Urwatul-Wusqaa - Maryam : 90
تَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّاۙ
تَكَادُ : قریب ہے السَّمٰوٰتُ : آسمان يَتَفَطَّرْنَ : پھٹ پڑیں مِنْهُ : اس سے وَتَنْشَقُّ : اور ٹکڑے ٹکرے الْاَرْضُ : زمین وَتَخِرُّ : اور گرپڑیں الْجِبَالُ : پہاڑ هَدًّا : پارہ پارہ
قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں ، زمین کا سینہ چاک ہوجائے ، پہاڑ جنبش کھا کر گر پڑیں
اتنی بڑی بات ہے کہ گویا اس سے زمین و آسمان قریب ہے کہ پھٹ جائیں : 90۔ یہ اس عقیدہ کی سختی کا مزید بیان ہے کہ یہ اتنا بڑا سخت اور سنگین نظریہ ہے کہ قریب ہے اس سبب سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ایک دھماکہ کے ساتھ اڑ جائیں ، یہ اس کا گویا ایک فطری بیان ہے کہ جس طرح ایک انسان اپنے باپ کے سوا کسی دوسرے کو اپنا باپ نہیں بنا سکتا اور انہ ہی کوئی اس کو برداشت کرسکتا ہے کہ اس کی نسبت کسی دوسرے باپ کی طرف کی جائے لیکن ہمارے مفسرین کو یہ خیال اس وقت دامن گیر نہ ہوا جب انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ جبریل (علیہ السلام) کو بنا دیا تو سوائے انسان کے دنیا کی کوئی چیز اگر اس کو زبان مل جائے تو کبھی اس کا اقرار نہ کرے کہ میرا خالق اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کوئی اور بھی ہے یا ان کا خالق کوئی ہو سکتا ہے یا کسی دوسرے کی طرف ان کی نسبت کی جاسکتی ہے ، انسان ہے کہ ان سب باتوں سے بےنیاز ہو کر جو چاہتا ہے نظریات گھڑتا رہتا ہے اور پھر جس طرح چاہتا ہے انکو بیان کرتا رہتا ہے ۔ زیر نظر آیت میں لفظ (ھدا) استعمال ہوا ہے جس کے معنی دیوار کے دھماکے کے ساتھ گرنے کے ہیں جو یک دم دھڑام سے گر جائے ، یہ لفظ بھی ایک بار قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے ۔
Top