Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 132
وَ وَصّٰى بِهَاۤ اِبْرٰهٖمُ بَنِیْهِ وَ یَعْقُوْبُ١ؕ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَؕ
وَوَصّٰی
: اور وصیت کی
بِهَا
: اس کی
اِبْرَاهِيمُ
: ابراہیم
بَنِيهِ
: اپنے بیٹے
وَيَعْقُوْبُ
: اور یعقوب
يٰبَنِيَّ
: اے میرے بیٹو
اِنَّ اللہ
: بیشک اللہ
اصْطَفَی
: چن لیا
لَكُمُ
: تمہارے لئے
الدِّينَ
: دین
فَلَا
: پس نہ
تَمُوْتُنَّ
: مرناہرگز
اِلَّا وَاَنْتُمْ
: مگر تم
مُسْلِمُوْنَ
: مسلمان
اور پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب نے اپنی اولاد کو وصیت کی تھی کہ اے بیٹو ! اللہ نے تمہارے لیے اس دین کی راہ پسند فرمائی ہے دنیا سے نہ جانا مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو
ابراہیم (علیہ السلام) کی وصیت اپنے بیٹوں کے نام : 244: عربی کا لفظ ” وصیۃ “ اردو کے لفظ وصیت سے کہیں زیادہ وسیع مفہوم رکھتا ہے اس لئے کہ بستر مرگ کی خواہشوں اور مرنے والوں کی آخری ہداتیوں تک محدود نہیں ، ہر حکم اور ہر ہدایت پر اس کا اطلاق ہو سکتا ہے اور بَنِیْهِ سے مراد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹوں سے ہے اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے آٹھ بیٹے تھے اگرچہ قرآن کریں نے دو ہی کا ذکر کیا ہے اور باقی کا ذکر نہیں کیا۔ آپ کے صاحبزادوں کی تفصیل اس طرح ہے : کہ : ! حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہاجرہ مصر کی شہزادی کے بطن سے۔ " حضرت اسحٰق (علیہ السلام) حضرت سارہ عراقی کے بطن سے اور #: زمران۔ $: یفسان۔ % مدان۔ ^مدیان۔ : ایساق اور سوخ ، حضرت قطوار کے بطن سے تھے اور ان سب کا ذکر تورات پیدائش 25 : 1 ، 3 میں موجود ہے۔ آیت 124 سے ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر شروع ہوا تھا اور آیت 132 پر ختم ہورہا ہے اور قرآن کریم میں بہت جگہوں پر آپ کا ذکر ہوگا ہم چاہتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی کا ایک مختصر ساخا کہ اس جگہ پر دیدیا جائے تاکہ قارئین کرام اس پر نگاہ رکھیں اور تفصیل اپنے مقام پر آئیگی۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی کا ایک خاکہ قرآن کریم کی نظر میں قرآن کریم کے مخاطب اول اہل عرب تھے انبیاء کرام میں سے جو شخصیتیں ان کے لئے معلوم ومعروف تھیں قرآن کریم ان کے نام ان کے سامنے بےتکلف لے آتا ہے اور کسی تعارف کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور ابراہیم (علیہ السلام) تو وہ بزرگ تھے جن کو مشرکین عرب کے علاوہ یہود و نصاریٰ بھی خوب جانتے تھے۔ ابراہیم (علیہ السلام) وہی ہیں جو اسلامی عقیدہ کے علاوہ یہودی و نصارانی عقیدہ میں بھی ایک بڑے جلیل القدر پیغمبر گزرے ہیں تورات کی روایت کے مطابق آپ کے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان دس پشتوں کا فرق ہے یعنی ابراہیم (علیہ السلام) ، نوح (علیہ السلام) کی گیارہوں پشت میں تھے۔ آپ 2160 ق م پیدا ہوئے آپ کا آبائی وطن ملک کلدانیہ جس کا انگریزی تلفظ کا لڈیا ہے۔ جدید جغرافیہ میں اس ملک کو عراق کہتے ہیں جس شہر میں آپ کی ولادت ہوئی اس وقت اس کو اورؔ کہتے تھے۔ آپ کے والد کا نام تارح اور تورات کی زبان میں تارخ اور قرآن کریم کی زبان میں آذر ہے اور اکثر کتابوں میں تارخ ، اسم علم اور آذراسم وصفی کہا جاتا ہے قرآن کریم میں آپ کا اسم گرامی ” ابراہیم “ 63 بار آیا ہے اور اس کی 25 سورتوں میں آپ کی زندگی کے واقعات میں سے کوئی نہ کوئی واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ آپ کی قوم بت پرست تھی آپ کے والد نجاری کا پیشہ کرتے تھے اور اپنی قوم کے مختلف قبائل کے لئے لکڑی کے بت بناتے اور فروخت کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شروع ہی سے حق کی بصیرت رکھتے تھے اور فطرتی طور پر ان کو یقین تھا کہ بت نہ سن سکتے ہیں ، نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کی پکار کا جواب دے سکتے ہیں اور نہ ہی نفع و نقصان کا ان سے کوئی واسطہ ہے اور نہ لکڑی کے کھلونوں اور ان کے درمیان کوئی فرق ہے ۔ وہ صبح و شام اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے کہ ان بےجان مورتیوں کو میرا باپ اپنے ہاتھوں سے بناتا اور گھڑتا رہتا ہے اور جس طرح اس کا جی چاہتا ہے ناک ، کان ، آنکھیں اور جسم تراش لیتا ہے اور پھر خریدنے والوں کے ہاتھ فروخت کردیتا ہے تو کیا یہ خدا ہوسکتے ہیں ؟ یا خدا کے مثیل وہمسر کہے جاسکتے ہیں ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دیکھ رہے تھے کہ شرک کا سب سے بڑا مرکز خود ان کے اپنے گھر میں قائم ہے اور آذر کی بت سازی وبت پرستی قوم کے لئے مرجع و محور بنی ہوئی ہے اس لئے فطرت کا تقاضا ہے کہ دعوت حق اور پیام صداقت کے ادائے فرض کی ابتداء گھر ہی سے ہونی چاہئے اس لئے آپ نے سب سے پہلے اپنے والد آذر ہی کو مخاطب کیا اور فرمایا اے باپ ! خدا پرستی اور معرفت الٰہی کے لئے جو راستہ تو نے اختیار کیا ہے اور جس کو تو آباء و اجداد کا قدیم راستہ بتلاتا ہے یہ گمراہی اور باطل پرستی کی راہ ہے اور صراط مستقیم اور راہ حق صرف وہی ہے جس کی دعوت میں دے رہا ہوں ۔ اے ابو ! توحید ہی چشمہ نجات ہے نہ کہ تیرے ہاتھ کے بنائے ہوئے ان بتوں کی پرستش و عبادت ۔ اس راہ کو چھوڑدے اور توحید حق کی راہ کو مضبوطی کے ساتھ اختیار کرتا کہ تجھ کو اللہ کی رضا اور دنیاو آخرت کی سعادت حاصل ہو۔ مگر افسوس کہ آذر پر ابراہیم (علیہ السلام) کی اس پندو نصیحت کا مطلق کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ قبول حق کے بجائے آذر نے بیٹے کو دھمکانا شروع کردیا ، کہنے لگا کہ اے ابراہیم ! اگر توبتوں کی برائی سے باز نہ آیا تو میں تجھ کو سنگسار کردوں گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا کہ معاملہ اب حد سے آگے بڑھ گیا اور ایک جانب اگر باپ کے احترام کا مسئلہ ہے تو دوسری جگہ اداء فرض ، حمایت حق اور اطاعت امرالٰہی کا سوال ہے تو انہوں نے سوچا اور آخر وہی کیا جو ایسے برگزیدہ انسان اور اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کے شایان شان تھا۔ باپ اور بیٹے کے درمیان جب اتفاق کی صورت نہ بنی اور آذر نے کسی طرح ابراہیم (علیہ السلام) کی رشدو ہدایت کو قبول نہ کیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے آذر سے جدائی اختیار کرلی اور اپنی دعوت ِحق اور پیغام رسالت کو وسیع کردیا اور اب صرف آذر ہی مخاطب نہ رہا بلکہ پوری قوم کو مخاطب بنا لیا مگر قوم اپنے باپ دادا کے دین کو کب چھوڑنے والی تھی اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک نہ سنی اور دعوت ِحق کے سامنے اپنے باطل معبودوں کی طرح گونگے ، اندھے اور بہرے بن گئے۔ گویا قوم کی حالت یہ تھی کہ ان کے کان موجود تھے مگر حق کی آواز کے لئے بہرے تھے۔ پتلیاں آنکھوں کے حلقوں میں زندہ انسانوں کیآنکھوں کی طرح حرکت کرتی تھیں مگر حق کی بصارت سے محروم تھیں ۔ زبان بولتی ضرور تھی لیکن کلمہ حق کے اعتبار سے گنگ تھی ایسے ہی لوگوں کے لئے قرآن کریم کا ارشاد ہے : لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَاٞ وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَاٞ وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا 1ؕ اُولٰٓىِٕكَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ 1ؕ اُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ 00179 (الاعراف 7 : 179) ” ان کے پاس عقل ہے مگر اس سے سمجھ بوجھ کا کام نہیں لیتے ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے کان ہیں مگر ان سے سننے کا کام نہیں لیتے وہ عقل و حواس کا استعمال کھو کر چوپایوں کی طرح ہوگئے ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ایسے ہی لوگ ہیں جو یک قلم غفلت میں ڈوب گئے ہیں۔ اس جگہ بھی انسان کی دماغی شقاوت کی اس حالت کی طرف اشارہ کیا ہے جب بڑے بوڑھوں کی تقلیدی اثرات سے یا ہوائے نفس کے غلبہ سے یا ذاتی طمع و لالچ سے وہ اس درجہ مغلوب ہوجاتا ہے کہ عقل و حواس کی ساری روشنیاں اس کے لئے بیکار ہوجاتی ہیں اور یہی حالت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کی تھی۔ سورۃ الشعراء کی آیات کے مطابق جب ابراہیم (علیہ السلام) نے زیادہ زور دے کر قوم کے لوگوں سے پوچھا کہ یہ توبتاؤ کہ جن کی تم پرستش کرتے ہو یہ تم کو کسی قسم کا بھی نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں ؟ تو کہنے لگے کہ ان باتوں کے جھگڑے میں ہم نہیں پڑتے ہم تو یہ جانتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا یہی کرتے چلے آئے ہیں لہٰذا ہم بھی وہی کر رہے ہیں۔ تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک خاص انداز سے خدائے واحد کی ہستی کی جانب توجہ دلائی ، فرمانے لگے میں تو تمہارے ان سب بتوں کو اپنا دشمن جانتا ہوں یعنی میں ان سے بےخوف وخطر ہو کر ان سے اعلان جنگ کرتا ہوں کہ اگر یہ میرا کچھ بگاڑ سکتے ہیں تو اپنی حسرت نکال لیں۔ ہاں ! میں تو صرف اس ہستی کو اپنا مالک سمجھتا ہوں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے جس نے مجھ کو پیدا کیا اور راہ راست دکھائی چناچہ فرمایا کہ : الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَهُوَ یَهْدِیْنِۙ0078 وَ الَّذِیْ ہُوَ یُطْعِمُنِیْ وَ یَسْقِیْنِۙ0079 وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ۪ۙ0080 وَ الَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِۙ0081 وَ الَّذِیْۤ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لِیْ خَطِیْٓـَٔتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِؕ0082 رَبِّ ہَبْ لِیْ حُكْمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَۙ0083 وَ اجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَۙ0084 وَ اجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِیْمِۙ0085 وَ اغْفِرْ لِاَبِیْۤ اِنَّهٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَۙ0086 وَ لَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَۙ0087 یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ0088 اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ0089 (الشعراء 26 : 78 ، 89) ” وہ اللہ جس نے مجھے پیدا کیا اور پھر ہدایت کی راہیں کھول دیں۔ وہ کہ میں بھوکا ہوتا ہوں تو کھلاتا ہے اور پیاسا ہوتا ہوں تو پلاتا ہے اور وہ کہ جب میں بیمار پڑتا ہوں تو اپنی رحمت سے شفا دیتا ہے اور وہ موت کے بعد حیات بخشے گا اور جس کی رحمت سے امید رکھتا ہوں کہ کاموں کا بدلہ ملنے کے دن میری خطائیں بخش دے گا۔ اے اللہ ! مجھے حکم دیا ہے توصلحاء کا زمرہ بھی عطا فرمادے اور آنے والی نسلوں میں میری دائمی سچائی قائم رکھ اور مجھے جنت نعیم کے وارثوں میں سے کر دے اور میرے باپ کو بخش دے کہ وہ گمراہ لوگوں میں سے ہے اور مجھے اس دن رسوانہ کیجیو جس دن کہ سب زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔ وہ آخری روز عدالت جب کہ نہ تو مال و دولت کام دیں گے نہ اہل و عیال کام آئیں گے ۔ ہاں ! وہ ضرور کامیاب ہوگا جس کے پہلو میں قلب سلیم ہے۔ “ یہ دلنشین وعظ بھی آذر اور قوم آذر نے قبول نہ کیا کیونکہ ان کے دل قبول حق کے لئے نرم نہ ہوئے اور ان کا انکار اور جمود حد سے گزرتا ہی گیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم بت پرستی کے ساتھ ساتھ کو اکب پرستی بھی کرتی تھی اور ان کا یہ عقیدہ تھا کہ انسانوں کی موت وحیات ، ان کا رزق ، ان کا نفع و نقصان ، خشک سالی اور قحط سالی ، فتح و ظفر اور شکست وہزیمت غرض تمام کارخانہ عالم کا نظم و نسق ، کو اکب اور ان کی حرکات کی تاثیر پر چل رہا ہے اور یہ تاثیر ان کے ذاتی اوصاف میں سے ہے اس لئے کہ ان کی خوشنودی ضروری ہے اور یہ ان کی پرستش کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جس طرح ان کو ان کے سفلی معبودانِ باطل کی حقیقت واشگاف کر کے راہ حق کی طرف دعوت دی اسی طرح ضروری سمجھا کہ ان کے علوی معبودانِ باطل کی بےثباتی اور فنا کے منظر کو پیش کر کے اس حقیقت سے بھی آگاہ کردیں کہ تمہارا یہ خیال قطعاً غلط ہے کہ ان چمکتے ہوتے ستاروں ، چاند اور سورج کو خدائی طاقت حاصل ہے۔ ہرگز نہیں یہ خیال خام اور باطل عقیدہ ہے مگر یہ باطل پرست جب کہ اپنے خود ساختہ اصنام سے اس قدر خائف تھے کہ ان کو برا کہنے والے کے لئے ہر آن یہ تصور کرتے تھے کہ وہ ان کے غضب میں آکر تباہ و برباد ہوجائے گا تو ایسے اوہام پرستوں کے دلوں میں بلند ستاروں کی پرستش کے خلاف جذبہ پیدا کرنا کچھ آسان کام نہ تھا اس لئے مجدد انبیاء سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے دماغوں کے مناسب ایک عجیب ودلچسپ پیرائیہ بیان یوں اختیار کیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے قلب سلیم پر خدا پرستی کی صداقت کھول دی گئی ۔ اللہ نے ان پر اپنی بادشاہت اور کارفرمائی کے جلوے کچھ اس طرح روشن کردیئے کہ جہل و غفلت کا کوئی پردہ بھی ان کی معرفت میں حائل نہ ہوسکا یہ حقیقت جب ان پر کھل گئی تو علم وبصیرت کی کونسی حجت تھی جس نے ان کی رہنمائی نہ کی ؟ قرآن کریم نے ایک ایسے پیرائیہ بیان میں جو اس کی عجیب و غریب بلاغت کا مظہر ہے یہاں اس کا مرقع ہمارے سامنے کھینچ دیا ہے۔ آپ کی قوم چونکہ اجرام سماویہ کی پرستش میں مبتلا تھی اور آپ کے شہر اوؔر میں زہرہ ، چاند اور سورج کے مندر تھے جہاں صبح و شام ان کی پرستش کے لئے لوگ جمع ہوا کرتے تھے آپ ان کو اکثر وعظ فرماتے ایک روز جب شام ہوئی تو زہرہ نمودار ہوئی اور اپنی ساری درخشانیوں کے ساتھ پردہ شب سے جھانکنے لگی۔ آپ نے اپنی قوم کا عقیدہ نقل کرتے ہوئے کہا یہ چمکتا ہوا ستارہ میرا رب ہے ؟ اور اس لئے اس کی مورتی کی پوجا کی جاتی ہے لیکن جب کچھ دیر کے بعد وہ ڈوب گئی ، فرمایا کہ جو ہستیاں ڈوب جانے والی اور چھپ جانے والی ہیں میں ان کا پرستار کیسے ہو سکتا ہوں ؟ کیونکہ جو ہستی اپنے طلوع و غروب میں کسی ٹھہرائے ہوئے قاعدہ و حکم کی پابند ہوئی تو وہ گویا پروردہ ہوئی اور پرور دہ ہستی پروردگار نہیں ہوسکتی۔ پھر پردہ ظلم چاک ہوا اور چاند چمکتا ہوا نکل آیا وہ بولے کیا یہ میرا پروردگار ہے ؟ اور وہ بھی نہ ٹک سکا دیکھو وہ بھی غروب ہوا۔ اچھا اب صبح نمودار ہوئی اور مہر جہاں تاباں درخشاں ہوگیا۔ یہ تو سب سے بڑا ہے کہ شاید اس سے بڑا اجرام سماویہ میں اور کوئی نہیں ، کیا یہ میرا پروردگار ہوگا ؟ یہ تو ہے ہی بہت ہی بڑا لیکن دیکھو یہ بھی تو کسی کے حکم میں بندھا ہوا ہے پھر اس کی روشنی کو بھی قرار نہیں۔ پہلے بڑھنے لگی پھر ڈھلنے لگی یہاں تک کہ آہستہ آہستہ بالکل چھپ گئی۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اب زور دے کر فرمایا کہ ان میں سے کوئی بھی پروردگار نہیں ہو سکتا کیونکہ سب زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ ہم مختار نہیں بلکہ مجبور محض ہیں حاکم نہیں محکوم ہیں ہم سے بھی ایک بالاتر ہستی ہے جس نے ہمیں اپنے حکموں اور قاعدں کے آگے جھکا رکھا ہے پس وہ جو ان سب کا بنانے والا اور سب سے بالاتر ہے میں تو صرف اسی کا ہو رہا ہوں اور میری راہ شرک کرنے والوں کی راہ نہیں۔ پھر جب ان کی قوم نے ردّوکد کی تو انہوں نے کہا تم مجھے اپنے معبودانِ باطل سے ڈراتے ہو۔ دیکھو اس طرح ہم دو فریق ہوگئے ہیں ایک میں ہوں کہ انہیں نہیں مانتا جن کے ماننے کے لئے کوئی دلیل اور روشنی موجود نہیں ۔ ایک تم ہو کہ ان سب کی پرستاری کرتے ہو جن کی پرستاری کے لئے کوئی دلیل اور کوئی روشنی موجود نہیں ۔ بتلاؤ دونوں فریقوں میں سے کس کی راہ امن کی راہ ہوئی۔ یہ حقیقت ہے کہ پرستش اسی کی کرنی چاہئے جس کی پرستش کے لئے علم و بصیرت کی شہادت موجود ہو اور بنیاد اس معاملے کی علم و حقیقت ہے نہ کہ رسم و تقلید ، یہ وہ حجت بالغہ ہے جو اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قلب پر کھول دی تھی اور یہی بنیادی صداقت ہے جس سے خدا پرستی کی راہ کی تمام روشنیاں ظہور میں آئیں ۔ اس واقعہ کی پوری تفصیل سورة الانعام آیت نمبر 74 سے 84 تک بیان کی گئی ہے۔ ” اور اس طرح ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کے درجہ کے مطابق سمجھ بوجھ عطا فرمائی تھی اور ہم اس کی حالت سے بیخبر نہ تھے ۔ جب اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا تھا ۔ یہ کیا مورتیاں ہیں جن کی پوجا پر تم جم کر بیٹھ گئے ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو دیکھا ، انہیں کی پوجا کرتے تھے ۔ ابراہیم نے کہا یقین کرو تم خود بھی اور تمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔ اس پر انہوں نے کہا کیا تو ہم سے سچ مچ کہہ رہا ہے یا مزاح کر رہا ہے ؟ ابراہیم نے کہا نہیں میں کہتا ہوں آسمان اور زمین کا پروردگار جس نے ان سب کو پیدا کیا وہی تمہارا بھی پروردگار ہے۔ میں اس حقیقت پر تمہارے سامنے گواہ ہوں اور دیکھو ابراہیم نے کہا خدا کی قسم میں ضرور تمہارے ان بتوں کے ساتھ ایک چال چلوں گا جب تم سب پیٹھ پھیر کر چل دو گے۔ “ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اس نے بتوں کو توڑ تاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ صرف ایک بت جوان میں بڑا سمجھا جاتا تھا چھوڑ دیا کہ شاید وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ انہوں نے جب اپنے معبودوں کو دیکھا تو کہا ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کس نے کی ہے ؟ جس کسی نے بھی کی ہو وہ بڑا ہی ظالم ہے ۔ کچھ آدمیوں نے کہا ہم نے ایک نوجوان کو ان کے بارے میں کچھ کہتے سنا تھا اور اسے ابراہیم کہہ کر پکارتے ہیں۔ لوگوں نے کہا اسے یہاں تمام آدمیوں کے سامنے بلالاؤ تاکہ سب گواہ رہیں۔ ” ان لوگوں نے ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا چونکہ وہ اسے بلا لائے تھے کہ اے ابراہیم ! کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے ؟ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا بلکہ یوں سمجھو ، اس بت نے کی جو ان میں سے بڑا ہے اگر بت بول سکتے ہیں تو تم ان سے پوچھ کیوں نہیں لیتے ؟ تب وہ آپس میں ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے انہوں نے کہا اس میں شک نہیں ناانصافی کی بات تو ہم ہی سے ہوگئی۔ پھر وہ اس حال میں پڑگئے کہ شرم کے مارے ان کے سرجھکے ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ تو اچھی طرح جانتا ہے یہ بت بات نہیں کیا کرتے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کو پوجتے ہو جو تمہیں نہ تو کسی طرح کا نفع پہنچائیں نہ نقصان ؟ تمہاری حالت کتنی ناقابل برداشت ہے اور ان کی بھی جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو۔ کیا تم عقل سے بالکل کورے ہوگئے ؟ انہوں نے آپس میں کہا کہ اگر ہم میں کچھ بھی ہمت ہے تو آؤ اس آدمی کو آگ میں ڈال کر جلا دیں اور اپنے معبودوں کا بول بالا کریں۔ مگر ہمارا حکم ہوا اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے سلامتی اور دیکھو انہوں نے چاہا تھا ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ایک چال چلیں لیکن ہم نے انہیں نامراد کردیا۔ ” یعنی ان کی چال کو ناکام بنا دیا۔ “ (الانبیاء 21 : 51 تا 70) یہ طریقہ کیا تھا ؟ یہ تھا کہ انہوں نے اپنی قوم کے تمام لوگوں کو مع اپنے والد بزرگواریہ کھلاہواچیلنج دے دیا : وَ تَاللّٰهِ لَاَكِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ 0057 (الانبیاء : 57) یعنی اگر عقل کی کوئی دلیل بھی تمہارے لئے سود مند نہیں اور تم اپنے اس وہم باطل میں جمے ہوئے ہو کہ یہ مورتیاں طاقت و نصرت رکھتی ہیں تو اچھا خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو نتیجہ کیا نکلتا ہے ۔ جو نہی تم آج اپنے بڑے میلہ میں گئے میں تمہارے بتوں کے ساتھ ایک داؤ کھیلوں گا اگر فی الحقیقت ان میں طاقت و نصرت ہے تو وہ کوئی معجزہ دکھا کر اپنے آپ کو بچا لیں یا میرے ہی ہاتھ پاؤں شل کردیں۔ جب ایک جماعت تقلید و وہم پرستی میں اس قدر ڈوب جائے کہ عقل و بصیرت کی کوئی بات بھی اس کے دِل میں نہ اتر سکے تو پھر اقسام فکر میں سے صرف یہی ایک راہ رہ جاتی ہے کہ ان کی عقل کی جگہ ان کے حواس کو مخاطب کیا جائے اور کوئی ایسی بات کر کے دکھائی جائے جس سے ان کی ساری وہم پرستیوں کا قلع قمع ہوجائے۔ مثلاً ایک بچہ چڑیا کو دیکھ کر ڈرنے لگتا ہے تم ہزار اسے سمجھاؤ کہ چڑیا کاٹتی نہیں لیکن وہ ماننے والا نہیں۔ اب ایک دانش مند آدمی کیا کرے گا ؟ یہی کرے کہ اب وہ دلیلوں کی جگہ مشاہدہ سے کام لے گا وہ بچے کو دکھا کر اپنی انگلی چڑیا کی چونچ میں ڈال دے گا اور پھر نکال کر بچے کو دکھائے گا کہ دیکھو اس نے کاٹا ہے یا نہیں۔ یہ ایک مشاہدہ بچہ کے اندر جس درجہ یقین پیدا کردے گا وہ ایک سو آدمیوں کی ایک ہزار دلیلوں سے بھی پیدا نہیں ہو سکتا یہی حال عقول فاسدہ کا بھی ہے تم ان کی عقل و فکر سے کچھ نہیں پا سکتے لیکن تم انہیں مشاہدہ کے ذریعے عاجز کرسکتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بالآخر یہی طریقہ اختیار کیا انہوں نے کہا جس حقیقت کو تم عقل و فکر سے نہیں پا سکتے میں تمہارے مشاہدہ میں لا کر خود تمہاری زبانوں سے اگلوا لوں گا۔ تمہارے دل میں یہ بات جمی ہوئی ہے کہ ان میں طاقت و تصرف ہے اچھا میں ان پر ہاتھ اٹھاتا ہوں اب اگر سچ مچ کو ان میں اختیار و تصرف ہے تو یہ اپنے سارے کرتب لے کر نمودار ہوجائیں اور مجھے اس سے روک دیں یا مجھ پر کوئی آسمانی عذاب اتار دیں۔ لوگوں نے ان کا یہ اعلان سنا لیکن دلوں میں بتوں کی عظمت و تقدیس رچی ہوئی تھی اس لئے قابل التفات نہیں سمجھا وہ سمجھے کہ یہ ایک مجنونانہ بڑ ہے بھلا کون ہے جوان قادر و توانا معبودوں کی جناب میں ایسی جرأت کرسکتا ہے ؟ اور اگر کرے تو اسے اس کی مہلت ہی کب ملے گی ؟ نہیں معلوم کیا سے کیا ہوجائے ؟ لیکن سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے نبی تھے اور اپنے فیصلہ کا اعلان کرچکے تھے اور ظاہر ہے کہ نبی اپنا کوئی فیصلہ خود اپنی مرضی سے نہیں کرتا بلکہ وہ تو اللہ کے فیصلے کا اعلان کرتا ہے جب اعلان کروادیا تو اسے کر کے دکھا دینا تھا جو نہی معبد خالی ہوا۔ ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے اٹھے اور ایک ایک کر کے تمام بت توڑ دیئے صرف بڑے بت یعنی ” شمسؔ “ کو چھوڑ دیا ۔ اس میں مصلحت کیا تھی ؟ مصلحت وہی تھی جس کا اعلان پہلے کرادیا گیا تھا کہ : ” لَعَلَّهُمْ اِلَیْهِ یَرْجِعُوْنَ 0058 “ اگر وہ باقی رہے گا تو شاید اس کی طرف لوگ رجوع کریں۔ یعنی یہ سوال اٹھایا جاسکے کہ اس کے سامنے بتوں پر آفت آئی اور خود یہ بھی کہ وہ تو ان کے لئے رب الارباب تھا۔ کیا کرسکا یعنی کچھ نہ کرسکا۔ اب اسی سے دوسروں کی تباہی کی کہانی سن لی جائے۔ جب لوگ واپس آئے انہوں نے دیکھا جو بات ان کے وہم و گمان میں بھی نہ آتی تھی وہ ہوگئی اور سچ مچ ابراہیم (علیہ السلام) نے سارے بت پاش پاش کردیئے تو غور کرو کہ ان کے دل و دماغ کا کیا حال ہوگا ؟ اور ایسی حالت میں کیا ہونا چاہئے ؟ پہلے حیرت چھائی ہوگی کہ کیا تھا اور کیا ہوگیا ؟ کیا یہ مورتیاں اس طرح توڑی پھوڑی جاسکتی تھی ؟ پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ساری باتیں سامنے آگئی ہوں گی۔ یہ تو کتنے سالوں کا جھگڑا چلا ہوا تھا۔ فیصلہ ہونے پر آیا تو کس طرح ہوگیا۔ ان کو صاف نظر آگیا کہ اس بارے میں سچا وہی نکلا ہم جھوٹے ہوگئے ۔ پھر اپنی شکست کے خیال نے غم و غصہ کی شکل اختیار کرلی۔ فتح مند آدمی اتنا غضبناک نہیں ہوتا جتنا شکست خوردہ ہوتا ہے خصوصاً جب شکست بھی ذلت و ندامت کی شکست ہو۔ اب پجاریوں کے لئے سب سے زیادہ ضروری بات یہ تھی کہ معاملہ کی برائی عوام سے پوشیدہ رکھی جائے اگر انہیں معلوم ہوگیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلے چیلنج دے دیا تھا اور پھر کر کے دکھادیا تو ان کے عقیدے متزلزل ہوں گے۔ پس دکھاوے کے لئے پجاریوں نے ایسا انداز اختیار کرلیا گویا ابراہیم (علیہ السلام) کے چیلنج کی انہیں خبر ہی نہیں۔ ایک دوسرے کو پوچھنے لگے یہ شرارت کس نے کی ہے ؟ جس کسی نے بھی کی ہے وہ بڑا ہی مجرم ہے۔ وہ دیوتاؤں کے سخت عذاب کا مستحق ہوگا اس پر بعض دکھاوے کے لئے بول اٹھے : سَمِعْنَا فَتًى یَّذْكُرُهُمْ یُقَالُ لَهٗۤ اِبْرٰهِیْمُؕ0060 ہمارے سننے میں آیا ہے کہ ایک نوجوان ان مورتیوں کے بارے میں کچھ باتیں کہتا تھا ، غالباً اس نے کیا ہوگا ؟ اسے ابراہیم کہہ کر پکارتے ہیں۔ غور کرو ، کہنے والا اب بھی یہ نہیں کہتا کہ اس نے مورتیوں کے خلاف داؤ کھیلنے کی دھمکی دی تھی بلکہ صرف یہ کہہ کر ” کہ ان کے بارے میں کچھ کہتا تھا “ چپ ہوگیا۔ دراصل کوشش یہ ہے کہ یہ معاملہ عوام سے چھپایا جائے جو اس حادثہ عظیم کی خبر سن کر وہاں جمع ہوگئے تھے اور جس کا پتہ فَاْتُوْا بِهٖ عَلٰۤى اَعْیُنِ النَّاسِ سے لگتا ہے۔ یعنی پجاریوں نے کہا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو یہاں لوگوں کے سامنے لاؤ ۔ بہرحال ابراہیم بلائے گئے۔ وہ اب مجمع کے سامنے کھڑے ہیں۔ مجمع میں پجاری اور عوام دونوں ہیں ۔ پجاریوں کو سب کچھ معلوم ہے اور عوام کو تفصیلات معلوم نہیں۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے انکشاف ِحقیقت کا جو طریقہ اختیار کیا تھا اس کا نتیجہ آشکارا ہوجائے اور جس حقیقت کے اعتراف سے لوگوں کو انکار تھا وہ خود انہی کے مونہوں سے اگلوائی جائے اور دیکھو کیسے صاف اور قدرتی طریقہ سے ابراہیم (علیہ السلام) اپنی اس عملی اور و قوعی حجت کا کامیابی کا اعتراف کرتے ہیں ؟ پجاریوں نے دکھاوے کے لئے بیخبر بن کر پوچھا : ءَاَنْتَ فَعَلْتَ ہٰذَا بِاٰلِهَتِنَا یٰۤاِبْرٰهِیْمُؕ0062 کیا ہمارے معبودوں کے ساتھ تو نے یہ حرکت کی ہے ؟ اب اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کے جواب میں کہتے کہ میں تو تمہیں پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ ایسا کروں گا اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے ؟ تو انہیں پھر ردّوکد کا موقع مل جاتا مثلاً وہ عوام کے سامنے انکار کردیتے کہ تم نے کبھی ایسا نہیں کہا تھا اور اس طرح اصل مسئلہ کی جگہ ایک دوسری بات میں سوال و جواب شروع ہوجاتا۔ پس ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب میں حجت الزامی کا ایسا طریقہ اختیار کیا کہ ردّوکد کے سارے دروازے بند ہوگئے اور حقیقت آشکارا ہوگئی۔ بَلْ فَعَلَهٗ 1ۖۗ کَبِیْرُهُمْ ہٰذَا فَسْـَٔلُوْهُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ 0063 بلکہ اس سب سے بڑے بت ” شمسؔ“ نے کیا جس کے آگے تم ہمیشہ اپنے سوالات پیش کرتے رہتے ہو اور پھر کہتے ہو کہ اس کی پراسرار صدائیں تمہیں سنائی دیتی ہیں یہ ابھی زندہ سلامت موجود ہے اگر فی حقیقت مورتیاں سوالوں کا جواب دیا کرتی ہیں تو اس مورتی سے پوچھ لو مجھ سے کیوں سوال کرتے ہو ؟ یہ جواب سنتے ہی سب پر سناٹا چھا گیا کیونکہ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ نہ تو یہ کہہ سکتے تھے کہ مورتی سے امید جواب نہیں اور نہ مورتی سے سوال ہی کرسکتے تھے ۔ ادھر عوام نتیجہ کے منتظر تھے : فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْفُسِهِمْ ” اَنْفُسِهِمْ “ یعنی پجاریوں کی جماعت عوام سے الگ ہو کر آپس میں باتیں کرنے لگی چونکہ اب ابراہیم (علیہ السلام) کا تیر ٹھیک نشانہ پر لگ چکا تھا اس لئے انہیں آپس میں اس بات کا اقرار کرنا پڑا : فَقَالُوْۤا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَۙ0064 بلاشبہ حق سے نافرمانی کرنے والے ہم ہی ہیں ٹھیک بات تو وہی ہے جو ابراہیم کہہ رہا ہے۔ بالآخر مجبور ہوئے کہ جو بات ابراہیم (علیہ السلام) ان سے کہلوانی چاہتے تھے وہ سرجھکا کر دبی زبان کہہ دیں : لَقَدْ عَلِمْتَ مَا ہٰۤؤُلَآءِ یَنْطِقُوْنَ 0065 یعنی یہ حقیقت تو تجھے معلوم ہی ہوچکی ہے کہ مورتیوں کی صداؤں اور مندر کے ہاتف غیبی کے جوابوں کا معاملہ وہ نہیں ہے جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ مورتیاں بولا نہیں کرتیں ۔ پھر تیرا یہ کہنا کہ بڑے بت سے پوچھ کر فیصلہ کرو کیا معنی رکھتا ہے ؟ تب ابراہیم (علیہ السلام) نے تمام مجمع سے مخاطب ہو کر ندائے حق بلند کردی : اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكُمْ شَیْـًٔا وَّ لَا یَضُرُّكُمْؕ0066 جب ان مورتیوں کے بولنے اور مشکل کشا ہونے کے سارے قصے من گھڑت ہیں اور ان کی عجز و درماندگی کا یہ حال ہے جو تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو تو پھر اُفٍّ لَّكُمْ وَ لِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ 1ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ 0067 افسوس ہے تمہارے لئے تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش میں گھر گئے ہو ؟ کیا تم اتنی موٹی بات بھی نہیں سمجھ سکتے ؟ اب غور کرو اس سرگذشت میں کونسی بات ایسی ہے جس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا جھوٹ بولنا نکلتا ہو ؟ بتوں کو انہوں نے کچھ چوری چھپے نہیں توڑا تھا کہ خلاف واقعہ بات کہہ کر اسے چھپانا چاہتے تھے۔ انہوں نے تمام پجاریوں کے سامنے صاف اعلان کردیا اور اعلان بھی اس تائید کے ساتھ کہ : تَاللّٰهِ لَاَكِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ ، اللہ کی قسم ! میں ضرور تمہارے بتوں کو اپنے داؤ کا نشانہ بناؤں گا ۔ پھر جو بات اس طرح صاف صاف کہہ دی گئی اور اعلانیہ کی گئی ہو اس میں جھوٹ بولنے کی بات کہاں سے نکل آئی ؟ باقی رہا ان کا یہ کہنا کہ : بَلْ فَعَلَهٗ 1ۖۗ کَبِیْرُهُمْ ہٰذَا تو ظاہر ہے کہ ایک لمحہ کے لئے اس سے مقصود انکار فعل نہیں ہو سکتا کیونکہ فعل کا تو وہ پہلے اعلان کرچکے تھے اور خود پوچھنے والوں کا ایک ایک فرد جانتا تھا کہ یہ ابراہیم ہی کا کیا دھرا ہے۔ بات بالکل صاف ہے کہ یہ محض حجت الزامی تھی جو ہر زبان اور ہر ماحول میں استعمال کی جاتی ہے اور سب جانتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ یوں سمجھو کہ آپ کا بیٹا ماشاء اللہ جوان ہو رہا ہے نویں ، دسویں کا طالب علم ہے آپ اس کو روزانہ سمجھاتے ہیں کہ محنت کرو اور خوب محنت کرو رات جلدی سوؤ اور صبح سویرے اٹھو ، نہاؤ دھوؤ ، نماز ادا کیا کرو ، قرآن کریم پڑھا کرو اور وقت پر سکول جایا کرو۔ لیکن بر خودار ہے کہ ان باتوں میں سے ایک بھی صحیح طریقے سے نہیں کرتا ۔ آپ سمجھا سمجھا کہ جب تنگ پڑتے ہیں تو اس کو کہتے ہیں کہ دیکھو بھائی محنت بالکل نہ کرنا۔ بس ساری رات لڈو کھیلا کرو۔ صبح دیر سے اٹھا کرو اور خوب کھایا پیا کرو ، نماز قرآن کی آخر ضرورت ہی کیا ہے اور نہ ہی نہانا دھونا کوئی اچھا فعل ہے ، کتابیں پکڑیں اور سارا دن بسوں پر سفر کیا۔ یہ بہت اچھا مشغلہ ہے۔ ایمانداری سے کہئے کہ یہ جو کچھ آپ نے فرمایا آپ کا دل یہی چاہتا ہے کہ بیٹا ساری رات جاگے ، دس بجے تک سوئے ، نماز و قرآن کے قریب نہ جائے اگر آپ کا ارادہ یہ نہیں اور یقینا نہیں تو پھر بتاؤ کہ یہ سب کچھ آپ نے جھوٹ بولا ہے ؟ اگر جھوٹ بھی نہیں بولا تو آخر اس کلام سے آپ کا مطلب کیا ہے جو مطلب ہے آپ کو بھی معلوم ہے اور آپ کے بیٹے کو بھی اور ہر سننے والابھی یہی سمجھتا ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اور کوئی نہیں کہتا کہ آپ نے جھوٹ بولا ہے تو ابراہیم (علیہ السلام) کے ارشاد کو جھوٹ کیوں کہتے ہو یہ تو مخاطب کی تفہیم کا ایک طریقہ ہے جو سب لوگ جانتے اور سمجھتے ہیں۔ یہ بات تو ضمناً آگئی تھی جس کی تفصیل اپنے موقعہ پر آئے گی اب آیئے اصل مضمون کی طرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس کی نصیحت و مؤعظت کا اثر یہ ہونا چاہئے تھا کہ تمام قوم اپنے باطل عقیدہ سے تائب ہو کر ملت ابراہیمی اختیار کرلیتی اور کج روی چھوڑ کر راہ مستقیم پر گامزن ہوجاتی لیکن دلوں میں کجی ، نفوس کی سرکشی ، متمردانہ ذہنیت اور باطنی خباثت دناءت نے اس جانب نہ آنے دیا اور اس کے برعکس ان سب نے ابراہیم (علیہ السلام) کی عدوات ودشمنی کا نعرہ بلند کردیا اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اگر دیوتاؤں کی خوشنودی چاہتے ہو تو اس کو اس گستاخی اور مجرمانہ حرکت پر سخت سزا دو اور آگ میں جلا ڈالو تاکہ اس کی تبلیغ و دعوت کا قِصّہ ہی پاک ہوجائے۔ یہ بات ان کو کیسے سوجھی ؟ دراصل کلدانیوں میں یہ سزا سیاسی لیڈروں اور مذہبی مخالفین کے لئے دی جانا ثابت ہے اور اس پر تاریخی شہادتیں موجود ہیں ابراہیم (علیہ السلام) ان لوگوں کی نگاہ میں ان دونوں باتوں کے مجرم تھے ۔ اس لئے ان کا خیال اس طرف جانا کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ ابھی اسی طرح کے مشورے ہو ہی رہے تھے اور ویسے ابراہیم (علیہ السلام) ایک سیاسی اور مذہبی گھرانے کے چشم وچراغ تھے اتنی جلدی ایسی سزا دینا اتنا آسان نہیں تھا۔ ہوتے ہوتے بادشاہ وقت تک یہ باتیں پہنچ گئیں۔ اس زما نہ میں عراق کے بادشاہ کا لقب نمرودؔ ہوتا تھا اور یہ رعایا کے صرف بادشاہ ہی نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ اپنے آپ کو اپنی قوم کا رب اور مالک جانتے تھے اور رعایا بھی دوسرے دیوتاؤں کی طرح ان کو اپنا خدا اور معبود مانتی تھی اور ان کی بالکل اسی طرح پرستش کرتی تھی جس طرح دوسرے دیوتاؤں کی بلکہ ان سے بھی زیادہ پاس و ادب کے ساتھ پیش آتی تھی ۔ اس لئے کہ وہ صاحب عقل و شعور بھی ہوتا تھا اور مالک تخت وتاج بھی۔ نمرود کو جبیہ معلوم ہوا تو آپے سے باہر ہوگیا اور سوچنے لگا کہ اس شخص کی پیغمبرانہ تبلیغ و دعوت کی سرگرمیاں اگر اسی طرح جاری رہیں تو یہ میری ربوبیت ، ملوکیت اور الو ہیت سے بھی سب سے رعایا کو برگشتہ کر دے گا اور اس طرح باپ دادا کے مذہب کے ساتھ میری یہ سلطنت بھی زوال میں آجائے گی۔ اس لئے اسی قِصّہ کا ابتداہی میں خاتمہ کردینا بہتر ہے۔ یہ سوچ کر اس نے حکم دیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو ہمارے دربار میں حاضر کرو۔ ابراہیم (علیہ السلام) جب نمرود کے دربار میں پہنچے تو نمرود نے گفتگو شروع کی اور ابراہیم (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ تو باپ دادا کے دین کی مخالفت کس لئے کرتا ہے اور مجھے رب ماننے سے تجھے کیوں انکار ہے ؟ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں اللہ واحد کا پرستار ہوں اس کے علاوہ کسی کو اس کا شریک نہیں مانتا ، ساری کائنات اور تمام عالم اس کی مخلوق ہے اور وہی ان سب کا خالق ومالک ہے۔ تو بھی اسی طرح ایک انسان ہے جس طرح ہم سب انسان ہیں پھر تو کس طرح رب یا الہ ہوسکتا ہے اور کس طرح یہ گونگے بہرے ، لکڑی اور پتھر کے بت خدا ہو سکتے ہیں ؟ یہ بت بذاتہٖ کوئی چیز نہیں بلکہ یہ تو نیک لوگوں اور بزرگوں کی فرضی شکلیں اور تصویریں بنائی گئی ہیں تاہم جن لوگوں کی یہ شکلیں یا تصویریں ہیں وہ بیشک نیک اور ولی اللہ بھی ہوں تو بھی وہ معبود تو نہیں بنائے جاسکتے ؟ دیکھو اور خیال کرو کہ میں صحیح راہ پر ہوں اور تم سب غلط راہ پر ہو اسی لئے میں تبلیغ حق کو کس طرح چھوڑ سکتا ہو اور تمہارے باپ دادا کے خود ساختہ مذہب کو میں کیسے اختیار کرسکتا ہوں ؟ نمرود نے ابراہیم (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ اگر میرے علاوہ تیرا کوئی رب ہے تو اس کا ایسا وصف بیان کر کہ جس سے میں بھی یہ سمجھوں کہ تیرا رب میں نہیں۔ تب ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ 1ۙ ، میرا رب تو وہ ہے جو مخلوقات کو مارتا اور جلاتا ہے ۔ نمرود نے جواب دیا : اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ 1ؕ میں تو خود ہی زندہ ہوا ہوں اور خود مروں گا۔ پھر تیرے رب کی یہ خصوصیت مجھ پر تو نہیں چل سکی اور نہ ہی کسی اور پر چل سکتی ہے یہ تو تیرا اپنا خیال ہے جو تو کہہ رہا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ نمرود یا تو موت وحیات کی اصل حقیقت سے نا آشنا ہے یا جمہور اور رعایا کو مغالطہ دینا چاہتا ہے تاکہ وہ اس فرق کونہ سمجھ سکیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں جو اس بادشاہ وقت کی ہے بلکہ یہ باتیں کہنے والے ہر زمانے میں کہتے رہے ہیں اور آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں۔ چناچہ قرآن کریم ہی میں دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے۔ وَ الَّذِیْ قَالَ لِوَالِدَیْهِ اُفٍّ لَّكُمَاۤ اَتَعِدٰنِنِیْۤ اَنْ اُخْرَجَ وَ قَدْ خَلَتِ الْقُرُوْنُ مِنْ قَبْلِیْ 1ۚ (الاحقاف 46 : 17) ” اور جس شخص نے اپنے والد سے کہا تف ہے تمہارے لئے کیا مجھے خبر دیتے ہو کہ میں مرنے کے بعد دوبارہ قبر سے نکالا جائوں گا حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں۔ اور ایک جگہ ارشاد ہے کہ : اِنْ ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَ نَحْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ۪ۙ0037 (المؤمنون 23 : 37) ” زندگی تو بس یہی زندگی ہے جو دنیا میں ہم بسر کرتے ہیں یہیں مرتے ہیں ، یہیں جیتے ہیں ایسا کبھی ہونے والا نہیں کہ مرکر بھی جی اٹھیں۔ “ تاہم سید نا ابراہیم (علیہ السلام) نے سوچا کہ اگر میں نے اس موقع پر موت وحیات کے دقیق فلسفہ پر بحث شروع کردی تو نمرود کا مقصد پورا ہوجائے گا اور وہ عوام کو مغالطہ میں ڈال کر اصل معاملہ کو الجھادے گا اور اس طرح میرا نیک مقصد پورا نہ ہوسکے گا اور تبلیغ حق کے سلسلہ میں سر محفل نمرور کو لاجواب کرنے کا موقعہ ہاتھ سے جاتا رہے گا کیونکہ بحث و مباحثہ اور مناظرہ میرا اصل مقصد نہیں ہے بلکہ لوگوں کے دماغ و قلب میں خدائے واحد کا یقین پیدا کرنا میرا مقصد وحید ہے اس لئے انہوں نے اس دلیل کو نظر انداز کر کے سمجھانے کا ایک دوسرا پیرایہ اختیار کیا اور ایسی دلیل پیش کی جس کا صبح و شام ہر شخص آنکھوں سے مشاہدہ کرتا اور بغیر کسی منطقی دلیل کے روز و شب زندگی میں اس سے دوچار ہوتا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں اس ہستی کو اللہ کہتا ہوں جو روزانہ سورج کو مشرق سے لاتا ہے اور مغرب کی جانب لے جاتا ہے ۔ پس اگر تو بھی اس طرح خدائی کا دعوی کرتا ہے تو اس کے خلاف سورج کو مغرب سے نکال اور مشرق میں چھپا۔ یہ سن کر نمرود مبہوت اور لاجواب سا ہوگیا اور اس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان سے نمرود پر اللہ کی حجت پوری ہوئی۔ نمرود اس دلیل سے مبہوت کیوں ہوا ؟ اور اس کے پاس اس کے مقابلہ میں مغالطہ کی گنجائش کیوں نہ رہی ؟ یہ اس لئے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی دلیل کا حاصل یہ تھا کہ میں ایک ہستی کو اللہ مانتا ہوں جس کے متعلق میرا یہ عقیدہ ہے کہ یہ ساری کائنات اور اس کا سارا نظام اسی نے بنایا ہے اور اسی نے اس پورے نظام کو اپنے قانون حکمت سے ایسا مسخر کردیا ہے کہ اس کی کوئی شے نہ وقت مقررہ سے پہلے اپنی جگہ سے ہٹ سکتی ہے اور نہ ادھر ادھر ہو سکتی ہے ۔ تم اس پورے نظام میں سے آفتاب ہی کو دیکھ لوعالم ارضی اس سے کس قدر فائدہ حاصل کرتا ہے بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے اس کے طلوع و غروب کا بھی ایک نظام مقرر کردیا ہے ۔ بس اگر آفتاب لاکھ بار بھی چاہے کہ وہ اس نظام سے باہر ہوجائے تو وہ اس سے باہر ہونے پر قادر نہیں کیونکہ اس کی باگ بھی اللہ واحد کے قبضہ قدرت میں ہے اور اس کو بیشک یہ قدرت ہے کہ جو چاہے کر گزرے لیکن وہ کرتا وہی ہے جو اس کی حکمت کا تقاضا ہے اور جس کے لئے جو قانون مقرر کردیا ہے ۔ مزید دیکھنا مطلوب ہو تو اس تفسیر کی اسی جلد میں حاشیہ نمبر 443 سے 446 تک ملاحظہ کریں۔ غرض حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سب سے پہلے اپنے والد بزرگوار کو اسلام کی تلقین کی ، پیغام حق سنایا اور راہ مستقیم دکھائی۔ اس کے بعد عوام اور جمہور کے سامنے اس دعوت کو عام کیا اور سب کو امر حق تسلیم کرانے کیلئے فطرت کے بہترین اصول و دلائل کو پیش فرمایا اور نرمی ، شیریں کلامی مگر مضبوط ومحکم اور روشن حجت و دلیل کے ساتھ ان پر حق کو واضح کیا اور سب سے آخر میں بادشاہ ِوقت نمرود سے مناظرہ کیا اور اس پر روشن کردیا کہ ربو بیت والوہیت کا حق تو صرف اور صرف اللہ واحد ہی کے لئے سزا وار ہے اور بڑے سے بڑے شہنشاہ کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس کی ہمسری کا دعویٰ کرے کیونکہ وہ اور کُل دنیا اسی کی مخلوق ہے اور وجود وعدم کی قید و بند میں گرفتار مگر اس کے باوجود کہ بادشاہ آزر اور عوام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دلائل سے لاجواب تھے اور دلوں میں قائل بلکہ بتوں کے واقعہ میں تو زبان سے بھی اقرار کرنا پڑا کہ ابراہیم جو کچھ کہتا ہے وہی حق ہے اور صحیح و درست ، تاہم ان میں سے کسی نے راہ ِمستقیم کو اختیار نہ کیا اور قبول حق سے منحرف ہی رہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے برعکس اپنی ندامت و ذلت سے متاثرہ ہو کر بہت زیادہ غیظ و غضب میں آگئے اور بادشاہ سے رعایا تک سب نے متفقہ فیصلہ کرلیا کہ دیوتاؤں کی توہین اور اپنے باپ دادا کے مذہب کی مخالفت میں ابراہیم کو دھکتی ہوئی آگ میں جلا دینا چاہئے کیونکہ ایسے سخت مجرم کی سزا یہی ہو سکتی ہے اور دیوتاؤں کی تحقیر کا انتقام اسی طرح لیا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ انہوں نے فیصلہ یہ کیا کہ : قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَ انْصُرُوْۤا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ 0068 (الانبیاء 21 : 68 ) ” انہوں نے آپس میں کہا اگر ہم میں کچھ بھی ہمت ہے تو آؤ اس آدمی کو آگ میں مل کر جلا دیں اور اپنے معبودوں کا بول بالا کریں۔ “ دوسری جگہ فرمایا کہ : قَالُوا ابْنُوْا لَهٗ بُنْیَانًا فَاَلْقُوْهُ فِی الْجَحِیْمِ 0097 (الصفت 37 : 97) ” قوم کے لوگوں نے کہا ابراہیم کے لئے ایک عمارت بناؤ پھر اس کو دھکتی ہوئیآگ میں ڈال دو ۔ “ پھر خود ہی قرآن کریم نے اس کا جواب دیا ہے کہ : قُلْنَا یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَۙ0069 وَ اَرَادُوْا بِهٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَخْسَرِیْنَۚ0070 (الانبیاء 21 : 67) ” ہمارا حکم ہوا اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور ابراہیم کے لئے سلامتی اور دیکھو انہوں نے چاہا تھا کہ ابراہیم کے ساتھ ایک چال چلیں لیکن ہم نے انہیں نامراد کردیا۔ “ اور دوسری جگہ فرمایا کہ : فَاَرَادُوْا بِهٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَسْفَلِیْنَ 0098 (الصافات 37 : 98) انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ایک برائی کا ارادہ کیا مگر ہم نے انہیں نیچا دکھا دیا۔ اس مرحلہ پہنچ کر ابراہیم (علیہ السلام) کی جدوجہد کا معاملہ ختم ہوگیا اور اب دلائل وبراہین کی قوت کے مقابلہ میں مادی طاقت وسطوت نے مظاہرہ شروع کردیا۔ باپ اس کا دشمن ، جمہور اس کے مخالف اور بادشاہ وقت اس کے درپے آزار ، ایک ہستی اور چہار جانب سے مخالفت کی آواز ۔ دشمنی کے نعرے اور نفرت و حقارت کے ساتھ سخت انتقام اور خوفناک سزا کے ارادے ایسے وقت میں اس کی مدد کون کرے اور اس کی حمایت کا سامان کس طرح مہیا ہو ؟ مگر ابراہیم (علیہ السلام) کونہ اس کی پروا تھی اور نہ اس کا خوف وہ اسی طرح بےخوف و خطر اور ملامت کرنے والوں سے بےنیاز اعلان حق میں سر شار اور دعوت اللہ وہدایت میں مشغول تھے البتہ ایسے نازک وقت میں جب تمام مادی سہارے ختم ، دنیوی اسباب ناپید اور حمایت و نصرت کے ظاہری اسباب مفقود ہوچکے تھے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس وقت بھی ایک ایسا بڑا زبردست سہارا حاصل تھا جو تمام سہاروں کا سہارا تھا۔ اس نے اپنے جلیل القدر پیغمبر قوم کے عظیم المرتبت ہادی اور رہنما کو بےیادومددگار نہ رہنے دیا اور دشمنوں کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔ اسی کو کہتے ہیں کہ۔ ^دشمن اگر قویست نگہبان قوی تراست ذرا ایک قدم پھر پیچھے آؤ اور دیکھو کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کا بت پرستی کی مذمت کے سلسلہ میں اپنے باپ آزر سے مناظرہ ہوگیا تھا اور آزر نے زچ ہو کر یہ کہا تھا : اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِهَتِیْ یٰۤاِبْرٰهِیْمُ 1ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَنَّكَ وَ اہْجُرْنِیْ مَلِیًّا 0046 (مریم 19 : 46) ” باپ نے ابراہیم کی باتیں سن کر کہا اے ابراہیم ! کیا تو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے ؟ یاد رکھ کہ اگر تو ایسی باتوں سے باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کر کے چھوڑوں گا۔ اپنی خیرچاہتا ہے تو جان سلامت لے کر مجھ سے الگ ہوجا۔ “ تو اس سخت گیر اور دل آزارگفتگو کے موقعہ پر بھی اس نے پدری رشتہ کی بزرگی کا احترام کیا اور جواب میں فرمایا تو صرف یہ فرمایا : سَلٰمٌ عَلَیْكَ 1ۚ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ 1ؕ اِنَّهٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا 0047 (مریم 19 : 47) ” ابراہیم نے کہا اچھا میرا سلام قبول ہو میں الگ ہوجاتا ہوں اور آپ کے حکم کی تعمیل کرتا ہوں۔ اب میں اپنے رب سے تیری بخشش کی دعا کروں گا وہ مجھ پر بڑاہی مہربان ہے۔ “ اس ہستی سے یہ کیسے توقع ہو سکتی کہ وہ اپنے باپ آزر کو بیوقوف ، پیر فرتوت اور اس قسم کے تحقیر آمیز الفاظ کے ساتھ خطاب کرے ؟ اس میں کتنے اسباق ہیں قوم مسلم کے نوجوانوں کے لئے جن کے والدین بوڑھے بھی ہیں ، بد عقیدہ اور ضدی بھی۔ کتنے اسباق ہیں اس امت مسلمہ کے علماء کے لئے جو موحد نوجوان کو اپنے مشرک والدین سے متنفر کرنے کیلئے دن رات کوشاں ہیں۔ کتنے اسباق ہیں سیاسی لیڈروں اور مذہبی قائدین کے لئے کہ اگر مخالف سے مخالف آدمی کو بھی مخاطب کرنا ہو تو اس کا کیا طریقہ ہے ؟ جو اسلام نے سکھایا ہے۔ غور کرو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اپنی قوم کی ہدایت کے لئے کس درجہ مضطرب اور بےچین تھے اور دلائل وبراہین کی وہ کونسی صورت ہوسکتی ہے جو انہوں نے حق کے آشکارا کرنے میں صرف نہ کردی ہو ؟ سب سے پہلے اپنے باپ آذر کو سمجھایا پھر عوام کے سامنے حق کی روشنی کو پیش کیا اور آخر میں نمرود سے مناظرہ کر کے اس کے سامنے بھی احقاق حق کو بہتر سے بہتر اسلوب کے ساتھ ادا کیا اور ہر لمحہ یہی سب کو تلقین کی کہ اللہ واحد کے علاوہ کسی کی پرستش جائز نہیں اور اصنام پرستی اور کو اکب پرستی کا نتیجہ خسران اور ذلت کے سوائے دوسرا نہیں ہے اس لئے شرک سے باز آنا چاہئے اور ملت حنفیہ ہی کو صراط مستقیم سمجھنا چاہئے جس کی اساس و بنیاد صرف توحید الٰہی پر قائم ہے۔ مگر بد بخت قوم نے کچھ نہ سنا اور کسی رشد و ہدایت کو قبول نہ کیا اور ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی ، سارہ ؓ اور انکے بردار زادہ لوط (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی ایمان نہ لایا اور تمام قوم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ناطقہ بند کرنے کا فیصلہ کرلیا اور گویا دہکتی آگ میں ڈال دیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے مطابق اسکے دشمنوں کے ارادوں کو ذلیل و رسوا کر کے ابراہیم (علیہ السلام) کے حق میں جیسی کیسی بھی وہ آگ تھی اس کو ” بَرْدًا وَّ سَلٰمًا “ بنا دیا تو اب ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے ارادہ کیا کہ دوسری جگہ جا کر پیغام الٰہی سنائیں اور دعوت حق پہنچائیں اور اس عزم کے ساتھ فدان ، آرام یا اورؔ سے ہجرت کا ارادہ کرلیا۔ وَ قَالَ اِنِّیْ ذَاہِبٌ اِلٰى رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ 0099 اور ابراہیم نے کہا میں جانے والا ہوں اپنے رب کی طرف قریب ہے کہ وہ میری رہنمائی کرے گا۔ یعنی اب مجھے کسی ایسی بستی یا آبادی میں ہجرت کر کے چلاجانا چاہئے جہاں اللہ کی آواز گوش ہوش سے سنی جائے اور وہی جگہ ہو سکتی ہے جس کی طرف اللہ میری راہنمائی فرمائے ۔ اللہ کی زمین تنگ نہیں ہے۔ یہ جگہ نہیں تو اور جگہ سہی میرا کام تو پیغام پہنچانا ہے اللہ اپنے دین کی اشاعت کا سامان خود پیدا کردے گا۔ مختصر یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے والد اور قوم سے جدا ہو کر بحکم الٰہی فرات کے غربی کنارے کے قریب ایک بستی میں چلے گئے جو کلدانینؔ کے نام سے مشہور تھی یہاں کچھ عرصہ قیام کیا اور حضرت لوط (علیہ السلام) اور حضرت سارہ ؓ ہم سفر رہے پھر کچھ دنوں کے بعد یا حران یا حاران کی جانب روانہ ہوگئے اور وہاں اللہ کے دین کی تبلیغ شروع کردی اور برابر اپنے والد بزرگوار کے لئے بارگاہ ِالٰہی میں استفغار کرتے رہے اور اس کی ہدایت کے لئے دعا مانگتے رہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) اس طرح تبلیغ کرتے کرتے فلسطین پہنچے اور فلسطین کے غربی اطراف میں کچھ عرصہ سکونت پذیر رہے یہ علاقہ اس وقت کنعانیوں کے زیر اقتدار تھا اور وہاں سے نابلس چلے گئے کچھ دیر وہاں رہے اور پھر نابلس سے چل کر مصر پہنچے یہ وہ زمانہ تھا کہ مصر کی حکومت ایسے خاندان کے ہاتھ میں تھی جو سامی قوم سے تعلق رکھتا تھا اور اس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کا نسبی سلسلہ وابستہ تھا ۔ یہاں پہنچ کر ابراہیم (علیہ السلام) اور فرعون مصر کے درمیان کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جس سے اس کو یقین ہوگیا کہ ابراہیم اور اس کا خاندان اللہ کا مقبول اور برگزیدہ خاندان ہے۔ یہ دیکھ کر اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی سارہ (رح) کا بہت اعزاز کیا اور ان کی ہر قسم کے مال و منال سے نوازا اور صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے قدیم خاندانی رشتہ کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لئے اپنی بیٹی ہاجرہ کو بھی ان کی زوجیت میں دے دیا جو اس زمانہ کے رسم و رواج کے اعتبار سے پہلی اور بڑی بی بی کی خدمت گزار قرار پائیں۔ چناچہ اس تاریخی قیاس کی سب سے بڑی شہادت خود یہود کے یہاں بھی موجود ہے۔ ” سفر الیشا جو یہودیوں کی ایک معتبر تاریخ ہے ، میں مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم کے زمانہ میں مصر کا بادشاہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہم وطن تھا۔ “ (ارض القرآن جلد 2 ص 41) اس طرح یہود کی معتبر روایات سے یہ مسئلہ بھی صاف اور روشن ہوجاتا ہے کہ حضرت ہاجرہ شاہ مصر یعنی فرعون کی بیٹی تھیں ۔ لونڈی اور باندی نہیں تھیں۔ اس لئے بنی اسرائیل کا یہ طعن کہ بنی اسماعیل ہم سے کمتر ہیں کہ وہ لونڈی سے ہیں اور ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی سارہ ؓ سے صحیح نہیں ہے اور واقعہ اور تاریخ دونوں ہی کے خلاف ہے اور جس طرح تورات کے دوسرے مضامین میں تحریف کی گئی ہے اسی طرح اس واقعہ میں بھی تحریف کی گئی ہے اور واقعہ کی تمام تفصیلات کو حذف کر کے ” لونڈی “ کا لفظ باقی رہنے دیا گیا ہے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) مصر سے جب نکلے تو آپ کے ساتھ سارہ ، ہاجرہ اور لوط (علیہ السلام) اور ان کی بیوی اور بہت سا مال و دولت اور خدام ساتھ تھے جو بادشاہ مصر نے عطا کئے تھے ۔ وہاں سے نکل کر دوبارہ ابراہیم (علیہ السلام) اسی مسکن کی طرف آئے جو ان کے لئے دار ال ہجرت کا مقام قرار پایا تھا اور قادیشی اور شور کا بیابان تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہاں ایک کنواں کھودا اور باغات لگائے اور مدت تک یہاں آباد رہے اور یہاں آکر لوط (علیہ السلام) وادی اردن کی طرف چلے گئے اور بستی سدوم کو اپنا رہائشی مقام بنایا۔ پھر ایک وقت آیا کہ لوط (علیہ السلام) کو یہاں سے ہجرت کر کے نکل جانے کا حکم ہوا اور اس بستی کو عذاب الٰہی کے ساتھ غرق اور تباہ وبرباد کردیا۔ اس وقت تک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اولاد سے محروم تھے اور ہاجرہ کے ساتھ نکاح ہونے کے بعد جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے دارال ہجرت میں سکونت اختیار کرلی تو اللہ تعالیٰ نے اولاد کا سلسلہ بھی جاری کردیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے گھر کا مالک ایک خانہ زاد الیعزر دمشقی تھا۔ ایک روز حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فرزند کے لئے دعا کی اور اللہ نے آپ کی دعا کو قبولیت بخشی اور ان کو ان الفاظ میں تسلی دی۔ ” ابرام نے کہا اے خداوند ! ذرا تو مجھ کو کیا دے گا میں تو بےاولاد جاتا ہوں اور میرے گھر کا مختار الیعرز ہے پھر ابراہیم نے کہا کہ تو نے مجھے فرزند نہ دیا اور دیکھ میرا خانہ زاد میرا وارث ہوگا۔ تب خداوند کا کلام اس پر اترا اور اس نے کہا کہ یہ تیرا وارث نہیں ہونے کا بلکہ جو تیری صلب سے پیدا ہوگا وہی تیرا وارث ہوگا۔ “ (پیدائش 15 : 2 ، 4) اور یہ دعا اس طرح قبول ہوئی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی چھوٹی بی بی حضرت ہاجرہ حاملہ ہوئیں۔ ” اور وہ ہاجرہ کے پاس گیا اور وہ حاملہ ہوئی۔ (پیدائش 16 : 4) ” پھر خداوند کے فرشتے نے اسے کہا کہ میں تیری اولاد کو بہت بڑھاؤں گا کہ وہ کثرت سے گنی نہ جائے گی اور خداوند کے فرشتے نے اسے کہا کہ تو حاملہ ہے اور تو ایک بیٹے کو جنے گی اس کا نام اسماعیل رکھنا کہ خداوند نے تیرا دکھ سن لیا اور وہ وحشی بدوی آد می ہوگا۔ اس کا ہاتھ سب کے اور سب کے ہاتھ اس کے برخلاف ہوں گے اور وہ اپنے سب بھائیوں کے ساتھ بود وباش کرے گا۔ ” (پیدائش 16 : 7 ‘ 12) حضرت ہاجرہ جس مقام پر فرشتہ سے ہمکلام ہوئیں اس جگہ ایک کنواں تھا ۔ ہاجرہ نے یاد گار کے طور پر اس کا نام ” زندہ نظر آنے والا کنواں “ رکھا تھوڑے عرصہ کے بعد ہاجرہ کے بیٹا پیدا ہوا اور فرشتہ کی بشارت کے مطابق اس کا نام اسماعیل رکھا گیا۔ “ چناچہ تورات میں آج بھی موجود ہے کہ۔ ” اور ہاجرہ ابرام کے لئے بیٹا جنی اور ابرام نے اپنے اس بیٹے کا نام جو ہاجرہ جنی اسماعیل رکھا اور جب ابرام کے لئے ہاجرہ سے اسماعیل پیدا ہو تو ابرام چھیاسی برس کا تھا۔ “ (پیدائش 16 : 15 ‘ 16) ابراہیم (علیہ السلام) نے اس بیٹے کی بشارت سن کر بہت خوشی منائی اور اسکی جگہ یہ دعا مانگی : ” ابرام نے خدا سے کہا کہ کاش اسماعیل تیرے حضور جیتا رہے ۔ “ (پیدائش 17 : 18) اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ابراہیم (علیہ السلام) کی اس دعا کا جواب دیا : ” اسماعیل کے حق میں میں نے تیری سنی ، دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے برومند کروں گا اور اس کو بہت بڑھاؤں گا اور اس کے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اس کو بڑی قوم بناؤں گا۔ “ (پیدائش 17 : 20) ابراہیم (علیہ السلام) کو ہاجرہ کے بطن سے سیدنا اسماعیل جیسے بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری سنائی تھی اور پھر اپنے وقت پر بحکم الٰہی اسماعیل تولد ہوچکے تھے کہ مشیت ایزدی نے سیدہ سارہ کو بھی بیٹے کی خوشخبری سے مالا مال کردیا اور اس واقعہ کا ذکر سورة ہود میں تفصیل سے بیان فرمایا گیا۔ ارشاد الٰہی ہوا کہ : ” یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاں خوشخبری لے کر آئے تھے۔ انہوں نے کہا تم پر سلامتی ہو ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا ” تم پر سلامتی ہو۔ “ پھر ابراہیم نے دیر نہ کی ایک بھنا ہوا بچھڑا لا کر انکے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ کھاؤ ۔ پھر جب اس نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھتے تو ان سے بدگمان ہوا اور جی میں ڈر بھی محسوس کیا کہ یہ کیا بات ہے ؟ انہوں نے کہا خوف نہ کر ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) کی بی بی خیمہ میں کھڑی سن رہی تھیں وہ ہنس پڑیں ۔ پس ہم نے اسے اسحاق پیدا ہونے کی خوشخبری دی اور یہ بھی کہ اسحاق کے بعد یعقوب کا ظہور ہوگا۔ یہ سن کر وہ بولی ! افسوس مجھ پر ! کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ میرے اولاد ہوجائے حالانکہ میں تو بڑھیا ہوگئی ہوں اور یہ میرا شوہر بھی بوڑھا ہوچکا ہے ؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے ! انہوں نے کہا کہ کیا تو اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہے ؟ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں تجھ پر ہوں۔ اے اہل خانہ ابراہیم ! اس کے فضل و کرم سے یہ بات کوئی بعید نہیں بلاشبہ اس کی ذات ہے جس کی سب اچھی تعریفیں بیان کی جاتی ہیں جس کے لئے ہر طرح کی بڑائی ہے۔ یہاں ابراہیم (علیہ السلام) کو سارہ کے بطن سے بیٹا پیدا ہونے کی خبر دی گئی اور اس کی زندگی بھی اسماعیل کی طرح رجسٹرڈ کردی کہ جب تک اسحاق کے ہاں یعقوب پیدا نہ ہوجائے اسحٰق کا زندہ رہنا ضروری ہے اور وہی ہوا جس کا اعلان کیا گیا تھا۔ قرآن کریم ، حدیث اور آثار کی روشنی میں یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ سارہ کے بطن سے اسحٰق (علیہ السلام) اور ہاجرہ کے بطن سے اسماعیل (علیہ السلام) پیدا ہوئے ۔ تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک بیوی قطورا نام کی بھی تھی جس کی اولاد بنو قطورا کے نام سے معروف ہوئی۔ یہ بھی واضح ہے کہ سارہ اور قطورا سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے دوچچوں کی بیٹیاں تھیں اور قطورا کے ہاں چھ لڑکے پیدا ہوئے تھے اس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کے کُل آٹھ بچے تھے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی اولادوں میں کون سب سے بڑا ہے ؟ ہم مسلمانوں کا عام خیال یہی ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سب سے بڑے ہیں اور خصوصاً یہ کہ اسحاق (علیہ السلام) سے بڑے ہیں لیکن یہ ایسا بیان نہیں ہے جس پر جرح نہ کی جاسکتی ہو۔ اہل کتاب کے پاس اس کے دلائل موجود ہیں کہ اسحٰق (علیہ السلام) ، اسماعیل (علیہ السلام) سے بڑے تھے ۔ ہاں ! یہ بات بالکل واضح ہے کہ بنو سارہ میں انبیاعلیہم السلام بہت آئے لیکن بنو قطورا میں بھی نبوت کا سلسلہ جاری رہا اور بنوہاجرہ میں سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد ایک اور صرف ایک ہی نبی یعنی خاتم المرسلین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ مکہ میں پیدا ہوئے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے فرزند ارجمند سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) جو ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے اور بڑی امیدوں اور امنگوں کے بعد۔ آپ (علیہ السلام) کی پیدائش کی کتنی خوشی ہوگی ؟ اس سے پوچھو جو اسّی ، پچاسی سال کی عمر تک بےاولاد رہ چکا ہے ۔ ادھر اسماعیل پیدا ہوا اور نازو نعمت میں بڑھنے لگا ادھر بوڑھے باپ کو کچھ اور ہی اشارات ہونے لگے ۔ یہ کیا ہے ؟ کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ ایک طرف یہ پیشگوئی ہے جو تورات کے صفحات میں درج ہے کہ : ” اسماعیل کے حق میں میں نے تیری سن لی۔ دیکھو میں اسے برکت دوں گا اور اسے برومند کروں گا ۔ اس کو بہت بڑھاؤں گا اور اس کے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اس کو بڑی قوم بناؤں گا۔ (پیدائش 17 : 20) ایک طرف قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ ابراہیم دعا مانگتے ہیں۔ رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ 00100 (الصفت 37 : 100) ” اے میرے رب مجھ کو کوئی سعادت مند لڑکا عطا فرما۔ “ ابراہیم (علیہ السلام) کو جواب ملتا ہے۔ فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ 00101 (الصفت 37 : 101) ” اے ابراہیم ! ہم نے آپ کو ایک حلیم لڑکے کی خوشخبری دے دی۔ “ انجام کار باپ یعنی ابراہیم (علیہ السلام) ایک روز بیٹے اسماعیل کو مخاطب ہوتے ہیں کہا : فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰى 1ؕ قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُٞ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ 00102 فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِۚ00103 وَ نَادَیْنٰهُ اَنْ یّٰۤاِبْرٰهِیْمُ۠ۙ00104 قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْیَا 1ۚ اِنَّا کَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ 00105 (الصافات 37 : 102 ، 105) ” جب اسماعیل “ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ چلنے کے قابل ہوگئے تو انہوں نے ایک دن اسماعیل سے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے گویا تمہیں راہ حق میں ذبح کر رہا ہوں میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ کیا ماجرا ہے ؟ تم اس پر غور کرو کہ اب کیا کرنا چاہئے ؟ بیٹے نے بلا تامل کہا اس خواب سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی جانب سے ایک اشارہ ہے پس آپ حکم الٰہی کو پورا کیجئے۔ مجھے آپ ان شاء اللہ صبر کرنے والوں اور ثابت قدموں میں پائیں گے ۔ جب باپ اور بیٹا دونوں اللہ کے آگے جھک گئے اور باپ نے بیٹے کو کنپٹی کے بل لٹا یا تو اس وقت ہم نے آواز دی اے ابراہیم ! بس کرو تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا ہم احسان کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔ “ اس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کے خواب کی تعبیر پوری ہوئی۔ اسماعیل ذبح ہونے کے لئے تیار ہوگئے اور باپ نے بیٹے کی قربانی دے دی اور اپنے پاس دور لے جا کر بسانے کا مصم ارادہ کرلیا اور یہی خواب کی دراصل تعبیر تھی۔ اسی طرح قانون الٰہی کی حکمت پوری ہوئی اور اسماعیل (علیہ السلام) کے متعلق جو برکت دینے کا اور بڑھانے کا وعدہ الٰہی تھا آج ہی اس کی تکمیل ہونا شروع ہوگئی۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی اولاد میں سے سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) بیت اللہ کے قریب لابسایا ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے : رَبَّنَاۤ اِنِّیْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِ 1ۙ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْۤ اِلَیْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَشْكُرُوْنَ 0037 رَبَّنَاۤ اِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِیْ وَ مَا نُعْلِنُ 1ؕ وَ مَا یَخْفٰى عَلَى اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ 0038 اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ وَهَبَ لِیْ عَلَى الْكِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ 1ؕ اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآءِ 0039 رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ 1ۖۗ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ 0040 رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ (رح) 0041 (ابراہیم 14 : 37 ، 41) ” اے ہم سب کے پروردگار تو دیکھ رہا ہے کہ ایسے مقام میں جہاں کھیتی کا نام و نشان نہیں میں نے اپنی بعض اولاد تیرے محترم گھر کے پاس لا کر بسادی ہے اور اے اللہ ! اے ہمارے رب ! اس لئے بسائی ہے کہ نماز قائم رکھیں پس تو ایسا کر کہ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوجائیں اور ان کے لئے زمین کی پیداوار سے سامان رزق مہیا کر دے تاکہ تیرے شکر گزار ہوں ۔ اے ہمارے رب ! ہم جو کچھ چھپاتے ہیں وہ بھی تو جانتا ہے جو کچھ ظاہر کرتے ہیں وہ بھی تیرے علم میں ہے۔ آسمان و زمین کی کوئی چیز نہیں جو تجھ سے پوشیدہ ہو۔ ساری ستائشیں اور سب ہی اچھی تعریفیں تیرے لئے ہیں جس نے باوجود بڑھاپے کے مجھے اسماعیل اور اسحٰق دو فرزند عطا فرمائے۔ بلاشبہ میرا رب اپنے بندوں کی دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے۔ اے میری یہ دعا قبول فرما۔ اے ہمارے رب ! جس دن اعمال کا حساب لیا جائے تو مجھے اور میرے ماں باپ کو اور ان سب کو جو ایمان لائے اپنے فصل وکرم سے بخش دے۔ “ ایک مدت تک سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) اپنے باپ آذر کے لئے خصوصی دعا مانگتے رہے۔ ہجرت کر آنے کے بعد بھی ابراہیم (علیہ السلام) نے یقیناً اپنے اصل وطن سے اپنے تعلقات منقطع نہیں کئے۔ اپنے لوگوں کو وقتاً فوقتاً حالات معلوم کرنے کے لئے حاران بھیجتے رہے لیکن والد بزرگوار کے حق مشیت ایزدی نے دعا کی قبولیت نہیں رکھی تھی اور والد گرامی کا بضد رہنا بھی قانون الٰہی میں تھا۔ جب کوئی چارہ کارنہ رہا تو اب ہاتھ اٹھانے کی ممانعت ہوگئی۔ آخر کار سیدنا ابراہیم علیہ اسلام کو وحی الٰہی نے مطلع کیا کہ آذر ایمان لانے والا نہیں ہے بلکہ وہ انہی اشخاص میں سے ہے جنہوں نے اپنی نیک استعداد کو فنا کر کے خودد کو اس کے مصداق بنا لیا : خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ 1ؕ وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌٞ (بقرہ : 7) ” اللہ نے اپنے قانون کے مطابق ان کے دلوں اور کانوں پر مہر ثبت کردی اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے۔ “ اس اطلاع کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) نے صاف اعلان کردیا کہ جو امید موہوم میں نے لگا رکھی تھی وہ اب ختم ہوگئی۔ وَ مَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّاہُ 1ۚ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ 1ؕ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ 00114 (التوبہ 9 : 114) اور ابراہیم نے جو اپنے باپ کے لئے بخشش کی آرزو کی تھی تو صرف اس وجہ سے کہ اپنا وعدہ پورا کردے جو وہ اس سے کرچکا تھا۔ لیکن جب اس پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کی سچائی کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگیا۔ بلاشبہ ابراہیم بڑاہی دردمند و بردبار انسان تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی کا بیشتر حصہ اپنے والد اور اپنی قوم کو تبلیغ کرنے میں گزر گیا اور انجام کار اپنا ملک اور خاندان اور مال و متاع سب کو خیر باد کہنا پڑا مہاجر ہو کر وطن عزیز سے نکل کھڑے ہوئے تھے لیکن اب اللہ نے دنیا کی ہرچیز عطا فرما دی تھی اور اس وقت ابراہیم زمین حجاز کے اندر قیام پذیر ہیں اور اللہ کے گھر یعنی بیت اللہ کے قریب اپنے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کو بحکم الٰہی آباد کرچکے ہیں اور پھر دست بدعا ہیں۔ رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّ اجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَؕ0035 (ابراہیم 14 : 35) ” اور وہ وقت یاد کروجب ابراہیم نے دعا مانگی کہ اے میرے رب ! اس شہر کو امن کی جگہ بنا دیجئو اور مجھے اور میری نسل کو اس بات سے دور رکھیو کہ بتوں کی پوجا کرنے لگیں۔ رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ 1ۚ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْ 1ۚ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ 0036 (ابراہیم 14 : 36) ” اے میرے رب ! ان بتوں نے بہت سے آدمیوں کو راحق سے بھٹکا دیا ہے تو جو میرے پیچھے چلا وہ میرا ہوا جس نے میرے طریقہ سے نافرمانی کی اس سے میرا کوئی رشتہ نہیں اور تو بخشنے والا رحمت کرنے والا ہے۔ “ اب ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم ہوتا ہے کہ آپ کو جو برکت دینے کا وعدہ تھا وہ پورا ہونا شروع ہوگیا۔ آپ کی اولاد اور اولاد در اولاد کو نینوا کے کناروں سے لے کر سرزمین حجاز تک پھیلا دیا گیا ہے اور مزید ان کو پھیلتے ہی جانا ہے آپ ان کے لئے جو اس وقت موجود ہیں لیکن تیرے ہیں اور ان کے لئے جو قیامت تک تیرے کہلواتے رہیں گے ان سب کے لئے ایک مرکز تعمیر کر دو اور ان کو ہر طرف سے اس مرکز پر اکٹھے ہونے کے لئے پروانہ ہدایت جاری کر دیجئے۔ قرآن کریم میں ہے : وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ0027 (الحج 22 : 27) ” اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے ابراہیم کے لئے بیت اللہ کی جگہ مقرر کردی اور حکم دیا کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرنا اور میرا یہ گھر ان کے لئے پاک رکھ جو طواف کرنے والے ہیں ۔ عبادت میں سر گرم رہنے والے ہوں۔ رکوع و سجور میں جھکنے والے ہوں اور یہ بھی حکم دیا تھا کہ لوگوں میں حج کا اعلان پکاردے۔ لوگ تیرے پاس دنیا کی تمام دور دراز راہوں سے آیا کریں گے پاپیادہ اور ہر طرح کی سواریوں پر جو مشقت سفر سے تھکی ہوئی ہوں گی وہ اس لئے آئیں گے کہ اپنے فائدہ پانے کی جگہ حاضر ہوں۔ گویا ان آیات میں واضح کیا گیا کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس عبادت گاہ کی بنیاد رکھی تو کیا مقاصد ان کے پیش نظر تھے اور وحی الٰہی نے کس راہ کی تلقین کی تھی ؟ اور پھر حج کا اعلان کیا گیا تو اس کے بنیادی اعمال و مقاصد کیا کیا تھے ؟ اور کس طرح وحی الٰہی نے اس کی راہنمائی کی تھی ؟ خلاصہ ان کا یہ ہے کہ : (ا) توحید کا اعتقاد۔ (ب) عبادت گزاران حق کے لئے عبادت خانہ کی تظہیر۔ (ج) حج کا اجتماع تاکہ اس کے گوناگوں منافع سے لوگ مستفید ہوں اور معین ایام میں ذکر الٰہی کا ولولہ تازہ ہوتا رہے۔ (د) جو لوگ اس موقع پر جمع ہوں جانوروں کی قربانیاں کریں اور محتاجوں کے لئے غذا کا اہتمام ہو۔ یہ ایک امت (247) تھی جو گزر چکی انجام کار یاد رہے کہ جس مرکز عبادت کا قیام اوّل دن سے ان فوائد ومقاصد کے لئے ہوا ہے ہر دور میں ان مقاصد و فوائد کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اس میں اس اسلام اور قوم مسلم کی فلاح و بہود کا راز ہے جو صحیح معنوں میں ملت ابراہیم ہے۔
Top