Urwatul-Wusqaa - Maryam : 72
ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا
ثُمَّ : پھر نُنَجِّي : ہم نجات دینگے الَّذِيْنَ اتَّقَوْا : وہ جنہوں نے پرہیزگاری کی وَّنَذَرُ : اور ہم چھوڑ دینگے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) فِيْهَا : اس میں جِثِيًّا : گھٹنوں کے بل گرے ہوئے
پھر ہم ایسا کریں گے کہ جو متقی ہیں انہیں نجات دے دیں گے جو ظالم ہیں انہیں دوزخ میں چھوڑ دیں گے گھٹنوں کے بل گرے ہوئے
متقی کامیاب ہوں گے اور مشرکین کو دوزخ میں جھونک دیا جائے گا : 72۔ کامیابی کن لوگوں کے قدم چومے گی ؟ فرمایا متقین کے گویا تقوی سارے اسلامی احکام کی غایت ہے اور نبی اعظم وآخر ﷺ کی تمام تعلیمات کا خلاصہ ہم صرف ایک لفظ میں ادا کرنا چاہیں تو بلاشبہ ہم اس کو ” تقوی “ سے ادا کرسکتے ہیں ۔ اسلام کی ہر تعلیم کا مقصد اپنے ہر عمل کے قالب میں اس تقوی کی روح کو پیدا کرنا ہے ۔ قرآن کریم نے اپنی دوسری ہی سورت میں یہ اعلان کیا ہے کہ اس کی تعلیم سے وہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو تقوی والے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم سے مستفید وہی ہوتے ہیں جو متقی ہیں ۔ قرآن کریم متقین کے لئے ہے یا قرآن کریم متقی بناتا ہے ؟ اس کو سمجھنے کے لئے سورة البقرہ کی آیت کی تفسیر دیکھیں جہاں یہ الفاظ آئے ہیں کہ (ھدی اللمتقین) کہ یہ کتاب تقوی والوں کو ہدایت دیتی ہے قرآن کریم کی بتائی ہوئی ساری عبادتوں کا منشا اسی تقوی کا حصول ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا : (آیت) ” یایھا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم والذین میں قبلکم لعلکم تتقون “ (البقرہ : 2 : 21) ” اے لوگو ! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تمہارے پہلوں کو پیدا کیا تاکہ تم تقوی حاصل کرسکو “۔ روزہ سے مقصود بھی یہی تقوی ہے چناچہ ارشاد فرمایا کہ : (آیت) ” کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین میں قبلکم لعلکم تتقون “۔ (البقرہ 2 : 183) ” تم پر روزہ اسی طرح فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تقوی حاصل کرو۔ “ اور حج کا منشا بھی یہی بتایا گیا چناچہ ارشاد ہوا : (آیت) ” ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب “۔ (حج 22 : 32) ” اور جو شخص شعائر اللہ کی عزت کرتا ہے تو یہ دلوں کے تقوی سے ہے ۔ “ اسی طرح قربانی کی غرض وغایت بھی یہی ہے جیسا کہ فرمایا گیا : (آیت) ” لن ینال اللہ لحومھا ولا دمآء ھا ولکن ینالہ التقوی منکم “۔ (الج 22 : 37) ” اللہ تعالیٰ کے پاس قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا لیکن تمہارا تقوی اس کو پہنچتا ہے ۔ “ ایک مسلمان کی پیشانی جس جگہ رب ذوالجلال والاکرام کی بارگاہ میں جھکتی ہے اس کی بنیا بھی تقوی پر ہونا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : (آیت) ” افمن اسس بنیانہ علی تقوی من اللہ “۔ (التوبہ 9 : 109) ” جس نے اس کی عمارت اللہ تعالیٰ کی تقوی پر کھڑی کی ۔ “ اور مزید فرمایا کہ : (آیت) ” لمسجد اسس علی التقوی “۔ (التوبہ 9 : 108) ” البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد تقوی پر قائم کی گئی ۔ “ اس طرح حج کے سفر اور زندگی کے مرحلہ میں راستہ کو توشہ مال و دولت اور سازوسامان سے زیادہ تقوی ہی ہو سکتا ہے جیسا ارشاد خداوندی ہے : (آیت) ” وتزودوا فان خیرالزاد التقوی “۔ (البقرہ 2 : 197) ” اور سفر میں زاد راہ لے کر چلو اور سب سے اچھا زاد راہ تقوی ہے ۔ “ اسی طرح مسلمانوں کی زیب وزینت کا سامان ظاہری لباس سے بڑھ کر تقوی کا لباس ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : (آیت) ” و لباس التقوی ذلک خیر “۔ (الاعراف 7 : 26) ” اور تقوی کالباس ہی سب سے اچھا لباس ہے ۔ “ پھر صرف لباس ہی کیا بلکہ اسلام کا تمام اخلاقی نظام بھی اسی تقوی کی بنیاد پر قائم ہے ۔ ارشاد الہی ہے کہ : (آیت) ” وان تعفوا اقرب للتقوی “۔ (البقرہ 2 : 137) ” اور معاف کردینا تقوی سے قریب تر ہے ۔ “ (آیت) ” اعدلوا ھو اقرب للتقوی “۔ (مائدہ 5 : 8) ” انصاف کرنا بھی تقوی سے قریب تر ہے ۔ “ اور مزید فرمایا : (آیت) ” وان تصبروا وتتقوا فان ذلک من عزم الامور “۔ (آل عمران 3 : 186) ” اور اگر صبر کرو اور تقوی اختیار کرو تو یہ بہت بڑی ہمت کی بات ہے ۔ “ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : (آیت) ” وتتقوا وتصلحوا بین الناس “۔ (البقرہ : 2 : 224) ” اور تقوی اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ “۔ اور ایک جگہ ارشاد الہی اس طرح ہوا کہ : (آیت) ” وان تحسنوا وتتقوا فان اللہ کان بما تعملون خبیرا “۔ (النساء 4 : 128) ” اور اگر اچھے کام کرو اور تقوی اختیار کرو بلاشبہ اللہ تمہارے کاموں باخبر ہے ۔ “ قرآن کریم نے بار بار ارشاد فرمایا ہے کہ آخرت کی ساری نعمتیں ‘ اہل تقوی ہی کے حصہ میں آئیں گی فرمایا : 1۔ (آیت) ” ان المتقین فی مقام امنین “۔ (الدخان 44 : 51) 2۔ (آیت) ” ان المتقین فی جنت ونعیم “۔ (الطور 52 : 17) 3۔ (آیت) ” ان المتقین فی جنت وعیون “۔ (الذاریات 51 : 15) 4۔ (آیت) ” ان المتقین فی جنت ونھر “۔ (القمر 54 : 54) ۔ 5۔ (آیت) ” ان المتقین فی ضلل وعیون “۔ (المرسلات 77 : 41) 6۔ (آیت) ” ان للمتقین عند ربھم جنت النعیم “۔ (ن 68 : 34) 7۔ (آیت) ” ان للمتقین مفازا “۔ (النباء 78 : 31) 8۔ (آیت) ” ان للمتقین لحسن ماب “۔ (ص ٓ 38 : 49) ۔ 1۔ ” بلاشبہ تقوی والے امن وامان کی جگہ میں ہوں گے ۔ “ 2۔ ” بلاشبہ تقوی والے باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے ۔ “ 3۔ ” بلاشبہ تقوی والے باغوں میں اور چشموں میں ہوں گے ۔ “ 4۔ ” بلاشبہ تقوی والے باغوں میں اور نہروں میں ہوں گے ۔ “ 5۔ ” بلاشبہ تقوی والے سایوں میں اور چشموں میں ہوں گے ۔ “ 6۔ ” بلاشبہ تقوی والے کے لئے انکے پروردگار کے پاس نعمتوں والے باغات ہیں ۔ ‘ ؓ 7۔ ” بلاشبہ تقوی والوں کے لئے کامیابی ہے ۔ “ 8۔ ” بلاشبہ تقوی والوں کے لئے باز گشت کی اچھائی ہے ۔ “ بظاہر ابتداء میں اہل تقوی کو کس قدر مصیبتیں اور بلائیں پیش آتی ہیں اور بہت سی حرام اور مشتبہ جو بظاہر عمدہ چیزیں معلوم ہوتی ہیں ان سے محروم ہونا پڑتا ہے ، ظاہری کامیابی کی بہت سی ناجائز کوششوں اور ناروا راستوں سے پرہیز کرنا بھی پڑتی ہے اور اس سے بظاہر ان کو مال و دولت اور عزت وشرف جاہ و جلال ‘ شہرت ‘ مشہوری اور جاہ ومنصب سے محروم ہونا پڑتا ہے لیکن دنیا کی تنگ نظر لوگ صرف فوری اور جلدی کامیابی کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اس دنیا کے ظاہری ثمروں پر کام کے اچھے اور برے نتیجوں کا فیصلہ کرنا لینا چاہئے حالانکہ جو شخص جتنا دور بین ہے اسی قدر وہ اپنے کام کے فوری نہیں بلکہ آخری نتیجہ پر نگاہ رکھتا ہے ۔ حقیقی دوربیں اور عاقبت اندیش وہ ہیں جو کام کی اچھائی ، برائی کا فیصلہ دنیا کے ظاہری چند روزہ اور فوری فائدہ کے لحاظ سے نہیں بلکہ آخر کے دائمی اور دیرپا فائدہ کی بنا پر کرتے ہیں اور جب ان کی نظر آخرت کے ثمروں پر رہتی ہے تو دنیا بھی یقینا ان کی بن جاتی ہے اگرچہ دیر سے بنے اور یہاں اور وہاں دونوں جگہ کامیابی اور فوز و فلاح انہیں کی قسمت میں آتی ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے کہ : (آیت) ” والعاقبۃ للمتقین “۔ (الاعراف 7 : 128) (آیت) ” ان العاقبۃ للمتقین “۔ (ھود 11 : 49) (آیت) ” والاخرۃ عند ربک للمتقین “۔ (الزخرف 43 : 35) ” اور آخری انجام تقوی والوں کے لئے ۔ “ ” بلاشبہ انجام کار تقوی والوں کے لئے ہے ۔ “ ” اور آخرت تیرے پروردگار کے نزدیک تقوی والوں کے لئے ہے ۔ “ اور یہی بات زیر نظر آیت میں بیان کی گئی ہے جس کی یہاں تفسیر کی جارہی ہے ۔ تقوی کا بیان بہت وسیع ہے اور اس کے مشتقات قرآن کریم میں بار بار بیان کئے گئے ہیں ۔ تقوی اصل میں ” وقوی “ تھا جو قاعدہ کے مطابق تقوی ہوگیا عربی میں اس کے معنی بچنے ‘ پرہیز کرنے اور لحاظ کرنے کے ہیں لیکن قرآن کریم کی اصطلاح میں یہ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہمیشہ حاضر وناظر ہونے کا یقین پیدا کرکے دل میں خیروشر کی تمیز کی خلش اور خیر کی طرف رغبت اور شر سے نفرت پیدا کردیتی ہے جس کو دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ ضمیر کے اس احساس کا نام ہے جس کی بنا پر ہر کام میں خدا کے حکم کے مطابق عمل کرنے کی شدید رغبت اور اس کی مخالفت سے شدید نفرت پیدا ہوتی ہے ، یہ بات کہ تقوی اصل میں دل کی اس کیفیت کا نام ہے قرآن کریم کی اس آیت سے ظاہر ہے جو ارکان حج کے بیان کے موقع پر ہے کہ ” اور جو شائر الہی کی تعظیم کرتا ہے تو وہ دلوں کے تقوی سے ہے ۔ “ (حج 22 : 32) اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ تقوی کا اصلی تعلق دل سے ہے اور وہ سلبی کیفیت کی بجائے ایجابی اور ثبوتی کیفیت اپنے اندر رکھتا ہے وہ امور خیر کی طرف دلوں میں تحریک پیدا کرتا اور شعائر الہی کی تعظیم سے انکو معمور کرتا ہے اور یہ بات نبی اعظم وآخر ﷺ نے ارشاد فرمائی کہ ” التقوی ھھنا “ (مسلم) تقوی یہاں سے اور یہ کہہ کر دل کی طرف اشارہ فرمایا جس سے روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ تقوی دل کی پاکیزہ ترین اور اعلی ترین کیفیت کا نام ہے جو تمام نیکیوں کی محرک ہے اور وہی مذہب کی جان ہے اور دینداری کی اصل روح ہے ۔ زیر نظر آیت میں تقوی کے مقابلہ میں مشرکین کو رکھا گیا ہے کہ متقین جب کامیاب وکامران ہو کر جنت میں داخل ہوجائیں گے تو مشرکین کو دوزخ میں جھونک دیا جائے گا ۔ (آیت) ” ونذرالظلمین فیھا جثیا “۔ اور وہ گھٹنوں کے بل گریں گے گویا ان کو دھکے دے کر گرایا جائے گا ۔ ” استغفر اللہ ۔ استغفر اللہ اللھم لا تجعلنامنھم “۔
Top