Urwatul-Wusqaa - Maryam : 76
وَ یَزِیْدُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اهْتَدَوْا هُدًى١ؕ وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ مَّرَدًّا
وَيَزِيْدُ : اور زیادہ دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اهْتَدَوْا : جن لوگوں نے ہدایت حاصل کی هُدًى : ہدایت وَالْبٰقِيٰتُ : اور باقی رہنے والی الصّٰلِحٰتُ : نیکیاں خَيْرٌ : بہتر عِنْدَ رَبِّكَ : تمہارے رب کے نزدیک ثَوَابًا : باعتبار ثواب وَّخَيْرٌ : اور بہتر مَّرَدًّا : باعتبار انجام
اور جن لوگوں نے راہ پا لی تو وہ ان پر اور زیادہ راہ کھول دیتا ہے اور تمہارے پروردگار کے حضور تو باقی رہنے والی نیکیاں بہت ہیں ثواب کے اعتبار سے بھی اور نتیجہ کے اعتبار سے بھی
ہاں ! جو لوگ سیدھی راہ اختیار کرلیتے ہیں اللہ ان کی مدد کرتا ہے : 76۔ یہ آیت گذشتہ آیت کے مقابلہ میں نازل ہوئی جس نے قومی ترقی کے دونوں باوؤں کی وضاحت فرما دی اور تاریک پہلو کے ساتھ اس کا روشن پہلو بھی دکھا دیا ، فرمایا جہاں اللہ تعالیٰ ضلالت اختیار کرنے والوں کی رسی دراز کرتا ہے وہاں ہدایت اختیار کرنے والوں کی ہدایت میں بھی برابر اضافہ فرماتا ہے اور عقل وفکر رکھنے والے یہ نہیں دیکھتے کہ کام کا فوی نفع کتنا ہے بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ مآل و انجام کے لحاظ سے فائدہ کس میں ہے ، دنیا کے بچاری وقتی فوائد کو ترجیح دیتے ہیں اس لئے کہ ان کو ایک بات اچھی طرح ازبر ہے کہ ” نو نقد چنگے تیرا ادھار مندے “ اور اسی اصول کے مطابق وہ اپنا نفع ونقصان نظر میں رکھتے ہیں اور مومن کی نگاہ فقط آخرت پر ہوتی ہے اگرچہ وہ سب کی سب ادھار ہے فرمایا ” تمہارے پروردگار کے حضور تو نیکیاں ہی بہتر ہیں ثواب کے اعتبار سے بھی اور نتیجہ ومال کے اعتبار سے بھی اور یہ ادھار ایسی جگہ نہیں دیا گیا جہاں سے واپس آنے کی کوئی امید نہیں کہ اضافہ تو اضافہ رہا اصل زر بھی ڈوبنے کا خطرہ لاحق ہوجائے ۔ نہیں نہیں اس ادھار کی وصولی اس وقت ہوگی جب پائی پیسے کا کوئی تصور بھی باقی نہ رہے گا اور بڑے بڑے خزانوں والے ایک ایک پائی کو ترستے ہوں گے اور ان کے سارے بینک بیلنس نل ہوچکے ہوں گے یا ڈیڈ اور کہیں سے بھی کوئی امید ان کو باقی نہ رہی ہوگی ۔ غور کرو کہ اس جگہ اعمال صالحہ کو (باقیات الصالحات) سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے اس بات کا اشارہ نکلتا ہے کہ درحقیقت وہی اعمال صالحہ ہیں جو پائیدار اور غیر فانی ہیں جو اعمال چند روزہ ہیں اور ازیں بعد فانی ہیں وہ صالح اعمال نہیں ہوسکتے ۔ رہی یہ بات کہ باقی اعمال کون سے ہیں اور فانی اعمال کون سے تو اس کا جواب اس طرح دیا جاسکتا ہے کہ جو اعمال فقط دنیا کو مطلوب ومقصود بنا کر کئے جائیں وہ فانی ہیں اس لئے دنیا خود فانی ہے وہ آج نہیں تو کل فنا ہوجائیں گے اور باقی رہنے والے اعمال صرف وہ ہیں جو اللہ رب العزت کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور آخرت کو مقصود بنا کر کئے جائیں اس لئے کہ اللہ رب العزت کی ذات بھی غیر فانی ہے اور آخرت بھی غیر فانی ہے اب اپنے اعمال اس کسوٹی پر رکھ کر پرکھتے جاؤ انشاء اللہ العریز یہ کسوٹی کھرا اور کھوٹا یعنی دنیوی اور اخروی الگ الگ کرتی جائے گی تم پر انشاء اللہ سب کچھ واضح ہوجائے گا اور مفتیوں کو رشوت بھی نہیں دینا پڑے گی اور آج کل مفت فتوی سوائے کفر کے فتوی کے کہیں سے بھی نہیں مل سکتا ۔
Top