت خدا کا کلام بیابان میں زکریا کے بیٹے یوحنا پر اترا اور وہ یرون کے سارے گردونواح میں جا کر گناہوں کی معافی کے لئے توبہ کے بپتسمہ کی منادی کرنے لگا جیسا کہ یسعیاہ نبی کی کتاب میں لکھا ہے کہ ” بیابان میں پکارنے والے کی آواز آتی ہے کہ خداوند کی راہ تیار کرو ‘ اس کے راستے سیدھے بناؤ ۔ “ (لوقاباب 3 : 2 تا 5) اور اس انجیل میں ان کی گرفتاری کے متعلق بہ الفاظ مذکور ہیں : ” پس وہ یوحنا اور بہت سی نصیحتیں دے دے کر لوگوں کو خوشخبری سناتا رہا لیکن چوتھائی ملک کے حاکم ہیرودیس نے اپنے بھائی فلپس کی بیوی ہیرودیاس کے سبب اور ان ساری برائیوں کے باعث جو ہیرودس نے کی تھیں یوحنا کی ملامت اٹھا کر ان سب سے بڑھ کر یہ بھی کیا کہ اس کو قد میں ڈالا ۔ “ (لوقا باب 3 : 18 ، 19) اور آگے چل کر اسی انجیل نے ان کی شہادت کے متعلق یہ ذکر کیا ہے کہ : ” اور چوتھائی ملک کے حاکم ہیرودوس سب احوال سن کر گھبرا گیا اس لئے کہ بعض کہتے تھے کہ یوحنا مردوں میں سے جی اٹھا ہے اور بعض یہ کہ ایلیا ظاہر ہوا ہے اور بعض یہ کہ قدیم نبیوں میں سے کوئی جی اٹھا ہے مگر ہیرودیس نے کہا کہ یوحنا کا تو میں نے سر کٹوا دیا ‘ اب یہ مسح کون ہے ؟ جس کی بابت ایسی باتیں سنتا ہوں ۔ “ (9 : 7 ، 9) مندرجہ بالا عبارات سے یہ معلوم ہوا کہ یحییٰ (علیہ السلام) کے متعلق جو کچھ علمائے اسلام نے بیان کیا جیسا کہ اوپر مذکور کیا گیا ہے وہی جو اناجیل میں عیسائیوں نے بیان کیا لیکن قتل کے اشتباہ اور دوبارہ جی اٹھنے کی روایات کو درمیان سے حذف کردیا تاہم اس بات کا فیصلہ نہ ہوسکا کہ یحییٰ (علیہ السلام) فی الواقعہ قتل ہوئے یا طبعی موت مرے اور یہ بات فیصلہ کن نہ ہوسکی کہ یہ واقعہ کہاں پیش آیا ؟ اور اس طرح ان کا فیصلہ نہ ہوسکا کہ جو کچھ ہوا زکریا (علیہ السلام) کی زندگی میں ہوا یا بعد میں ہوا ۔ اس طرح کے واقعات و حالات سے اگرچہ حقیقت بیں نگاہیں خود ہی نتائج اخذ کرلیتی ہیں تاہم یہ چند باتیں خصوصیت کے ساتھ قابل توجہ ہیں : 1۔ دنیا میں اس شخص سے زیادہ شقی اور بدبخت دوسرا کوئی نہیں ہوسکتا جو ایسی مقدس ہستی کو تسلیم ہی نہ کرے جس کو اللہ تعالیٰ نے نبی یا رسول بنا کر بھیجا ہو ، بلاشبہ یہ بات اس وقت تھی جب نبوت کا سلسلہ جاری تھا لیکن اب جب کہ نبوت و رسالت محمد رسول اللہ ﷺ پر ختم کردی گئی اب اس سے زیادہ بدبخت کون ہوگا جو نبوت و رسالت کا دعوی کرے یا وہ جو اس کو نبی ورسول تسلیم کرے ، اس طرح اس وقت تک جب تک نبوت و رسالت جاری تھی کسی نبی ورسول کا قتل یا اس کو ستانے کا پروگرام اس کو دکھ اور تکلیف کا باعث ہونا وغیرہ وغیرہ ۔ 2۔ اقوام عالم میں سب سے بڑھ کر اس شقاوت وبدبختی میں بنی اسرائیل کو ید طولی حاصل رہا ہے اور انہوں نے اپنے پیغمبروں اور نبیوں کے ساتھ جس قسم کی توہین آمیز سلوک کئے اور حتی کہ ان کو قتل کیا اور مختلف طریقوں سے تنگ کیا اس کی مثال دوسری قوموں میں نہیں ملتی ۔ 3۔ انبیاء کرام (علیہم السلام) کے قصص کو جس انداز سے قرآن کریم نے بیان کیا علمائے اسلام نے اس انداز کو سمجھنے کی کوشش نہ کی اور وہی داستانیں ان کے قصص میں بھر دیں جو اہل کتاب کے ہاں مشہور ومعروف تھیں اور تورات وانجیل میں بھی جن کے متعلق صرف اشارات دیئے گئے تھے اور انہی اشارات سے قصص کو اپنی مرضی سے انہوں نے ترتیب دیا اور علمائے اسلام نے مزید اس میں اضافہ ہی کیا کہاں تک ممکن تھا ، پھر جو باتیں مشہور ہوگئیں وہی قرآن اور حدیث سمجھ لی گئیں اور ان پر اسلام کے بنیادی عقائد تشکیل دیئے گئے ۔ 4۔ یحییٰ (علیہ السلام) ایک نبی تھے رسول نہیں تھے تاہم ایک رسول یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری سنانے والے اور آپ کی راہ ہموار کرنے والے تھے اور حالات زندگی بھی تقریبا ایک ہی جیسے ان کو پیش آئے ، یہود نے دونوں کی مخالفت کی اور ایک سے بڑھ کر دوسرے کے مخالفت کی اور جو کچھ وہ کرسکتے تھے اس میں کوئی کسر انہوں نے اٹھا نہ رکھی ۔ 5۔ یحییٰ (علیہ السلام) کی زندگی کے حالات بھی زیادہ تر اسی طرح اندھیرے میں ہیں جس طرح زکریا (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہیں اور تقریبا ان سب حضرات کے واقعات ایک ہی جیسے تھے لیکن ان کے بیان کا طریقہ عیسائیوں کی پیروی میں مختلف طرح سے اختیار کیا گیا ہے ۔ 6۔ یہ بات نہایت ہی قابل افسوس ہے کہ قصص قرآنی کو قرآن کریم کی روشنی میں بیان کرنے کی بجائے اہل کتاب کے ہاں جس طرح وہ مشہور چلے آتے تھے اسی طرح تسلیم کرلیا گیا تاہم اس میں یہ بات خوشی کی بھی رہی کہ اہل اسلام کے ہاں ان شرکیہ باتوں کو جو خصوصا سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق کہی جاتی تھیں ان سے واضح الفاظ میں انکار کیا گیا بلکہ اس کی برائی کو بھی کھل کر بیان کیا گیا اگرچہ جو اپنی غفلت کے باعث شرک کے دروازے کو مکمل طور پر بند نہ ہونے دیا گیا۔ 7۔ یحییٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی جو خصوصیات بالکل ایک جیسی تھیں اگرچہ وہ قریب زمانہ کے باعث تھیں ان کو ایک جیسا نہ رہنے دیا گیا مثلا یحییٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کو ایک ہی جیسے الفاظ بیان کرکے ایک ہی طرح بیان کیا گیا تاکہ دونوں میں مطابقت رہے اس طرح دونوں کے سلسلہ پیدائش کو ایک ہی طرح کے الفاظ سے بیان کیا گیا تاکہ کوئی فرق ظاہر نہ ہو اور اس طرح بیان کیا گیا جس عیسیٰ (علیہ السلام) کے حالات کو بیان کیا اور اس طرح دونوں نبیوں کی وفات کا معاملہ تھا کہ جو فرق تھا اس کو خود قرآن کریم نے واضح الفاظ میں بیان کیا اور تحدی کے طور پر کہا عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہود نہ تو قتل کرسکے اور نہ سولی پر لٹکا سکے اور یہ معاملہ لوگوں پر مشتبہ ہوگیا لیکن اس اشتباہ کو عجیب طرح سے ایک کہانی بنا لیا گیا ۔ آخر میں ہماری اپیل ہے کہ آپ ان مختصر سے مختصر الفاظ میں بیان کئے گئے مضمون کو غور سے پڑھیں ایک بار اور سرسری نظر سے نہیں بلکہ کئی بار اور گہری نظر سے انشاء اللہ العزیز یہ چند سطریں آپ کے لئے بہت بڑی راہنمائی کریں گی بشرطیکہ آپ نے نصیحت حاصل کرنے کی کوشش کی ، اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو حق کے سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔
Top