Urwatul-Wusqaa - Maryam : 71
وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا١ۚ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّاۚ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْكُمْ : تم میں سے اِلَّا : مگر وَارِدُهَا : یہاں سے گزرنا ہوگا كَانَ : ہے عَلٰي : پر رَبِّكَ : تمہارا رب حَتْمًا : لازم مَّقْضِيًّا : مقرر کیا ہوا
اور تم میں کوئی نہیں جو اس منزل سے گزرنے والا نہ ہو ، ایسا کرنا تمہارے پروردگار نے ضروری ٹھہرا لیا ہے ، یہ ایک طے شدہ بات ہے
تیرے رب کے حتمی فیصلہ سے کون ہے جو روگردانی کرے ؟ 71۔ (حتمامقضیا) فیصلہ شدہ بات کو کہا جاتا ہے جس میں ترمیم وتنسیخ کا امکان باقی نہ رہے ۔ (حتم) ایک بات کا لازم کرنا اور ضروری قرار دینا ۔ یہ فیصلہ شدہ بات کیا ہے ؟ یہی کہ تم میں سے شیاطین تھے جن کا ذکر اوپر گزر چکا ان کے متعلق جو کچھ بیان گیا وہ یقینا ہو کر رہے گا اور کوئی نہیں جو اس سے روک سکے گویا کوئی بھی ان کے لیکھ میں میخ نہیں مار سکے گا اور سارے بگڑی بنانے والے اپنے اپنے حال میں مصروف ہوں گے اور اس وقت کسی کی طرف وہ آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی نہ سکیں گے اور اسی طرح تمام کے تمام تعلقات منقطع ہو کر رہ جائیں گے ۔ زیر نظر آیت میں لفظ (منکم) اور (واردھا) پر بہت بحث کی گئی ہے کہ (منکم) سے مراد کون لوگ ہیں اور یہ کہ اس وارد ہونے سے مراد کیا ہے ؟ روایات پر انحصار کرتے ہوئے کچھ مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ (منکم) سے مراد سارے انسان ہیں خواہ وہ مومن ہوں یا کافر نیکو کار ہو یا بدکار اور (واردھا) سے مراد یہ ہے کہ وہ سب دوزخ پر سے گزرنے والے ہی یعنی وہ ” پل صراط “ والی بات جس کے متعلق ملائیت میں معروف ہے کہ وہ تلوار سے تیز اور بال سے باریک ایک کبری یعنی پل ہے جس پر سے تمام لوگوں کو گزرنا ہے اور یہ گزرنا اس لئے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اس پر سے گزرتے وقت جہنم کے مستحق لوگ اس میں گر جائیں گے اور جو جہنم کے مستحق نہیں ہوں گے وہ اس سے صحیح سلامت گزر کر جنت میں داخل ہوجائیں گے ۔ اس سلسلہ میں جتنی روایات بیان کی جاتی ہیں سب کی سب ضعیف وکمزور ہیں اس لئے بعض نے اس تعبیر کو بیان نہیں کیا اور ہی اس کو صحیح خیال کیا ہے اس لئے انہوں نے (منکم) سے تمام انسان مراد نہیں لئے بلکہ وہی لوگ مراد لئے ہیں جو جہنم کے مستحق قرار پائے ہیں اور ان کا ورود دوزخ لازم وضروری قرار پایا ہے اور انہی کے متعلق گزشتہ آیت میں (ھم اولی بھا صلیا) کے الفاظ استعمال کئے گئے اور جگہ مزید زور دے کر فرمایا (کان علی ربک حتما مقضیا) جزائے عمل کا قانون ایک طے شدہ قانون ہے جو کبھی ٹلنے والا نہیں ۔ مختصر یہ کہ روایات اگرچہ ضعیف ہیں تاہم نفس مضمون پر کوئی پر کوئی اثر نہیں پڑتا اگر سارے انسانوں کا ورود تسلیم کرلیا جائے تو بھی ان کا دوزخ میں گرنا تو کسی نے مراد نہیں لیا اور دوزخ پر سے گزر جانے سے کچھ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ ایک طرح کا نظارہ ہوجاتا ہے کہ کون کون مذہبی اور سیاہی لیڈر ہیں جو یہاں گزر بسر کر رہے ہیں اور کون ہیں جن کو اس سے امن و خوبی کے ساتھ گزار دیا گیا اور بلاشبہ خوش نصیب ہیں جو اس امتحان سے کامیاب ہو کر نکل گئے اور کون مکمل طور پر فیل ہوئے ہیں ۔
Top